جیل سے 32 سال بعد رہا ہونے والی خاتون جنھیں پھانسی دینے کے لیے پھندہ تک تیار ہو چکا تھا


نلنی
انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل میں سزا پانے والی خاتون نلنی کو 32 سال بعد جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔

گذشتہ ہفتے انڈیا کی سپریم کورٹ نے نلنی اور آر پی روی چندرن سمیت ان تمام مجرموں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا، جو راجیو گاندھی قتل کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

یہ حکم جاری ہونے کے ایک گھنٹہ کے اندر تمام ملزمان جیل سے باہر آ گئے۔

ان چھ مجرموں میں سے چار، سنتھن، مروگن، جے کمار اور رابرٹ پیاس، سری لنکا سے تعلق رکھتے ہیں۔

بی بی سی سے خصوصی گفتگو میں رہائی پانے والی نلنی نے کہا کہ اب وہ اپنے خاندان کو متحد کرنے اور اپنے خاندانی تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں گی۔

جب نلنی کو راجیو گاندھی کے قتل میں گرفتار کیا گیا وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ انھیں اس وقت حاملہ ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ گرفتاری کے فوراً بعد ان کے شوہر، ماں اور چھوٹے بھائی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

نلنی سری ہرن کو خودکش سکواڈ کی رکن ہونے کا قصوروار پایا گیا تھا اور ان کو تین دیگر مجرموں کے ساتھ موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

لیکن راجیو گاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی کی اپیل کے بعد ان کی سزا کو کم کر کے عمر قید میں بدل دیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ اپنی رہائی کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی تھیں۔ نلنی کا کہنا ہے کہ وہ جیل جانے سے پہلے ان تمام چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔

’جب مجھے ریمانڈ پر لے جایا گیا اور ایک الگ سیل میں رکھا گیا تو میں بہت خوفزدہ تھی۔‘

’میں بہت روئی۔ میری ماں بھی قریبی سیل میں بند تھیں۔ وہ بھی بہت خوفزدہ تھیں۔ میری حالت دیکھ کر وہ بھی رونے لگیں۔‘

’میں نے رائفلیں تھامے سی آر پی ایف کے جوانوں سے کہا کہ بہتر ہوتا کہ وہ ہمیں گولی مار دیتے۔‘

نلنی

جیل کا تجربہ

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اتنا چیخی کہ میرے حلق سے خون نکلنے لگا۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ جب مجھے گرفتار کیا گیا تو مجھے پانچ دن تک بخار تھا یہاں تک کہ میں بستر سے نہیں اٹھ سکتی تھی۔‘

’انھوں نے مجھے دو دن تک سونے نہیں دیا۔ مجھ میں ان حالات کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔‘

’جب حالات بہتر ہو رہے تھے، میرے سینے میں درد شروع ہو گیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ میں ڈرامہ کر رہی ہوں لیکن جب ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو اسے یہ شکایت درست معلوم ہوئی۔‘

جب عدالت نے راجیو گاندھی قتل کیس میں موت کی سزا سنائی، تو نلنی کے مطابق وہ حیران رہ گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی بھی جرم کرنے کا اقرار نہیں کیا لیکن میں کبھی اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت نہیں کر پائی۔‘

’فیصلے کے بعد مجھے دوسرے سیل میں منتقل کر دیا گیا۔ وہ ہمیں اس طرح بند رکھتے تھے جیسے سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا جس کے حالات کچھ بہتر ہو گئے۔‘

نلنی کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان پہلے ہی مالی طور پر مضبوط نہیں تھا مگر ان کی گرفتاری کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے۔

نلنی

یہ بھی پڑھیے

راجیو گاندھی قتل کیس کے تمام مجرم تیس سال بعد رہا

انڈیا کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی: ’میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، میں ویسے بھی مارا جاؤں گا‘

جب راجیو گاندھی نے سونیا گاندھی کے قریب آنے کے لیے ’رشوت‘ دی

نلنی کہتی ہیں ’مجھے دیگر خاندانوں کے لیے بھی افسوس ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کو کوئی مالی مدد ملی یا نہیں۔ یہ واقعی ان کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔‘

’میرے خیال میں گھر کے سربراہ کو کھو دینا واقعی ایک بڑا نقصان ہے۔ میرے خیال میں انھیں ہمارے موقف کو سمجھنا چاہیے۔‘

انھوں نے سوال کیا کہ ’ان لوگوں کے قتل کے پیچھے میرا کیا مقصد ہو سکتا تھا؟ کیا میں ان کو مار کر اپنی روزی کمانا چاہتی تھی؟‘

وہ خود ہی اس کا جواب دیتی ہیں۔ ’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھ پر قتل کے جرم کا الزام لگایا گیا جو ہماری بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ ہم نے انھیں (راجیو گاندھی) کبھی دیکھا تک نہیں۔ ان کو نقصان پہنچانے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ میرے خیال میں انھیں یہ سمجھنا چاہیے۔‘

نلنی کہتی ہیں کہ جب ان کی سزائے موت منسوخ ہوئی تو باقی لوگوں کی بھی امیدیں بڑھ گئیں۔ تاہم اس سے پہلے ان کی پھانسی کے بارے میں سات اعلانات سامنے آئے تھے۔
چار مرتبہ پھانسی کی تاریخ طے ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک مذہبی رہنما ان کی آخری خواہش جاننے کے لیے آیا اور ایک بار تو تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔

پھانسی کی رسی، پھانسی دینے کے لیے سیل بھی تیار ہو چکا تھا۔ ان کا وزن بھی لیا گیا اور اسی وزن کی ریت کی تھیلی لٹکا کر ریہرسل بھی کی گئی۔

راجیو

نلنی بتاتی ہیں کہ ’یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ لیکن میں نے کبھی امید نہیں چھوڑی۔ میں نے سوچا، میں نے کچھ غلط نہیں کیا، اس لیے میرے ساتھ کچھ برا نہیں ہو گا۔‘

اب جب کہ رہائی کے بعد ان کے پاس نئی زندگی شروع کرنے کا ایک موقع ہے تو نلنی کہتی ہیں کہ ’میں اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں خاندان کو متحد کرنا چاہتی ہوں۔‘

راجیو گاندھی کی ہلاکت

21 مئی 1991 کو سابق انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی ریاست تمل ناڈو میں چنئی کے قریب سریپرمبدور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران دھنو نامی ایل ٹی ٹی ای رکن کے خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اس خودکش حملے میں راجیو گاندھی اور حملہ آور دھنو سمیت 16 افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ 45 افراد شدید زخمی ہو گئے تھے۔

اس معاملے میں ٹرائل کورٹ نے 26 مجرموں کو موت کی سزا سنائی تھی۔ تاہم مئی 1999 میں سپریم کورٹ نے 19 افراد کو بری کر دیا۔ باقی سات ملزمان میں سے چار (نلنی، مروگن عرف سری ہرن، سنتھن اور پیراریولن) کو موت کی سزا سنائی گئی اور باقی افراد (روی چندرن، رابرٹ پیاس اور جے کمار) کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

ان چاروں کی رحم کی درخواست پر تمل ناڈو کے گورنر نے نلنی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ باقی ملزمان کی رحم کی درخواست صدر نے 2011 میں مسترد کر دی تھی۔

تمام ملزمان اپنی قبل از وقت رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے طویل قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔

تمل ناڈو حکومت نے بھی گورنر سے انھیں وقت سے پہلے رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم گورنر نے اس سفارش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فائل صدر کو بھیج دی۔

نلنی

نلنی اور روی چندرن نے مدراس ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ تمل ناڈو حکومت کو ان کی رہائی کی ہدایت دی جائے۔

اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ کابینہ نے ستمبر 2018 میں ان کی رہائی کی جو سفارش کی تھی اسے گورنر کی منظوری کے بغیر نافذ کیا جائے۔

نلنی کی رہائی کی بنیاد 18 مئی کو پیراریوالن کی رہائی تھی۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 142 میں دیے گئے غیر معمولی اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے پیراریولن کو رہا کر دیا تھا۔

پیراریولن نے راجیو گاندھی قتل کیس میں 30 سال عمر قید کی سزا کاٹی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments