نسرین اعوان: راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو


سوشل سیکٹر کا بڑا نام، نوبل پیس پرائز 2005 کی نامزد دنیا بھر کی 1000 با اثر خواتین میں شامل، بلدیاتی سیاست میں خواتین کی لیڈر، کسان اتحاد میں واحد خاتون رہنما، دکھی انسانیت کے لئے زندگی وقف کرنے والی عظیم ہستی نسرین اعوان دو روز قبل اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں جس سے پورے سوشل سیکٹر میں سوگ کی سی کیفیت ہے۔ ملک کاشف نے نسرین اعوان کی شاندار خدمات پر یہ پیغام بھیجا ہے

فریحہ نقوی نے خدا جانے کس کیفیت میں لکھ دیا تھا۔
زمانے! اب ترے مد مقابل
کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے

مجھے نہیں معلوم فریحہ نے یہ شعر کس کے لیے لکھا مگر میں جب بھی یہ شعر پڑھتا تھا تو میرا ذہن جو خاکہ بناتا تھا وہ میڈم نسرین اعوان کا ہی ہوتا تھا۔ میڈم نسرین اعوان اس شعر کی چلتی پھرتی تفسیر تھیں۔ موت برحق ہے، ہر ذی نفس کو آنی ہے مگر کچھ لوگوں کی موت آپ کو ششدر کر دیتی ہے، مکمل جامد و ساکت۔ یقین ہی نہیں ہوتا کہ کوئی ایسا بچھڑ گیا ہے جو اپنی ذات میں زندگی کی تفسیر تھا۔ آج میڈم نسرین اعوان کی بھی تدفین ہو گئی۔ یوں ہم نے یہ سونا بھی سپرد خاک کیا۔

زندگی میں سماج سے پہلی جنگ آنٹی نے سولہ سال کی عمر میں شروع کی اور کینسر سے آخری جنگ انہوں نے کل شب ختم کی۔ یہ ان کی شکست نہیں بلکہ ایک گریس فل الوداع تھا۔ یقین مانئیے جنگجو ایسے ہی زندگی کو الوداع کہا کرتے ہیں۔ ایک سولہ سالہ نو بیاہتا لڑکی جس کی تربیت سندھ کے ادبی گھرانے میں ہوئی ہو اور جو بیاہ کر نیلی بار کے اونچے لمبے تڑنگے اعوانوں کے گھر آ گئی ہو اس کی پہلی جنگ رہتل اور معاشرتی تبدیلی کے خلاف تھی۔

زمیندار گھرانوں میں نئی نویلی دلہن کا حق تو اس کے شوہر پر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا کجا کہ معاشرتی اقدار کے متعلق اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی اور یہی سب کچھ چیچہ وطنی کے اس دور افتادہ گاؤں چک 38 میں نسرین اعوان کے ساتھ بھی ہوا۔ مگر زمانے کی دست برد سے سہم کر چھپ جانے کی بجائے زندگی کو مردانہ وار جینے کا عزم رکھنے والی یہ لڑکی تمام معاشرتی اقدار، تمام سماجی ممنوعات اور پدرسری نظام کے تمام سرخیلوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔

80 کی دہائی میں اس کے شوہر کا پردیس میں ہونے والا اندوہناک حادثہ اس کے اندر کی جرات مند خاتون کو بیدار کر گیا۔ اس کے سامنے دو راستے تھے، اپنے شوہر کی معذوری کو قبول کرتی اور پدرسری نظام کی محتاج بن کر دوسروں کی بھیک پر گزارہ کرتی یا پھر اپنی زندگی کی ذمہ داری خود اٹھا کر اس سارے سماج کے مخالف سر اٹھا کر جیتی۔ اس کمسن لڑکی نے دشوار ترین راہ چنی۔ وہ دیوانہ وار سماج کے تمام خداؤں سے ٹکرا گئی۔ پہلے پہل اس کی جنگ اپنے شوہر اور اپنے بچوں کے لیے تھی۔ وہ بہادری سے لڑی اور فتحیاب ہو گئی۔ پھر آہستہ آہستہ وہ سینکڑوں بلکتی زندگیوں کے لیے امید کا دیا بن گئی۔ اس کا حوصلہ ایک روایت بن گیا، ایک داستاں بن گئی اور ایک عزم میں ڈھل گیا۔ اس روایت، اس داستاں اور اس عزم کا مجسم وجود تھا انجمن فلاح نسواں!

انجمن فلاح نسواں چیچہ وطنی کے دروازے کم و بیش پچاس سال تک ہر کس و بے کس کے لیے وا رہے۔ نسرین اعوان نے ہر کمزور کی جنگ اپنی جنگ سمجھ کر لڑی۔ 2001 میں وہ ساہیوال ضلع کونسل کی ممبر بنیں۔ تنظیم الاعوان پنجاب کی صدر، کسان اتحاد کی مرکزی رہنما، سول سوسائٹی کی نمائندہ اور امن کے عالمی نوبل انعام کے لیے نامزد شخصیت وہ ایک ذات میں کئی جہتوں کا منبع تھیں۔ پاکستان سے نکل کر وہ جنوبی ایشیاء اور پھر وہاں سے عالمی سطح پر پاکستانی خواتین کی نمائندگی کے لیے موجود رہیں۔

اقوام متحدہ کے کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کے 63 ویں سالانہ اجلاس جو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں منعقد ہوا وہاں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کا اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہوا۔ وہ کمسن لڑکی اب کمسن کہاں رہی تھی، وہ عزم و ہمت کا نشان بن کر داستانوں میں ڈھل چکی تھی۔ جاگیر دارانہ نظام اور طاقت کے نشے میں بہکتی سیاست کے اس بدمست ماحول میں نسرین اعوان جرات کا ایک ایسا استعارہ ہیں جس سے کئی عشروں تک رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔

میری آنٹی نسرین اعوان سے ملاقات 2010 میں حادثاتی طور پر ہوئی۔ زندگی کے مختلف ادوار میں ان کی شفقت میسر رہی۔ ایک مشکل ترین دور میں ان کی رہنمائی، محبت اور دست شفقت کی بدولت درست سمت گامزن رہا۔ آج جب وہ نہیں ہیں اور میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو کئی لمحے بلک بلک کر میری آنکھوں سے بہنے کو تیار ہیں۔ وہ سر تا پا مجسم ماں تھیں۔ وہ صرف اپنے بچوں کے لیے ہی ماں نہیں تھیں بلکہ ان کے دروازے پر جس بھی مجبور و مقہور نے دستک دی، وہ دروازہ اس کے لیے وا ہو گیا۔ میں گواہ ہوں کہ بہت سی بے سہارا و بے گھر خواتین ان کے ہاں مسلسل قیام کیے رکھتی۔

سخت قسم کے مذہبی ماحول میں پروان چڑھنے کے سبب میں اس کم عمری کے دور میں ہر چیز کو مذہبی عینک سے دیکھنے کا عادی تھا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ علی الاعلان تسلیم نہ کرنے کے باوجود میرے اندر ضیاء الحقی سوچ بھرپور سیندھ لگائے بیٹھی تھی چنانچہ آنٹی کے خلوص و محبت کے باوجود ان کی ان سرگرمیوں کو میں ”موم بتی مافیا“ کا پر تو سمجھتا اور ان تمام سرگرمیوں کو بھی شاید کسی ”حکم“ کی تعمیل گردانتا۔ ان کے ساتھ رہتے اور مختلف فورمز پر جانے سے بہرحال یہ تبدیلی ضرور آئی کہ بالکل ایک مختلف نکتۂ نظر سمجھنے کا موقع ملا۔

کتاب میرا پسندیدہ شغل ہے سو ان کے آفس و رہائش گاہ چیچہ وطنی و پاکپتن قیام کے دوران جتنا بھی لٹریری مواد ملا، سب پڑھ ڈالا۔ گھپ اندھیرے میں جب پہلی روپہلی کرن پڑتی ہے تو اندھیرا بہت جزبز ہوتا ہے، سخت واویلا کرتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اور اس وقت تو خیر میں اس اندھیرے کو ہی حق بجانب سمجھتا تھا مگر صد شکر ان کتابوں اور چند ایک روشن ہستیوں کا جن کی بدولت میرے باطن اور میری سوچ کے اندھیرے چھٹے اور میں مکمل سورج کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ آنٹی نسرین میری محسن بھی ہیں اور میری معلم بھی کہ ضیاء الحق کی باقیات پر پہلی ضرب انہوں نے ہی لگائی تھی۔

آج ان کی تربت پر مٹی پھینکتے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ ایسے چراغ صفت لوگ ہم اسی تواتر سے زمین کو لوٹاتے رہے تو ایک دن ہم زمین زادوں کے پاس سنگ صفت بانجھ سوچوں کے علاوہ باقی کیا بچے گا؟

نسرین اعوان تہہ خاک چل دی اور فیض تو خیر مسلسل نقارہ بجا ہی رہا ہے کہ چلو چلو سو خدا حافظ آنٹی!
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments