خان صاحب، سوال ہوں گے اور جواب دینا پڑے گا


عمران خان صاحب آپ ایک سانس میں ریاست مدینہ کی مثالیں دیا کرتے تھے تو دوسری سانس میں ہمیں مغربی ممالک کے حکمرانوں کے قصے سنایا کرتے تھے۔ لیکن خان صاحب ہم اس وقت آپ کو سمجھاتے تھے کہ ریاست مدینہ سے موازنہ درست نہیں لہذا ہم آپ کو بھی اس پیمانے پر پرکھنے کی حمایت تو نہیں کر سکتے۔ خان صاحب ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر انسان میں بشری کمزوریاں ہیں لہذا آپ کی اخلاقی حیثیت پر سوال پر اٹھانے کی جسارت بھی ہم نہیں کریں گے۔

خان صاحب مگر آپ کے اس قول کی روشنی میں کہ اگر کسی نے چوری نہیں کی تو تلاشی دینے میں کس بات کا ڈر، ہم آپ سے چند سوالات کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ازراہ کرم ان کا جواب ضرور عنایت فرمائیں گے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کس فارمولے کے تحت آپ نے ایک برادر اسلامی ملک کے سربراہ سے تحفے میں ملنے والی گھڑی کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے دس گنا کم قیمت پر لگوائی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے جس قیمت پر یہ تحفہ توشہ خانہ سے خریدا اس وقت کے آپ کے ڈکلیئر اثاثوں میں اتنی رقم موجود ہی نہیں تھی تو یہ ادائیگی آپ کے لیے کس طرح ممکن ہوئی؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ تحفہ خریدنے کے بعد آخر آپ نے فرح گوگی کے ذریعے ہی 20 لاکھ ڈالر میں گھڑی کیوں فروخت کی؟ چوتھا سوال یہ ہے آپ نے یہ تحفہ کسے فروخت کیا؟ پانچواں سوال یہ ہے اگر آپ کے مطابق یہ تحفے آپ نے عمر فاروق کو نہیں بیچے تو اس تک کیسے پہنچے؟ چھٹا سوال یہ ہے کہ تحائف سے ملنے والی رقم کہاں ہے، کیا یہ رقم پاکستان لائی گئی یا نہیں؟ ساتواں سوال یہ کہ تحائف سے ملنے والی رقم کی بینکنگ ٹرانزیکشن کہاں ہے؟

آٹھواں سوال یہ ہے کہ گھڑی کے خریدار عمر فاروق کے دعوے کے مطابق اس نے یہ 28 کروڑ میں خریدی تو آپ نے پونے 6 کروڑ روپے میں فروخت کیوں دکھائی؟ آخری سوال خان صاحب یہ ہے کہ گھڑی ساز کمپنی کے تخمینے کے مطابق 2019 میں ان تحائف کی قیمت 1 ارب 70 کروڑ روپے تھی، تو آپ نے محض 2 کروڑ 12 لاکھ روپے ادا کر کے تحائف کیوں لیے؟ خان صاحب آپ کے پاس تو بنی گالا کی زمین کی خریداری کے لیے درکار رقم حاصل کرنے کا تیس سال پرانا ریکارڈ موجود تھا، اس گھڑی کی کہانی تو اتنی پرانی بھی نہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ پھر اس کی ٹرانزیکشن آپ کے پاس موجود نہ ہوں؟ خان صاحب اگر آپ تحفے کی خرید و فروخت سے متعلق ٹرانزیکشن فراہم نہیں کرتے تو پھر ثاقب نثار کی جانب سے آپ کو عطا کردہ صداقت و امانت کے سرٹیفیکٹ پر بھی سوالات اٹھیں گے۔

خان صاحب جب سوال ہوتا تھا کہ آپ کے اردگرد تو وہی روایتی سیاستدان ہیں جنہیں آپ چور ڈاکو کہا کرتے تھے، تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ اوپر بندہ ٹھیک ہو تو نیچے معاملات خودبخود درست ہو جاتے ہیں۔ خان صاحب آپ کی کابینہ کے معاملات کھلنے سے پہلے ہی آپ نے اپنے متعلق دیانتداری کے تاثر پر سوالات کھڑے کر لیے ہیں۔ سوچیں جب اداروں کا آپ اور آپ کی جماعت سے متعلق نرم رویہ ختم ہو گا تو معاملہ کہاں پہنچے گا؟ آپ کی حکومت میں جب ہم نے ایک پراپرٹی ٹائیکون کی برطانیہ میں پکڑی گئی رقم آپ کی کابینہ کی طرف سے واپس کرنے کے حوالے سے کالم لکھا تو میڈیا پر عائد غیر علانیہ سنسر شپ کی وجہ سے وہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔

خان صاحب کل رات اس رقم کی معافی کے حوالے آپ کے قریبی ساتھی اور اس وقت کے وفاقی وزیر فیصل واڈا نے ببانگ دہل شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، ان اعتراضات کا جواب تو کم از کم آپ کو ضرور دینا چاہیے۔ خان صاحب آپ کے دور میں چینی اسکینڈل کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ جاری ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی شوگر ایڈوائزری بورڈ نے یہ کہہ کر کہ شوگر ملز کے پاس چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے، چینی ایکسپورٹ کرنے کی سفارش کی۔

اس بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ای سی سی نے نہ صرف گیارہ لاکھ ٹن چینی برآمد کی منظوری دی بلکہ صوبوں کو اختیار دیا کہ وہ شوگر ملوں کو تین ارب روپے تک کی سبسڈی دے سکتے ہیں۔ خان صاحب خود آپ اور آپ کی کابینہ نے ان فیصلوں کی توثیق کی اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور ان کی صوبائی کابینہ کی منظوری سے سبسڈی مل مالکان کو دی گئی۔ جونہی مگر برآمد شروع ہوئی ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی اور اس کے نرخ دگنے ہو گئے۔ بعد ازاں اپنی چینی اونے پونے باہر بھیجنے اور ملز مالکان کو سبسڈی ادا کرنے کے بعد ڈالرز میں ادائیگیاں کر کے مہنگے داموں چینی واپس امپورٹ کی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف چینی کی مد میں قوم کا ڈھائی سو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا، ابھی یہ حساب بھی باقی ہے۔

خان صاحب ایل این جی امپورٹ میں بھی آپ کی حکومت کا بہت بڑا اسکینڈل موجود ہے اور آپ کی کابینہ کی بد نیتی کی وجہ سے آج ملک توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ خان صاحب آپ کے توانائی سے متعلق مشیر اچھی طرح جانتے تھے کہ عالمی منڈی میں ایل این جی کی خرید و فروخت عموماً تین طریقوں سے ہوتی ہے طویل المدت معاہدے، قلیل المدت معاہدے اور اسپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے اور سب سے بہتر ڈیل طویل مدتی ہی ہوتی ہے۔ نون لیگ کے دور حکومت میں قطر سے ایل این جی کی جو ڈیل ہوئی وہ طویل المدت معاہدے کے تحت ہوئی تھی جس میں لمبے عرصے کے لیے ایل این جی کا نرخ پٹرول کی قیمت کا کتنے فیصد ہو گا طے کر لیا جاتا ہے۔

پاکستان اور قطر میں 15 سالہ معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت قطر اس مدت کے دوران پٹرول کی قیمت کے 13.37 فیصد کے حساب سے ایل این فراہم کرے گا تاہم 10 سال بعد قیمت پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور آپ کو یاد ہو گا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر قطر کے ساتھ ایل این جی کی خریداری کے اسی 15 سالہ معاہدے کی وجہ سے آپ نے کرپشن کا ریفرنس بنایا تھا۔ خان صاحب آپ کی حکومت کا الزام تھا کہ نون لیگ کی حکومت مہنگے طویل مدتی معاہدے میں ملک کو پھنسا کر چلی گئی ہے۔

خان صاحب آپ کو یہ جواب بھی دینا ہو گا کہ آپ کی حکومت میں نون لیگ سے بہتر ریٹ پر کون سا نیا معاہدہ ہوا اور آپ نے مستقبل کے لیے گیس کی رسد بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ہر شخص جانتا ہے سردی میں گیس کی طلب بڑھتی ہے اور جس چیز کی طلب بڑھے اس کے نرخ میں اضافہ فطری امر ہے۔ خان صاحب آپ کے دور میں تو سپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے خریداری میں بھی ہر مرتبہ جان بوجھ کر تاخیر کی جاتی رہی۔ خان صاحب یہ کئی ارب روپے کا ڈاکا ہے قوم کی جیب پر۔

خان صاحب اب کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ ایل این جی امپورٹ میں تاخیر کی وجہ آپ کی حکومت کے مشیروں کے اپنے کاروباری مفادات تھے۔ اس پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ ایل این جی کی خریداری میں ہمیشہ طویل مدتی معاہدہ ہی سود مند ہوتا ہے اس کے باوجود شاہد خاقان عباسی پر ریفرنس قائم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے معاہدے سے قیمت فکس کیوں کی تو کیا آپ اور آپ کی کابینہ سے اس نقصان بارے باز پرس نہیں ہونی چاہیے؟ خان صاحب اب غصہ نہ کریں سوالات تو اور بھی بہت ہیں اور سوال ضرور ہوں گے اور جواب آپ کو دینا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments