مسلسل ہوتا ایک قتل


گزشتہ دنوں ایک موت ہوئی ہے طبعی موت مگر مجھے لگتا ہے کہ قتل ہوا ہے۔ میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر نہیں لکھ سکتا کیونکہ اس سے اور سنگین راستے کھل سکتے ہیں۔ نہ میں رشتہ بتا سکتا ہوں اور نہ نام لیکن دل ہے کہ اس درد بھرے واقعے کو لفظوں کے غلاف میں کسی طرح بند کر کے لکھ ڈالوں اور ایک طبعی موت یا پھر میرے نزدیک ہونے والے قتل کے بارے میں دنیا والوں کو آگاہ کر سکوں۔

ایک عزیز ہیں بلکہ عزیر تھے اب وہ انتقال کر گئے ہیں چند دن قبل، وہ طویل عرصے سے بیمار تھے، کم و بیش تین سال سے بستر پر تھے، وہ بستر مرگ نہیں تھا وہ بستر بے حسی تھا۔ مرنے والا بلا کا ذہین اور محنتی آدمی، اپنے شعبے کا ماہر شخص جس نے عرب ملکوں کی شدید گرمی میں اپنے فرائض کو بھرپور انداز میں نبھایا۔ اپنوں سے دور رہا، بہت بڑے عرصے در در کی خاک چھانی تاکہ اپنے لوگ، پیارے سکون کی زندگی گزار سکیں۔

اپنوں سے دور رہیں، مجھے لگتا ہے یہ دوری جان بوجھ کر تھی۔ شریف انسان تھا، کم گو تھا، جب بدزبان پارٹنر ملا تو خاموشی مزید بڑھ گئی، بدزبانی برداشت کرنی پڑی، ایک وجہ شرافت تھی کیونکہ شریف آدمی رشتے ٹوٹنے سے گھبراتا ہے، اور دوسری وجہ دو معصوم بچے تھے۔ وقت گزرتا رہا اور وہ شریف آدمی محنت کرتا رہا اور دور بیٹھے اپنی فیملی کی ہر ضرورت اور خواہش کو پورا کرتا رہا۔ وقت گزرتا گیا اور بہت سا وقت گزر گیا۔ وہ شخص اپنی عمر کے اس حصے میں آ گیا کے جب اسے ریٹائر ہونا پڑا اور پھر گھر واپسی ہوئی بلکہ مکان میں واپسی ہوئی، اور پھر بہت سا وقت مکان کے مکینوں کے ساتھ گزارنا پڑا۔

بہت ممکن ہے انھوں نے سوچا ہو کہ اب شاید سکون ہو اور معاملات بہتر ہو گئے ہو مگر انھوں نے کیا سہ لیا مجھے نہیں معلوم۔ لیکن پھر کوئی حادثہ ہوا اور وہ شخص تھوڑا سا بیمار ہوا، کوئی بڑی بیماری نہیں تھی مگر وہ بیماری مسلسل ہو گئی طویل ہو گئی اور ختم ہونے کا نام نہ لیتی۔ ہٹا کٹا شخص بستر کی نذر ہو گیا، بستر پر پڑا پڑا دن با دن کمزور ہوتا رہا، لاغر ہوتا رہا، اندر ہی اندر مرتا رہا۔ اس شخص کو کوئی بیماری نہ تھی کوئی بڑا مسئلہ بھی نہ تھا۔ مگر قریبی لوگ علاج نہیں کرنا چاہتے تھے۔ نا جانے کیوں؟ نہ پیسوں کا مسئلہ تھا اور نہ دوسری چیزوں کا مگر پھر بھی مسلسل بے اعتنائی برتی گئی۔

ان کا علاج ہوتا تھا، دوائیں بھی کھاتے تھے، مگر کون سی یہ سمجھ نہیں آتا تھا، علاج ان کا اپنا خون کرتا تھا وہ بھی سات سمندر پار سے بذریعہ واٹس اپ، مگر بہتری نہیں آ رہی تھی۔ ان قریبی لوگوں کو اور خون کے رشتوں کو نہ جانے کون سے معجزے کا انتظار تھا۔ وہ ان کو ہسپتال لے جانے سے انکاری رہے اور کیونکہ اگر وہ ہسپتال جاتے تو اور وقت پہ جاتے تو بہت ممکن تھا کہ وہ ٹھیک ہو جاتے کیونکہ چند دنوں یا ہفتوں کے علاج سے ان کی صحت کافی بہتر ہوجاتی۔

مگر نہ جانے کیوں آخری وقت تک وہ انھیں ہسپتال لے جانے سے انکاری رہے اور پھر جب سانس ٹوٹنے لگی تو پھر مجبوری کی وجہ سے ہسپتال لے کر جایا گیا شاید ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لئے اسپتال جانا ضروری ہے ورنہ بہت ممکن ہے یہ کام بھی گھر میں ہوجاتا اور اگر کفن دفن کی مجبوری نہ ہوتی تو کسی کو خبر بھی نہیں ملتی اور یہ خون کسی مقام پر یہ مجبوری بھی ادا کر دیتے۔

شادی کے بعد لگنے والی خاموشی تا حیات جاری رہی او ر پھر وہ مکمل خاموشی میں بدل گئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تو طبعی موت ہے، ہاں بالکل ہے مگر جان بچانے کی کوشش تو ہو سکتی تھی؟ ہسپتال لے جایا جاسکتا تھا؟ اچھا علاج ہو سکتا تھا، لیکن نہیں ہوا۔ یہ تلخ رویہ کیوں رکھا گیا؟ یہ برتاؤ کیوں رکھا گیا؟ جو پوری زندگی کما کما کر کھلاتا رہا اس کے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا گیا؟ یہ موت نہیں ہے یہ قتل ہے جو آہستہ آہستہ کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments