پریم چند کی افسانہ نگاری اور ”ادب برائے زندگی“


پریم چند اپنی افسانہ نگاری میں اس بات کو بیاں کرتے ہیں کہ انسانی تقدیر کے تغیرات زندگی کے مختلف ذائقوں میں شامل ہیں جس کا امتزاج ہمیں بے یقینی اور ناپائیداری کی لعنت کو پہچاننے میں جنون، پچھتاوے اور بے چینی سے آزاد کر دیتی ہے۔ ان کی تحریریں شراب کی مانند ہیں، جس کا پس منظر ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ جب ہم تقدیر جیسی پتلی رسی پر دوڑ رہے ہوتے ہیں، تو آگے بڑھنے کا حوصلہ توازن برقرار نہ رکھنے کے خوف سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

پریم چند ایک جادوگر کی طرح ہے جو فکر کی موزونیت، اسلوب کی نفاست اور تشبیہات کی فنکاری کو متحد کر کے جذباتی ابہام کو قطعی اور ‌غیرمصنوعی زبانوں میں پیش کرتے ہیں اور یہ مکمل طور پر حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ پریم چند کا خیال ہے کہ اگر دوسروں یا معاشرے پر انحصار کرنا محض فضول ہے، اس طر ہم افراد اور معاشرے کے اخلاقی المیے کو کم کر سکتے ہیں۔

پریم چند کی کرداری نگاری سے نہ صرف ہندوستان کی منفرد سماجی صورتحال کی ہوتی ہے اور مصنف انسانی ضمیر کی بگڑی ہوئی جوہر کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔ عباسی کی لگن، زندگی اور موت کے سامنے گھیسو کی لاعلمی، پنڈت کی ہوشیاری کے سامنے شنکر کی بے بسی، اور جھینگر اور بدھو کے درمیاں ہونے والی دشمنی بالترتیب زندگی کی مٹھاس، کھٹاس، کڑواہٹ اور تیزی کی نمائندگی کرتی ہے۔ جبکہ پریم چند کے افسانوں میں مرکزی کرداروں کی اکثریت طبقاتی اور ذات پات کے نظام کا شکار ہے، پریم چند کا خیال ہے کہ ان کی تقدیر کی تنزلی کو صرف سماجی نظام کی نا انصافی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ”کفن“ میں، پریم چند دو ناخوشگوار کرداروں کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہی کہ اگر چہ معاشرے نے ان کی سماجی حیثیت کو بڑھانے کے مواقع سے انکار کر دیا ہے، لیکن وہ اپنے زوال کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح، افسانے ”راہ نجات“ میں، پریم چند ہمیں دکھاتے ہیں کہ غرور و حسد جھینگر اور بدھو کی تقدیر کو جوڑ دیتے ہیں۔

کیا ہمیں اپنی قسمت کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ کیا اس طرح نجات ممکن ہے؟ پریم چند سامعین کو جواب دینے میں ہچکچاتے ہیں۔ جب ہم افسانوں کے کرداروں کو توہم پرستی کا شکار دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب تسلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن پریم چند کے افسانوں سے ایک سبق بہت واضح ملتا ہے کہ اگر ہم اپنی کمزوری اور گناہ کا اعتراف نہیں کریں اور خود ایمانداری کی خوبیوں کو نظر انداز کریں، تو انفرادی اور معاشرتی المیے سے نجات ہرگز نہیں مل سکتی۔ ”حج اکبر“ میں چونکہ عباسی نے انسانی زندگی کا انتخاب کیا، اس طرح اس نے اپنے تمام گناہوں سے آزادی حاصل کر لی۔ اس طرح اس کی زندگی کامل ہوگی۔

”ادب برائے زندگی“ کا جوہر روشن خیالی ہے جو فنکارانہ جستجو کا حتمی مقصد ہے۔ پریم چند پر کوئی نظریاتی بوجھ نہیں۔ پریم چند صرف ایک ابدی حقیقت پر یقیں رکھتے ہوئے لوگوں کو ایک مشورہ دیتے ہیں : ”آپ صرف ایک بار جی سکتے ہیں۔ کریلا، کڑوا ہونے کے باوجود، اسے کم از کم ایک بار ضرور کھانا چاہیے! ہمیں اپنے زندگی میں کوئی بھی پچھتاوا نہیں چھوڑنا چاہیے!“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments