ریشماں: کشمیر کی ٹرانس جینڈر خاتون جنھوں نے لوگوں کو خوشیاں دینے کے لیے درد جھیلے


ریشما
پچھلے ہفتے ریشماں، ایک مشہور ٹرانس خاتون اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک گلوکارہ، کینسر کے ساتھ طویل جنگ کے بعد چل بسیں۔ وہ 70 سال کی تھیں۔

ان کی موت سے علاقہ سوگ میں ڈوب گیا اور ہزاروں افراد نے سری نگر کے مرکزی شہر میں ان کے جنازے میں شرکت کی جہاں یہ فنکارہ رہتی تھیں۔

شادیوں پر گانے والی پیشہ ور گلوکارہ ریشماں نے تشدد اور تنازعات کے سائے میں رہنے والے ہزاروں کشمیریوں کی زندگیوں میں اپنے فن سے خوشی، مزاح اور جان ڈالی۔

انڈیا اور پاکستان دونوں ہی کشمیر پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔ انڈیا کے زیر انتظام علاقے میں تین دہائیوں سے مسلح بغاوت جاری ہے، جس میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

سری نگر کی ایک ٹرانس جینڈر خاتون سپنا کہتی ہیں، ’کشمیر میں خوشی نایاب ہے۔ تقریباً ہر کوئی کسی نہ کسی طریقے سے دباؤ میں ہے۔ لیکن ریشماں اپنی کارکردگی سے کسی کو بھی خوش کر سکتی تھیں۔‘

ان کی زندگی خطے کی پسماندہ خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے بھی ایک تحریک تھی۔

خواجہ سرا۔۔۔ جن میں ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس افراد دونوں شامل ہیں، کشمیری معاشرے میں شادیوں میں انھیں ایک منفرد مقام حاص ہوتا ہے، انھیں ’منزیمیور‘ یا میچ میکر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

لیکن انھیں امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں سے اکثر کو خاندانوں نے چھوڑ دیا اور جسمانی اور جذباتی تشدد کا نشانہ بنایا۔

ایل جی بی ٹی کیو کے کارکن اور مصنف اعزاز بند کہتے ہیں کہ دہائیوں پرانا تنازعہ نے ان کی حالت زار پر چھایا ہوا ہے اور ٹرانس رائٹس میں حالیہ پیش رفت نے ان کے حالات کو کسی حد تک بہتر بنایا ہے ۔

’ان میں سے بہت سے میچ میکر یا گلوکار بن جاتے ہیں کیونکہ معاشرہ سمجھتا ہے کہ وہ اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

تاہم، ریشما کے لیے موسیقی ہمیشہ ان کی کام رہا ہے۔

ریشماں بننا

1950 کی دہائی میں وسطی سری نگر میں پیدا ہونے والی ریشماں کا بچپن تنگی اور سمجھوتوں کے درمیان گزرا تھا۔

سکول میں انھیں نسوانی انداز میں بولنے اور لباس پہننے پر مسلسل تنگ کیا جاتا تھا۔

گھر میں حالات کم ہی بہتر ہوتے جہاں ان کا خاندان بشمول دو بہنیں اور چھ بھائی انہیں ان کے راستے ترک کرنے کے لیے نظم و ضبط سکھانے کی کوشش کرتے۔

ان تجربات نے دنیا کے بارے میں ان کا نظریہ تشکیل دیا جس کے بارے میں اپنے کیریئر میں آگے چل کر انھوں نے بات بی کی۔

انھوں نے 2019 میں صحافی حرا عظمت کو بتایا کہ ’انھوں (والدین) نے مجھے کئی بار مارا پیٹا۔۔۔ کاش انھیں میرے اندر ہونے والی لڑائیوں کا علم ہوتا۔‘

سکول میں بدسلوکی سے دل برداشتہ ہو کر انھوں نے پانچویں جماعت کے بعد سکول چھوڑ دیا اور اس کی بجائے ٹیلرنگ کا کام شروع کیا۔یہ ریشماں کی زندگی کا ایک تنہا دور تھا جب، انھوں نے کہا، وہ اکثر خود کو تنہائی میں ’دم گھٹا ہوا‘ محسوس کرتی تھیں۔

’میں اپنی عمر کے بچوں کو ہاپ سکاچ کھیلتے اور ہنستے ہوئے دیکھتی۔ میں ان کے ساتھ کیسے شامل ہو سکتی ہوں؟ مجھے معلوم تھا کہ انھیں میں عجیب لگوں گی اور وہ میرا مذاق اڑائیں گے۔‘

لیکن موسیقی ان کے لیے نجات دہندہ بن گئی۔ جب 22 سالہ ریشماں ایک خاندان کو کچھ کپڑے پہنچانے گئی  تو انھوں  نے اسے ایک گانا گانے کو کہا۔

ریشماں کھڑی ہوگئیں، اپنا گلا صاف کیا اور گنگنانے لگیں، گانا آہستہ آہستہ ان کے گلے میں بن رہا تھا اور جب وہ شائقین کے سامنے گا رہی تھی، ایک نوجوان نے ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اس پر ایک چٹ پھینکی جس پر لفظ ’ریشماں‘ لکھا ہوا تھا۔

انھوں نے بتایا ’اس طرح مجھے اپنا عوامی نام ملا‘۔

خوش ہو کر ریشماں اپنی ماں کو بتانے کے لیے گھر بھاگی۔لیکن ان کی والدہ یہ سوچ کر کہ گھر والوں نے ان کے بچے کا مذاق اڑایا ہے، وہ رو پڑیں اور ریشماں کو دوبارہ گانے سے منع کر دیا۔

لہٰذا، ریشماں نے اپنے گانے اور اپنے خواب دونوں کو روکے رکھا۔

ریشما

ایک سٹار پیدا ہوا

2001  میں جب ان کا چھوٹا بھائی ایک سڑک حادثے میں مر گیا، تو انھوں نے اس کے چار بچوں کی دیکھ بھال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے فیصلے کو معاشرے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ’ایک ٹرانس جینڈر  کسی خاندان کی پرورش کیسے کر سکتا ہے؟ یہ سوال مجھ پر مسلسل کیا جاتا رہا۔‘ انھوں نے 2019 کے انٹرویو میں کہا۔

اس کے علاوہ اور بھی اہم چیلنجز تھے ، جیسے یہ احساس کہ ایک درزی کی آمدنی چار بچوں کی پرورش کے لیے کافی نہیں ہے۔

تب ہی ریشما نے شادیوں میں گانا شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ جلد ہی تقریبات میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئیں، ان کا چمکدار دوپٹہ، ان کی کلائیوں کے گرد بندھے ہوئے رقاصوں کے گھنگروں اور ایک مسکراہٹ جو ان کی سرمہ لگی آنکھوں کو روشن کرتی تھی۔

اس کی دلکش دھنیں اور دلکش شاعری جسے انھوں نے لوک داستانوں اور  تبصروں سے آراستہ کیا تھا۔

ان میں سب سے زیادہ مقبول گانا ’ہائے ہے ویسی‘ تھا، جس نے ریشماں کو کشمیر میں مشہور شخصیت بنا دیا تھا۔

ان کی پرفارمنس کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک عاشق کے متضاد مزاج کے بارے میں لرزتی ہوئی آواز کے ساتھ گیت گا رہی ہیں ، جو بعض اوقات انھیں  تڑپاتا ہے اور کبھی ان کے دل کو خوشی سے بھر دیتا ہے۔

ہر شعر میں، وہ ایک شکایت کی صورت میں اپنے محبوب کی عادتوں کا ذکر کرتی ہے، جس میں ’ہائے ہے‘ کے الفاظ ایک نوحے کے طور پر کام کرتے ہیں۔

یہ کلپ 2018 میں وائرل ہوا تھا اور اس کے بعد سے اسے سوشل میڈیا پر دسیوں ہزار بار دیکھا جا چکا ہے۔

ریشماں کی آواز اور نرالا انداز خواتین میں خاص طور پر مقبول تھا، جن میں سے اکثر کے لیے شادیاں ہی تفریح ​​کا واحد ذریعہ ہوتی ہیں اور ایک ایسا وقت جب لوگ ایک لمحے کے لیے اپنی تلخ حقیقتوں کو بھول جاتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔

ایک خاتون یاد کرتی ہیں کہ ریشماں نے 2018 میں ان کی بیٹی کی شادی پر گانا گایا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ اکثر انگریزی جملے کو مزاحیہ انداز میں نقل کرتی تھیں تاکہ اپنی پرفارمنس میں مزید ڈرامہ شامل کر سکیں۔

’جس طرح سے انھوں نے سب کو ہنسایا! وہ سماجی اجتماعات کی ملکہ تھی‘۔

ریشما

ہمیشے رہنے والا  آئیکان

سال گزرتے گئے ریشماں کشمیر کی ٹرانس جینڈر آبادی کے لیے امید کی علامت بن گئیں جنھیں گھر میں تشدد اور سکول میں غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سپنا کہتی ہیں، ’اگرچہ ہماری کارکردگی لوگوں کو خوش کرتی ہے، لیکن ہمیں اللہ کی مخلوق کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘

لیکن ریشماں نے اپنے گانوں اور ویڈیوز کے ذریعے ٹرانس لوگوں کی صلاحیتوں کو پہچانا، وہ کہتی ہیں کہ ان کی موت سے کمیونٹی نے ’اپنی آواز کھو دی ہے۔‘

’انھوں نے اپنی پیدائش سے ہی ہمیں درپیش پسماندگی کے بارے میں بات کرنا کبھی نہیں چھوڑا‘۔

اعزاز بند کا کہنا ہے کہ اگرچہ اپنی زندگی میں ریشماں کو امتیازی سلوک اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنے پرانے انٹرویوز میں انھوں نے اس بارے میں بتایا کہ کس طرح ان پر تھوکا گیا، اجنبیوں نے ان سے بدتمیزی کی، اور یہاں تک کہ کشمیر میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں گانے اور ناچنے پر مجبور کیا، جس کی وجہ سے ان کی بے عزتی ہوئی۔

گذشتہ سال انھوں نے بتایا تھا کہ ’میں ہمیشہ ایک عورت کی طرح نظر آنا چاہتی تھی۔ لیکن اگر میں کھلے عام ایسا کرتی تو مجھے مار دیا جاتا۔‘

پورے کریئر میں بھی ان کے جنس کو لے کر غلط فہمی قائم رہے انھیں عوامی طور پر مرد کہا جاتا ہے۔

اعزاز بند کہتے ہیں ’ان کی موت کے بعد بھی لوگ انھیں ایک فنکار کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ایک ٹرانس جینڈر فرد کے طور پر پہچانا نہیں جاتا۔‘

لیکن ایک بے باک ریشماں جب تک ممکن تھا گاتی اور ہنستی رہی۔

اس کے لیے گانا ایک زندگی افزا عمل تھا، جس کے بارے میں سپنا کہتی ہیں، ایک ’خدا کی طرف سے عطا کردہ ٹیلنٹ۔‘

’ان کی گائیکی اور انداز میں لوگوں کو ہنسانے کی صلاحیت تھی۔ چاہے انھیں ان کی پوری طرح سمجھ نہ بھی آتی ہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments