ان کہی محبت


اپنے وطن سے دور دیار غیر میں بسنے والوں کو ایک مسئلہ یہ بھی درپیش رہتا ہے کہ انھیں اپنے عزیزوں، دوستوں اور اہل وطن کی محبت کا اندازہ نہیں ہو پاتا اور نہ ان کے لیے اپنی محبت کا اظہار کر پاتے ہیں یوں دونوں اطراف کی یہ محبت اپنی منزل مقصود تک پہنچے بغیر دلوں میں مقید رہ جاتی ہے اور بالآخر دوریوں اور فاصلوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ان کی جگہ غلط فہمیاں جنم لے لیتی ہیں۔ حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے :

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

جب دوریاں مٹتی ہیں، آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹتے ہیں تو بیشتر غلط فہمیاں ہوا بن کر اڑ جاتی ہیں۔ ان کی جگہ اپنوں کی محبت اور یاروں کی یاری خوشبو بن کر پھیل جاتی ہے۔ میں حال ہی میں یہ محبتوں کی یہ سوندھی خوشبوئیں سمیٹ کر لایا ہوں جس سے میر اکاسہ دل مہک رہا ہے۔ کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ انھیں قلم بند کروں مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا تھا۔ خوشبوئیں اور رنگ لفظوں میں کیسے سمیٹوں۔

کرونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں سفری پابندیوں کی وجہ سے اس مرتبہ میں قریباً تین برس بعد پاکستان گیا۔ اس دوران میں کئی عزیز اور دوست داغ مفارقت دے چکے تھے جن کی بے حد کمی محسوس ہوئی۔ ان میں سے ایک میرے دوست سید آل عمران بھی تھے جو میرے اور ادبی و صحافتی حلقوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے تھے۔ 2020 میں میرے اس عظیم دوست کی اچانک رحلت کے بعد یہ میرا پہلا دورہ پاکستان تھا۔ جانے سے قبل مجھے ایک خلا سا محسوس ہوتا تھا۔

مگر ہمارے مشترکہ دوستوں نے یہ خلا کچھ اس طرح پر کیا کہ سید آل عمران کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ قاضی شوکت محمود، راجا وقار مستالوی، سید منتظر رضوی، جاوید راجا، بیگ راج، خلیق الرحمن، الحاج محمد سعید چشتی نظامی، ضیا الاسلام مرزا اور نسیم سحر جیسے دوستوں کی محبت اور رفاقت نے یہ لمحات پر کشش اور گراں قدر بنا دیے۔ ماضی میں راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں میرے اعزاز میں کئی تقریبات ہو چکی تھیں۔ اس مرتبہ ادارہ حق ٹرسٹ نے میرے آبائی قصبے شہیدوں کی سرزمین گوجر خان میں میری پذیرائی کے لیے ایک باوقار تقریب منعقد کر کے مجھے اپنے شہر میں بھی معتبر بنا دیا۔

ادارہ حق ٹرسٹ دینی، سماجی اور ادبی خدمات میں پیش پیش رہتا ہے۔ اس کے روح رواں مشہور کاروباری شخصیت قاضی شوکت محمود ہیں۔ یہ تقریب گویا نقطہ آغاز تھی۔ گوجر خان میں ہی جاوید راجا کی کی کتاب ”مرد درویش“ کی تقریب پذیرائی میں اظہار خیال کا موقع ملا۔ ہر دلعزیز شخصیت راجا محمد ظہیر مرحوم پر لکھی اس کتاب کے جلسے میں میرے ساتھی مقررین میں امیر جماعت سراج الحق، اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف اور سابق ایم این اے راجا جاوید اخلاص بھی شامل تھے۔

اس دوران میں مغلیہ ایسوسی ایشن نے اسلام آباد میں میں مغل اعظم شہنشاہ اکبر کی ایک شاندار تقریب ولادت منعقد کی جس میں مختلف طبقہ فکر سے متعلق اور نمایاں مقام حاصل کرنے والے مغل دوستوں بڑی تعداد شریک تھی۔ بیگ راج جیسے محبت کرنے والے احباب کی وجہ سے تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد نے میری کتاب ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ کی اکیڈمی ادبیات پاکستان میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا جس میں جڑواں شہر کے نمایاں ادیبوں، شاعروں اور اہل ذوق نے شرکت کی اور کتاب پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ انھی احباب نے ایک خصوصی عشائیے میں بھی میرے ساتھ خوبصورت شام گزاری۔ اسی طرح حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کے ایک اجلاس کی صدارت کا شرف حاصل ہوا۔

اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دور کے چند دوستوں سے سوشل میڈیا کی مدد سے پینتیس چالیس برس بعد نہ صرف رابطہ بحال ہوا بلکہ میری دعوت پر راولپنڈی کے ایک ریستوران میں اکٹھے ہوئے اور لڑکپن کی یادیں تازہ کیں جو ایک ناقابل یقین اور انتہائی جذباتی منظر تھا۔ میں جو دنیا گھوم آیا تھا زندگی میں پہلی مرتبہ چند دن کے لیے ناران، کاغان، بالاکوٹ، جھیل سیف الملوک وغیرہ بھی ہو آیا۔ موسم سرما کی پہلی برف باری جیسے میری منتظر تھی اور اس نے شب اول ہی استقبال کیا۔ خلاق عالم نے اس خطے کو ہر حسن فطرت سے نواز رکھا ہے۔ بس عاشقان فطرت کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

لاہور میں میرے احباب پروفیسر علی محمد خان، پروفیسر اشفاق ورک، راجا محمد اسلم، اورنگ زیب بیگ اعجاز شیخ، گل نوخیز اختر اور دیگر نے اپنی محبتوں کی اس قدر گل پاشی کی کہ میرے مشام جان اب تک معطر ہیں۔ گل نوخیز اختر اور ان کے چینل نے اہم مہمان کی حیثیت سے خصوصی عزت و توقیر دی اور دلچسپ انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اسی شام ڈاکٹر اشفاق ورک اور ان کے احباب نے اکیڈمی ادبیات لاہور میں میری کتاب کی تقریب رونمائی رکھی تھی۔

اس میں سلمیٰ اعوان، نیلم احمد بشیر، ڈاکٹر محمد کامران، پروفیسر نجیب جمال، پروفیسر غفور شاہ قاسم، گل نوخیز اختر، راجا محمد اسلم، ڈاکٹر علی محمد خان، ڈاکٹر وحید الرحمن خان، ثمینہ سید اور زنیرہ بخاری نے ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ پر سیر حاصل مضامین پڑھے۔ سلمیٰ اعوان کے الفاظ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں تھے ”یہ ایک مکمل سفرنامہ ہے جس میں تمام ادبی لوازمات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہ قاری کو ساتھ لے کر چلتا ہے کیونکہ اس کے اندر تخلیقی رنگینیاں کم نہیں ہوتیں“ پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر محمد کامران نے کہا ”طارق مرزا اردو سفرنامے کی روایت، اپنے منفرد اسلوب اور افسانوی طرز احساس کے باعث خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے سفرناموں میں دھنک کے سارے رنگ شامل ہوتے ہیں“ اسی شام پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب کے سبزہ زار میں دوستوں کے پر تکلف عشائیے کے ذکر کے بغیر لاہور کی یاترا کا ذکر مکمل نہیں ہوتا کہ یہ ایسی شام تھی جو کبھی بھلائی نہیں جا سکتی۔

”طارق مرزا بحیثیت سفر نگار“ کے موضوع پر تحقیق کرنے والے پنجاب یونی ورسٹی کے طالب علم محمد جہانزیب کے انٹرویو کا سامنا بھی اس دورے کا حصہ تھا۔ اس محقق کے نگران پروفیسر شبیر حسن ہیں۔ اس سے پہلے ایف سی کالج یونی ورسٹی کے طالب علم محمد سلیم ”طارق مرزا، فن اور شخصیت“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ آمنہ ریاست نے میری کتاب ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند کا مشاہداتی مطالعہ“ پر اپنی ریسرچ مکمل کی ہے۔

یوں تدریسی، ادبی اور عوامی سطح پر اللہ کے فضل سے پذیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ میرے حالیہ دورہ پاکستان میں عزیزو اقارب نے جس محبت و توجہ سے نوازا وہ میرے صفحہ دل پر رقم ہے اسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر میرے بھائی خالد مرزا اور ان کی فیملی کو خدا اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ میں اپنے رب کا شکر بجا لاتا ہوں جس نے نہ صرف صحت و سلامتی کے ساتھ سفر کرنے کی استطاعت عطا فرمائی بلکہ اس عز و جاہ سے سرفراز کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments