لاہور، قبائلی علاقے کی نڈر عورت اور اداس اذانیں


فجر کا وقت اس قدر غمگین کیوں ہوتا ہے یا شاید یہ میرے اندر موجود احساس بہت غم سے لبریز ہے۔ کم عمری میں رونما ہونے والے حادثات ہمیشہ انسان کے ساتھ عمر بھر رہتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ فجر کا ہنگام مجھے افسردہ سا کر دیتا ہے۔ اکثر یہ احساس اس قدر حاوی ہو جاتا تھا کہ میری آرزو ہوا کرتی کہ یہ وقت آیا ہی نہ کرے یا جھٹ سے بنا کسی احساس کے گزر جائے۔

میری عمر چار برس ہوگی، جب فجر کی اذانوں سے چند لمحات قبل میری آنکھ کھلی اور میں نے اپنی خالہ کے منہ سے اپنی بڑی نانی یعنی نانی کی والدہ کے انتقال کی خبر سنی۔ آج بھی وہ احساس مجھے لئے ہوئے ہے، میرے اندر اس خبر کا رنج اور رات کی وہ چھاؤں پیوست ہے۔ جیسے ہی میں نے وہ خبر سنی، میرے اندر ایک غم سا پھیل گیا۔ میری عمر تو بہت کم تھی، پھر مجھے کیسا غم ہوتا مگر مجھے دکھ نے گھیر ضرور لئے تھا۔ سردیوں کا یہی موسم تھا، جب ہلکی ہلکی خنکی برپا ہو رہی ہوتی ہے، ابھی جاڑا بھی ٹھیک سے جھڑا نہیں ہوتا۔

پرانے گھر کی دوسری منزل کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے مجھے سردی سی معلوم ہوئی تھی۔ شاید وہ بہت بے چین کر دینے والا سماں تھا۔ رات گئے فجر سے کچھ پہلے لینڈ لائن ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ہوگی۔ خدا دشمن کے یہاں بھی رات گئے بے وقت فون نہ بجوائے۔ اس وقت اذانیں ہونا شروع ہو چکی تھیں، وہ فضا ہی آسودہ تھی، رنجیدہ تھی۔ آج بھی جب اس بات کو بائیس برس بیت چکے ہیں، رات کا یہ آخری وقت مجھے بہت رنجیدہ کرتا ہے۔ فضا میں اگر سردی ہو تو دکھ کا جھرمٹ اور وسیع ہو جاتا ہے۔ اس دکھ کی چوٹ ہی الگ سے محسوس ہوتی ہے۔

نانی کی والدہ ایک باہمت انسان تھیں۔ عام توقع یہ کی جاتی ہے کہ عورت باہمت اور بہادر کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ تو نڈر تھیں۔ نصف دہائی قبل انہوں نے اپنے بچوں کی جان خلاصی کی غرض سے اپنا وطن چھوڑا تھا۔ قبائلی سردار کی جوان بیوہ تھیں، تین بچوں کی ماں بھی تھیں۔ راتوں رات سب کو اس لئے خیر آباد کہہ دیا کہ ان کی بیٹیاں سوارہ ہوں نہ ان کے اکلوتے بیٹے کی جان جائے۔

اپنی زندگی کے فیصلوں کی مالکن جی دار عورت تھیں۔ مفلس الوطن ہونا منظور تھا، غریب الحال بھی قبول تھا، بس جو قبول نہیں تھا تو بیٹیوں کا روایت کے نام پر پامال ہونا، بیٹے کا قربان ہونا۔ اپنے سامنے ڈٹے کئی مردوں جو بندوقوں کے سہارے جیتے تھے، جن کے لئے عورت پیر کی دھول تھی، جن کے فیصلے ان کی نظر میں خدا سے بھی مضبوط تھے، جن کا جرگہ ہی ان کا کعبہ تھا، ان کے سامنے ڈٹ کر نہ کی، ساٹھ برس قبل نہ کا مطلب نہ سمجھانے والی خاتون تھیں۔ وطن سے کبھی ناتا توڑا نہ وہاں کی روایات و زباں سے چھٹکارا پایا۔ خود مختار ملکہ تو ملکہ ہوتی ہے، چاہے اس کا محل کہیں بھی آباد کیوں نہ ہو جائے۔

یہ بڑے شہر اتنے بھی برے بھی نہیں ہوتے۔ یہ کثیر الثقافت شہر کتنے ہی مفلس الوطان انسانوں کا نیا وطن ہوتے ہیں۔ یہ پناہ دیتے ہیں، گلے سے لگاتے ہیں اور آباد بھی کرتے ہیں۔ یہ اجنبیوں کو اپنے روبرو بساتے ہیں۔ وہ اجنبی جو ان کی زباں بولتے ہیں نہ ان سا لباس پہنتے ہیں، ایسے اجنبی جن کے گھروں کے پکوان جدا ہوتے ہیں۔

یہ ایک دوجے کے انداز بیاں کو قبول تو نہیں کرتے مگر اس کو رد بھی نہیں کرتے۔ یہ پس پشت مذاق بھی اڑاتے ہیں مگر کسی کو بے دخل نہیں کرتے۔ وقت بڑھتا ہے تو یہ رشتے استوار کر لیتے ہیں۔ ان کے پکوانوں کی لذت اور خوشبو ایک سی ہو جاتی ہے۔ کچھ ان کی زباں کو سمجھنا شروع کرتے ہیں تو یہ ان کی زباں بولنے کی ناکام کوششوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لاہور بھی ایسا ہی تھا۔ اس کی گلیوں نے نجانے کہاں کہاں کے باسی آباد کیے تھے۔ اس کے اپنے جو کوچ کر گئے تھے، اس نے ان کی یاد تو قائم رکھی مگر آنے والوں کو جگہ دے دی۔

گویا یہ خاندان جس کی سردار ایک عورت تھی اسی شہر میں بس چکے۔ اپنی طویل عمر رنگیں لباسوں اور عقیدت مندی میں بسر کر کے وہ سردار عورت دنیا سے چلی تو گئی تھی مگر اس کا خاندان اب بھی اپنی زباں اور طور طریقوں کے ساتھ اسی شہر میں آباد ہے۔ اس عورت کے جانے کے وقت کا رنج شاید آج بھی صبح کی وقت سے پہلے ٹوٹتی رات کی لہروں اور اداس اذانوں میں باقی ہے۔ میرے لئے اس پہر کی اذاں ویسی ہی اداس رہے گی۔ میں جب جب اس کو سنوں گی، سالوں پہلے آباد ہو کر گزر جانے والی اس نڈر عورت کا گمان قائم رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments