غم دوراں: بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے


مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بشر کو بشر کی اوقات بھلا دیتی ہے
آؤ، اس ماں کی بھی کچھ زبانی سنیں
بچوں کو جو روز بھوکا سلا دیتی ہے
اپنی عزت کے بھروسے جو تھی مجبور کھڑی
آخر اک روز وہ سر اپنا جھکا دیتی ہے
اس کے دامن پر لگے داغ یہی کہتے ہیں
بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے۔

کوئی بھی چینل یا اخبار دیکھ لیجیے پورا پاکستان غم عمران میں گھل رہا ہے، لگتا ہے کہ غم دوراں ہمارا مسئلہ نہیں۔

دنیا بھر میں کیا پاکستان میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہے، لیکن اس کا ذکر آ جائے تو ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ قارئین اور ناظرین بھی اسے مداخلت بے جا سمجھتے ہیں۔ چنائی، بھارت سے آنے والی یہ خبر ملاحظہ کیجئے۔

بریانی کی ایک پلیٹ نے بوڑھے میاں بیوی کی جان لے لی۔ ایک ریٹائرڈ ملازم 74 سالہ کرونا کرن بریانی کی پلیٹ لایا اور اکیلا ہی کھانے لگا، اس کی 70 سالہ بیوی پدماوتی بھی بھوکی تھی۔ اس نے بریانی مانگی تو کرونا کرن مشتعل ہو گیا اور تیل چھڑک کر بیوی کو آگ لگا دی۔ بیوی کو آگ لگی تو اس نے خاوند کو بھی پکڑ لیا اور معاملہ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم ’تجھے بھی لے ڈوبیں گے“ والا ہو گیا اور دونوں جل مرے۔

یہ خبر معاشیات ’سماجیات اور نفسیات تینوں شعبوں کے ماہرین کے لئے دعوت فکر ہے مگر انہیں اس کی فرصت کہاں؟

سنتے آئے ہیں کہ جب جسم بوڑھے ہوتے ہیں تو محبت جواں ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو ماجرا ہی الٹ گیا۔ زندگی کے آلام و مسائل نے ایک بوڑھے کو نفسیاتی مریض اور پھر قاتل بنا دیا اور پھر خود بھی مقتول ہو گیا۔

میرے خیال میں سماجیات ’نفسیات اور معاشیات ہی نہیں‘ دینی قیادت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ یہ کیا اور کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان بھی اسی آزار کا شکار ہے مگر ان دنوں حکومت و ریاست ایسی بے کار سوچوں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانتی ہے۔ پاکستان میں ماجرا کیا ہے اس کی عکاسی ان خبروں سے ہوتی ہے۔

» حافظ آباد میں ایک خاتون شگفتہ نے شوہر سے جھگڑے کے بعد اپنے اڑھائی سال اور ایک سال کی عمر کے دو بچوں کو چھری سے ذبح کر دیا۔

» کھاریاں میں ایک شخص نے ’غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے چھ اور نو سال کی عمر کے دو بچوں ابوبکر اور بسمہ کو زہر دے کر مار ڈالا

» کھاریاں میں ہی کچھ دن پہلے باپ نے اپنی چھ سالہ بچی پانی میں ڈبو کر قتل کر دی۔
» نوشہرہ ورکاں میں 5 سالہ بچے مدثر کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا، جس کی لاش سکول سے ملی۔

»رحیم یارخان میں ایک 25 سالہ خاتون کو ماں بننے کے چھ گھنٹوں بعد ہی اس کے جیٹھ نے ”کاری“ کا الزام لگا کر گردن کاٹ دی، اور نوزائیدہ بچے کو یتیم کر دیا۔

» ایک خاتون قتل کر دی گئی، وہ جان بچانے کے لئے ہمسایوں سے مدد مانگتی رہی ’کوئی مدد کو نہ آیا اور سب نے گھروں کے دروازے بند کر لئے۔

»چارسدہ میں ایک خاتون نے اپنی دو سوتیلی بیٹیوں کو زہر دے کر قتل کر دیا۔
»لاہور میں 5 سالہ بچے ایان کا گلا
کاٹ کر نعش ریلوے لائن کے پاس پھینک دی۔

»حیدرآباد میں سات سالہ بچی زارا فیصل کی پھانسی لگی لاش چھت سے اس حالت میں ملی کہ ننھے سے جسم پر چھریوں سے لگائے گئے زخموں کے کئی نشانات تھے۔

» کراچی میں ایک عورت ایسے بارہ سالہ بچے کی لاش ہسپتال میں پھینک گئی جسے کئی افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور مار ڈالا۔

یہ تمام واقعات صرف ایک ہفتے کے ہیں جو رپورٹ ہوئے جو رپورٹ نہیں ہوئے وہ اس کے علاوہ ہوں گے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے کچھ اور واقعات بھی نظر سے گزرے وہ بھی قارئین سے شیئر کردوں۔

»پانچ بچوں کے باپ نے گرم کپڑے مہیا کرنے کی استطاعت نہ ہو نے پر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
»ایک نوجوان نے غربت اور قرض خواہوں سے تنگ آ کر بجلی کے تار سے لٹک کر خودکشی کرلی۔
»ایک خاتون نے پانچ بچوں سمیت زہر کھا لیا۔

»محمد اسماعیل بچوں کو دودھ کے لیے بلکتا دیکھتا رہا دو سال سے بے روزگاری کی سزا بھگت رہا تھا گلے میں پھندا ڈال کر زندگی کی اذیتوں سے راہ فرار حاصل کرلی۔

»رکشہ ڈرائیور نے فاقوں اور قرضوں سے تنگ آ کر چھ بچوں سمیت زہر کھا لیا۔

کسی بھی ملک کے ذرائع ابلاغ اس معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں جس میں زندگی کی کڑوی سچائی کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ افلاس و آسودگی کے درمیان جو زمین آسمان جتنا خلا ہے اس پر میڈیا کی توجہ کیوں نہیں؟ غربت تنگدستی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ لوگوں کے یہ اندوہناک واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرے میں غربت، بے روزگاری اور بے حسی اپنے عروج پر ہے اور اس میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے زندگی سے دل برداشتہ ہو کر زہریلی گولیوں یا دیگر طریقوں سے اپنی اور اہل خانہ کی زندگی کو ختم کرنے والوں کی اذیت اور دکھ جو انھوں نے مرنے سے پہلے برداشت کیے اس کو ارباب اختیار اور میڈیا نے محسوس کیا؟

حالانکہ یہ اقدام کرنے سے پہلے انہوں نے کئی اذیت ناک دن گزارنے ہوں گے۔

میڈیا اس پر کوئی پروگرام کرتا نظر نہیں آیا ’کسی سیاسی‘ سماجی ’مذہبی رہنما کے پاس اس پر بات کرنے کی فرصت نہیں۔ میڈیا عمران خان کے راستوں میں بھٹکتے ہوئے لانگ مارچ کے پیچھے سرگرداں ہے۔

غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور لوگ اپنے بچوں کے گلے کاٹ رہے ہیں، گردے اور آنکھیں بیچ رہے ہیں، خاندان سمیت آگ میں کود رہے ہیں، دریاؤں میں چھلانگیں لگا رہے ہیں اس کے باوجود ہر شخص اپنی دھن میں مگن ہے، اسے آس پاس کی خبر تک نہیں۔ شاید نہیں یقیناً ہم زوال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ کاش اس آواز پر کان دھریں جس کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ ”بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔

ہماری ایلیٹ کلاس بھی بھوکی ہے، یہ بھوک، عہدوں اور وزارتوں کی ہے جو ختم ہو نے میں نہیں آ رہی، کوئی اقتدار کا طالب ہے تو کوئی اختیار کا، کوئی شہرت کا خواہاں ہے اور کوئی دولت کا طلب گار ہے۔

مال و دولت کے لیے ملک کی بیٹیاں اور بیٹے اور تحائف بیچنا اس کے لیے معمولی بات ہے۔

پاکستان کی ترقی کے خواب دکھانے کا سلسلہ بند کر کے حقیقتاً غربت کا خاتمہ نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب پورا پاکستان ”تھر“ بن جائے۔

یہ دل خراش واقعات ہمارے اور حکمرانوں کے لئے سوالیہ نشان ہیں کہ لوگ اپنے جگر گوشوں، اور من کی دنیا آباد کرنے والوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟ کوئی بھی ان عوامل کا جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں اس وقت حالت یہ ہے۔

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کر نمک زخم سے مساج کرتے ہیں۔

غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments