محمد رفیع عثمانی: جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں


جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!

معروف اسکالر، عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے خوش بخت ہیں وہ لوگ جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نبض کائنات تھم گئی ہے اور ان کے بچھڑ جانے سے ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ مولانا محمد رفیع عثمانی بھی ایسے ہی عظیم لوگوں میں شامل تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر، کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ رکن، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی اور زکوٰۃ و عشر کمیٹی سندھ کے رکن اور سپریم کورٹ آف پاکستان اپیلٹ بینچ کے مشیر بھی رہے۔

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے دیوبند میں پیدا ہوئے ان کا نام حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے رکھا۔ ان کے والد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم اور تحریک پاکستان کی سرخیل شخصیات میں سے ایک تھے۔ حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔

مولانا محمد رفیع عثمانی نے نصف قرآن دار العلوم دیوبند میں حفظ کیا اور پاکستان میں ہجرت کے بعد آرام باغ کی مسجد باب الاسلام میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، اور آخری سبق فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی سے پڑھا۔

1951 میں اپنے والد کی قائم کردہ دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی نانک واڑہ میں درس نظامی کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، ان کا شمار دارالعلوم کے اولین طلبہ میں ہوتا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے 1960 میں عالم، فاضل، مفتی کی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ دارالعلوم کراچی سے ہی تدریس کا آغاز کیا۔ 1971 میں دارالافتا اور دارالحدیث کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ انہوں نے 1976 میں اپنے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی کے انتقال کے بعد دارالعلوم کراچی کا انتظام سنبھالا اور ان کی کاوشوں سے دارالعلوم کراچی کا شمار آج پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔

حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی نے بخاری، حضرت مولانا رشید احمد لدھیانوی، مسلم، حضرت مولانا اکبر علی سہارنپوری، موطا امام محمد اور سنن نسائی حضرت مولانا سحبان محمود، سنن ابی داؤد، حضرت مولانا رعایت اللہ اور جامع ترمذی حضرت مولانا سلیم اللہ خان سے پڑھیں۔ سنن ابن ماجہ کے بعض حصے حضرت مولانا محمد حقیق سے پڑھے، اور تکمیل حضرت مولانا ریاضت اللہ سے کی۔ انھیں حضرت مولانا حسن بن محمد المشاط، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، حضرت مولانا محمد طیب قاسمی، حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمھم اللہ سے اجازت حدیث حاصل تھی۔

انھوں نے حضرت مولانا عبد الحئی عارفی کے بعد دار العلوم کراچی کے رئیس الجامعہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ دار العلوم کراچی میں 1380 ہ سے 1390 ہ تک درس نظامی کی تمام کتابیں پڑھائیں۔ 1391 ہ سے مدرسہ میں حدیث اور افتاء کے علوم پڑھائے۔ انھوں نے دار العلوم کراچی میں صحیح مسلم کا تدریس بھی فرمائی۔ 1980 ء کی دہائی کے آخر میں حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حرکت الجہاد الاسلامی کے ساتھ حصہ لیا۔

انھوں نے ہمیشہ طلباء کو سیاست سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ 1995 ء میں مفتی اعظم پاکستان مولانا ولی حسن ٹونکی کے انتقال کے بعد فقہ و فتاویٰ کی اعلیٰ ترین خدمات کی بنا پر انھیں باتفاق علمائے دیوبند پاکستان کی طرف سے مفتی اعظم پاکستان کے لقب سے نوازا گیا۔ مولانا محمد رفیع عثمانی نے عربی اور اردو میں تقریباً 27 کتابیں تصنیف کیں۔ 1988 ء سے 1991 ء تک انھوں نے ایچ یو جے آئی سے متعلق اپنی یادوں کو دارالعلوم کراچی کے اردو ماہنامہ البلاغ کے علاوہ اردو روزنامہ جنگ اور ماہنامہ الارشاد میں شائع کروایا، جو بعد میں ”یہ تیرے پر اسرار بندے“ کے عنوان سے مستقل کتاب میں بھی شائع ہوئیں۔

ان کی بعض تصانیف کے نام یہ ہیں۔ احکام زکوٰۃ، علامات قیامت اور نزول مسیح، التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم، بیع الوفا، یورپ کے تین معاشی نظام، جاگیرداری، سرمایہ داری، اشتراکیت اور ان کا تاریخی پس منظر؛ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ”The three systems of economics in Europe: feudalism، capitalism، socialism and their historical background“ کے نام سے الگ سے شائع ہوا ہے۔ علم الصیغہ، یہ کتاب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مدارس میں ”درس نظامی“ کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہے۔

حیات مفتی اعظم، کتابت حدیث عہد رسالت و عہد صحابہ میں۔
میرے مرشد حضرت عارفی
نوادر الفقہ

حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی 18 نومبر 2022 کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے : آمین۔

مولانا محمد رفیع عثمانی کی رحلت سے پاکستان ایک معتدل، بلند پایہ، فقیہ اور مفتی سے محروم ہو گیا، ان کی گرانقدر علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مرحوم متوازن افکار و نظریات کے حامل تھے جنہوں نے اپنی تصانیف اور خطبات سے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی اور جدید فقہی مسائل ہمیشہ صائب موقف دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments