آرمی چیف کی تعیناتی کا ہنگامہ


پاکستان کے بعض سیاستدان بدقسمتی سے غیر اہم معاملات کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کو چمکانے کے عادی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کی اگر کھوج لگائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں لیڈر شپ کوالٹی کا فقدان ہے یا وہ حادثاتی طور پر میدان سیاست میں پیراشوٹ کے ذریعے داخل ہوئے۔ یا کسی عسکری شخصیت کے کندھے پر بیٹھ کر۔ وہ اقتدار حاصل بھی کر لیں تب بھی ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں ذاتی جاہ و جلال اور پروٹوکول کی لت پڑ جاتی ہے۔

جمہوریت اور پارلیمان کو گھر کی باندی سمجھا جاتا ہے۔ آئین کو پس پشت ڈال کر مخالفین کو اندھے انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان 75 سال گزرنے کے بعد بھی نہ ترقی کر سکا اور نہ ہی پارلیمان بالادست ہو سکی۔ سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشی اور آپس کی لڑائیوں سے آج اسٹیبلشمنٹ مضبوط پوزیشن حاصل کر چکی ہے۔ جب کہ سیاستدان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے آج پہلی مرتبہ حکومت وقت کو آرمی چیف تعینات کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ انتہائی مایوس کن صورتحال بھی ہے اور تمام سیاستدانوں کے لیے نوشتہ دیوار بھی۔

اب ہم آج کے سلگتے ہوئے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔ جس نے وطن عزیز کے ہر فرد کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔

محترم قارئین آپ سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا اہم ترین مسئلہ آرمی چیف کی تعیناتی بن چکا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے بنا دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان ایک خاص عسکری شخصیت کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے ماضی میں خان صاحب کے بعض مطالبات اس لیے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیوں کہ وہ ان کے دائرہ کار سے باہر تھے۔ عمران خان اس عسکری شخصیت کا راستہ روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔

یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی عناد کی وجہ سے ایک قابل افسر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان صدر عارف علوی پر بھی زبردست دباؤ ڈال رہے ہیں۔ کہ وہ کسی نہ کسی طرح آرمی چیف کی تعیناتی میں اپنا رول ادا کریں۔ اسی لیے صدر صاحب بار بار جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اور انہیں ایکسٹنشن لینے یا عمران نیازی کی مرضی کا چیف تعینات کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سارے معاملے کا ایک ہی بینیفشری ہے۔ جس کو اس اہم ترین تعیناتی کا فائدہ یا نقصان ہو گا۔ اور وہ ہیں عمران خان کی اہلیہ۔

مبینہ طور پر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر نے عمران خان کو اس بات سے آگاہ کیا تھا۔ کہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا بازار گرم ہے اور اس کا کھرا بنی گالا کی طرف جا رہا ہے۔ خان صاحب جو ملک سے کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ لے کر اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئے تھے۔ انہیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر بڑے ناراض ہوئے اور چند دنوں کے اندر ڈی جی آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کرا دیا۔

عمران خان اب یہ فرماتے ہیں۔ کہ نواز شریف جس جرنیل کو آرمی چیف تعینات کرے گا۔ وہ ان کا سیاسی طور پر مدد گار ثابت ہو گا۔ دوسری طرف نواز شریف ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ اگر عمران خان کو خوش کرنے کے لیے کسی اہل اور غیر سیاسی جنرل کو نظر انداز کیا گیا۔ تو یہ نہ صرف فوج کے ادارے کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔ بلکہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بھی نقصان ہو گا۔

یہ بھی ممکن ہے نواز شریف بھی کھل کر میدان میں آ جائیں۔ اور ان کا اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے پر آنا طاقتور حلقوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فوج کسی خاص شخصیت کو بچانے کی خاطر عمران نیازی کے آگے ہتھیار ڈال دے گی۔ یا ایک اہل ترین جنرل کو فوج کی کمان سنبھالنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اس وقت پوری قوم کی نظریں جنرل باجوہ کی طرف جمی ہوئی ہیں۔ جو لوگوں کی امیدوں کا محور ہیں۔ ان کا کوئی بھی فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔

اس سارے معاملے میں بحیثیت قوم ہمارے لیے بڑی شرمندگی اور ندامت کا مقام ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پاکستان کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش میں اس طرح کی تعیناتیاں ہوتی ہیں مگر دنیا کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی برادری سمجھتی ہے۔ پاکستان میں حکومت کمزور اور طاقت کے مراکز بالادست ہیں۔

اسی وجہ سے ہمارے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے بیرونی دنیا تذبذب کا شکار رہتی ہے۔ درحقیقت سیاستدانوں کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔ جو سیاسی پارٹی الیکشن جیت کر اقتدار میں آتی ہے۔ اپوزیشن دھاندلی کا الزام لگا کر اس کے خلاف سڑکوں کا رخ کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے طاقتور قوتیں پارلیمانی سسٹم پر حاوی ہو جاتی ہیں۔

2014 کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حدیں پار کر دیں۔ اور حکومت وقت کو ایک دن کے لیے بھی چین نہیں لینے دیا۔ 126 کا دھرنے جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ بے وقعت ہو گئی۔

عمران خان آج بھی سڑکیں ناپ رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی بالکل فکر نہیں ہے کہ ان کا بیانیہ معیشت کی کمر توڑنے کا باعث بن رہا ہے۔ وہ اپنی ہی دہن میں مست ہو کر حکومت کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سوچتے کہ اس حرکت سے حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیاستدانوں کی ساکھ بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔

عوام واحد سٹیک ہولڈر ہیں جنہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ عمران خان کے نہ تھمنے والے احتجاج نے ایک طرف کاروبار زندگی معطل کر رکھا ہے۔ اور دوسری طرف سڑکوں کی بندش نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ کیسے ریاست مدینہ کے نام لیوا ہیں۔ جن کا ہر عمل اس عظیم اسلامی ریاست کی نفی کرتا ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے۔ کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی ڈیمانڈز بہت زیادہ ہیں۔ وہ کسی معاملے پر اڑ جائیں تو وہ کسی کی نہیں سنتے۔

اس کے علاوہ وہ دنوں کے حساب سے اپنا موقف تبدیل کرنے کے عادی ہیں۔ لہذا کوئی بھی آرمی چیف ان کی مرضی اور خواہشات کے مطابق کام کرنے سے قاصر ہو گا۔ فرض کریں وہ اگلا الیکشن جیت کر وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر فیض حمید کو بھی آرمی کی کمان دے دی جاتی ہے۔ تو وہ بھی چند مہینے ہی عمران خان کے ساتھ نکال سکیں گے۔ دراصل عمران خان کی فطرت اور مزاج وکھری ٹائپ کا ہے۔ صرف جنرل باجوہ جیسے دھیمے مزاج کے آرمی چیف نے ہمت اور برداشت کے ساتھ ان کا ساتھ دیا۔

مگر کب تک ان کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے تبدیل کرنے کا معاملہ درپیش ہوا۔ خان صاحب نے کئی مہینوں تک اس معاملے کو لٹکا کر جنرل باجوہ کے ناک میں دم کر دیا۔ جس پر عسکری قیادت بڑی برہم ہوئی۔ اور ادارے نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں تک جنرل باجوہ کے جانشین کے چناؤ کا تعلق ہے۔ خبروں کے مطابق اس میں کسی حد تک ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ اللہ کرے تمام سٹیک ہولڈرز کو میرٹ اور ادارے کی بہتری کے لیے فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).