کسٹمائیزڈ یا نایاب گھڑیاں کیوں بنتی ہیں اور کیا ان کو دوبارہ بیچنا آسان ہوتا ہے؟


رولیکس، پال نیو مین
ایک بات طے ہے کہ کسٹمائیزڈ یا خاص طور پر کسی ایک شخصیت کے لیے بنی نایاب گھڑی کی قیمت اس کے بننے کے بعد وقت کے ساتھ بس بڑھتی رہتی ہے۔

مشہور امریکی اداکار اور کار ریسنگ کے شوقین ڈرائیور پال نیومن کی رولیکس ڈیٹونا نے اسے ثابت کیا۔

پال نیومن کو یہ گھڑی ان کی اہلیہ نے سنہ 1960 کی دہائی میں تحفے میں دی تھی جب وہ کار ریسنگ کے گرد گھومنے والی اپنی فلم ’وننگ‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔

یہ گھڑیاں رولیکس کی طرف سے کار ریسنگ میں گاڑیوں کے ریسنگ میں وقت کو ریکارڈ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھیں۔

پال نیومن کی اہلیہ نے ان کو جو گھڑی دی اس کے پیچھے خاص طور پر یہ الفاط کندھا کروائے گئے تھے ’ڈرائیونگ احتیاط سے کرنا۔‘

سنہ 2017 کی ایک نیلامی میں یہ گھڑی قریب 18 ملین امریکی ڈالر میں فروخت ہوئی جو کسی بھی رولیکس کے لیے ایک ریکارڈ قیمت تصور کی جاتی ہے۔

پاکستان میں ان دنوں توشہ خانہ کی ایک گھڑی کی چرچہ ہے جس کے بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ دعوٰی کر رہا ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کو یہ گھڑی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے تحفے میں دی تھی۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق سابق وزیرِاعظم نے یہ گھڑی فروخت کر دی تھی۔ اس کی قیمت کے حوالے سے مختلف دعوے دیکھنے میں آئے جن میں کروڑوں سے لے کر اربوں پاکستانی روپے کی بات ہو رہی ہے۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی کوئی گھڑی اتنی مہنگی ہو سکتی ہے، تو اس کا جواب ہے جی ہاں، گھڑی اتنی مہنگی ہو سکتی ہے لیکن کیا پاکستان میں کوئی بیوپاری اس قدر مہنگی گھڑی خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا خریدنا چاہے گا، یہ ایک الگ سوال ہے۔

پال نیومن

پال نیومن کی اہلیہ نے ان کو جو گھڑی دی اس کے پیچھے خاص طور پر یہ الفاط کندھا کروائے گئے تھے ’ڈرائیونگ احتیاط سے کرنا‘

اس گھڑی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لندن میں ہیرے اور نایاب پتھر جڑے زیورات اور گھڑیاں بنانے والی ایک کمپنی گراف کی بنی ہوئی ہے۔ گراف نے تاحال از خود اس حوالے سے تصدیق یا تردید نہیں کی۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق یہ گھڑی خاص طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس میں کئی بیش قیمت ہیرے جڑے گئے ہیں۔ اس حوالے سے بھی گراف نے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

بیش قیمت یا ڈیزائنر گھڑیوں کا کاروبار کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ’کسٹمائیزڈ‘ یا خاص طور پر کسی شخصیت کے لیے بنائی گئی گھڑیوں کی قیمت کافی زیادہ ہو سکتی ہے تاہم یہ قدر و قیمت کتنی ہے، اس کا درست اندازہ لگانا کسی بھی تیسرے شخص کے لیے انتہائی مشکل ہو گا۔

لیکن کسی ایک شخص کے لیے بنائی جانے والی گھڑیاں بھی اس قدر مہنگی کیوں ہوتی ہیں اور یہ عام مہنگی گھڑیوں سے کیسے مخلتف ہوتی ہیں۔ کئی گھڑی ساز کمپنیاں اتنی پرانی اور مشہور ہیں کہ ان کی بنائی جانے والی گھڑیاں عمومی طور پر ہوتی ہی مہنگی ہیں۔

ان میں رولیکس، ہوبلوٹ، ٹسوٹ، اومیگا، ایس واچ اور دیگر کئی مقبول برانڈ اور ان کے ماڈلز شامل ہیں۔ ان کی قیمتیں سینکڑوں سے ہزاروں امریکی ڈالرز میں چلی جاتی ہیں۔

لیکن ان کے موازنے میں ڈیزائنر یا کسٹمائیزڈ واچز کئی گنا زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔ ان میں سے جو گھڑیاں زیادہ نایاب ہوں اور کسی مشہور شخصیت یا ڈیزائنر کے نام سے جڑی ہوں ان کی قیمت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اس طرح کی گھڑیاں زیادہ تر نیلامیوں پر بکتی ہیں اور ان کی قیمت سن کر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے جیسا کہ مشہور گھڑی ساز پاتیک فلیپ کی گرینڈ ماسٹر واچ۔ لگژری اشیا اور اثاثوں کی خرید و فروخت کے ایک آن لائن جریدے جیمز ایڈیشن کے مطابق ایک نیلامی پر یہ گھڑی 31 ملین امریکی ڈالر کی فروخت ہو چکی ہے۔

جبکہ پاتیک فلیپ ہی کی ایک گھڑی جیمز ایڈیشن پر 26 ملین ڈالر کی قیمت کے ساتھ برائے فروخت ہے۔

کسٹمائیزڈ گھڑیاں اتنی مہنگی کیوں ہوتی ہیں؟

ایک مشہور گھڑی ساز ایک عام گھڑی کا ماڈل بناتا ہے اور اس کی قیمت ہزاروں ڈالر میں رکھتا ہے۔ یہ ماڈل بہت سے افراد کی دسترس میں ہوتا ہے، وہ خرید سکتے ہیں لیکن اگر وہی گھڑی ساز ایک کسٹمائیزڈ گھڑی بناتا ہے تو اس کی قیمت لاکھوں ڈالر رکھی جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا اس گھڑی میں ہیرے جواہرات لگے ہوتے ہیں؟ اسامہ طارق کہتے ہیں کہ کچھ گھڑیوں کے لیے بالکل ایسا ہی درست ہوتا ہے۔ ان میں واقعتاً قیمتی ہیرے اور جواہرات جڑے ہوتے ہیں۔

راولپنڈی کے رہائشی اسامہ طارق گذشتہ چند برسوں سے لگژری گھڑیوں کی خرید و فروخت کرتے آ رہے ہیں اور ان کے لیے اس کاروبار نے ذاتی طور پر لگژری واچز میں دلچسپی سے جنم لیا۔

’ایک مشہور کمپنی کی گھڑی میں خاص بات اس کی بناوٹ میں استعمال ہونے والے قیمتی ہیرے یا دھاتیں بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ گھڑی سازی میں جدت اور معیار اس کی قیمت کے زیادہ ہونے کی بنیادی وجہ ہوتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف کی ’شہابی‘ گھڑی سے گراف کی ’مکہ ایڈیشن‘ تک وہ گھڑیاں جنھوں نے عالمی رہنماؤں کو مشکل میں ڈالا

خواتین کے لگژری اور برینڈیڈ ہینڈ بیگز اتنے مہنگے کیوں ہیں؟

توشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسامہ طارق بتاتے ہیں کہ ’کسٹمائیزڈ واچز خاص طور پر خریدار کے لیے ڈیزائن کی جاتی ہے، ان کے اندر خریدار کی مرضی کے ہیرے یا بناوٹ میں دھاتوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں جدت بھی خریدار کی مرضی کی لائی جاتی ہے۔‘

’یوں سمجھ لیں کہ اس گھڑی میں ہر ایک چیز خریدنے والے کی مرضی کی ہوتی ہے۔ اس لیے پھر اس گھڑی کی قیمت گھڑی ساز کمپنی کی مرضی کی ہوتی ہے اور یہ ایک ہی گھڑی بنائی جاتی ہے۔‘

اسامہ طارق کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی اس طرح کی گھڑی عام فروخت کے لیے پیش نہیں کرتی اور اس طرح یہ گھڑی نایاب حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ کسٹمائیزڈ گھڑی خاص طور پر اس کے پہننے والے سے منصوب ہو جاتی ہے۔

’اصل قیمت گھڑی کے اندر استعمال ہونے والی مشین کی ہوتی ہے۔ باقی تمام چیزی کسی نقل یا ریپلیکا گھڑی میں بھی لگ جاتی ہیں لیکن آپ کسی مشہور کمپنی کی اصلی مشین کا ریپلیکا نہیں بنا سکتے۔‘

اسامہ طارق کے مطابق گھڑی کی قیمت زیادہ ہونے کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ خریدنے والا اپنی گھڑی میں کسی خاص نوعیت کی جدت چاہتا ہے یا مہنگے جواہرات لگوانا چاہتا ہے یا دونوں کام کرنا چاہتا ہے۔

کسٹمائیزڈ گھڑی

کسٹمائیزڈ گھڑی کیسے بنتی ہے؟

اسامہ طارق کے مطابق اس کے لیے گھڑی بنوانے والا شخص پہلے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس نے کس قسم کی گھڑی بنوانی ہے۔ وہ کمپنی کا انتخاب کرتا ہے اور اس سے رابطہ کرتا ہے۔

’آپ اس کمپنی کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں اور یہ تسلی کر لیتے ہیں کہ یہ اصلی کمپنی ہے۔ وہاں آپ ایک فارم بھرتے ہیں جس میں آپ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ خاص اپنے لیے گھڑی بنوانا چاہتے ہیں یا کسٹمائیزڈ کروانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد کمپنی آپ سے رابطہ کرتی ہے۔‘

اسامہ طارق کہتے ہیں کہ اس فارم میں وہ جس قسم کی معلومات آپ سے مانگتے ہیں اس سے ان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ گھڑی خریدنے والا کتنا سنجیدہ ہے۔ اس کے بعد خریدار ان سے ٹیلی فون پر رابطہ بھی کر سکتا ہے۔

’رابطے کے بعد کمپنی خریدار سے اس ڈیمانڈ کے بارے میں معلومات لیتی ہے کہ وہ کس قسم کی کسٹمائیزیشن چاہتا ہے۔ پھر وہ اس پر کام شروع کرتی ہے۔ ایک عام کسٹمائیزڈ گھڑی بنانے میں بھی چھ سے سات ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔‘

گھڑی کی کل قیمت پہلے ہی طے کر لی جاتی ہے اور ایک مخصوص رقم خریدار کمپنی کو پہلے ہی ادا کرتا ہے۔ کمپنی کسٹمائیزیشن کے ہر مرحلے پر وہ گھڑی خریدار کو دکھاتی رہتی ہے اور اگر اس میں کسی رد و بدل کی ضرورت ہو تو وہ کر لیا جاتا ہے۔

اس طریقے سے تیار کی جانے والی گھڑیوں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کی تیاری کی تمام تر معلومات صرف کمپنی اور خریدار کے درمیان رہتی ہیں۔ انھیں کبھی عام نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کمپنی کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں معلومات دیتی ہے۔ اس میں گھڑی کی کل مالیت بھی شامل ہے۔

زیادہ تر ڈیزائینر گھڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے کام کے تجربے اور جدت کی وجہ سے مشہور ہیں جیسا کہ پاتیک فلیپ، واشرون کانسٹنٹائن، آوڈیمارس پیگواٹ، رچرڈ مائل اور بریگواٹ وغیرہ۔ ان میں زیادہ تر کمپنیاں سوئیٹرز لینڈ سے تعلق رکھتی ہیں اور دہائیوں یا پھر ایک صدی سے بھی زیاہ پرانی ہیں۔

ایسی کمپنیوں کی عام گھڑیاں بھی لاکھوں امریکی ڈالر میں بکتی ہیں اور اگر کوئی خریدار ایسی کمپنیوں سے گھڑی کو کسٹمائیز کروانا چاہتا ہے تو اس کے پاس سرمایہ بہت زیادہ ہونا ضروری ہے۔

گراف کس نوعیت کی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے؟

سابق وزیرِاعظم عمران خان کو تحفے میں دی جانے والی بظاہر گراف کمپنی کی بنی ہوئی ’مکہ ایڈیشن‘ گھڑی کی جو تصاویر منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس گھڑی میں کئی ہیرے جڑے ہوئے ہیں اور اس کا فریم بھی قیمتی دھات کا بنا ہے۔

اس کے ڈائل کے اندر خانہ کعبہ کی تصویر بھی بنائی گئی ہے جو اس گھڑی کے کسٹمائیزڈ ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ اسامہ طارق کے مطابق بظاہر یہ ان کسٹمائیزڈ گھڑیوں میں شمار ہوتی ہے جن میں خریدار اس میں قیمتی ہیرے جواہرات لگوانا چاہتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے اس گھڑی کے خریدار نے بظاہر گراف کمپنی کا انتخاب کیا۔ برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں قائم گراف کپمنی بنیادی طور پر ہیروں اور نایاب پتھروں کے زیورات کے لیے مقبول ہے تاہم گراف کی ایک شاخ گھڑی سازی بھی ہے۔

اپنی گھڑیوں کے ماڈلز میں بھی گراف زیادہ تر ہیرے اور قیمتی پتھر کا استعمال زیادہ کرتا ہے۔ اس کمپنی کی شاخیں دنیا کے کئی ممالک کے بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ان کے پاس چالیس ہزار امریکی ڈالر مالیت کی گھڑی بھی فروخت کے لیے دستیاب ہے۔

گراف کی کئی بوتیکس سعودی عرب کے شہر ریاض سمیت مشرقِ وسطٰی کے کئی ممالک میں قائم ہیں۔ گراف کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی ’ہر ایک زیورات میں جڑے ہر ایک ہیرے کی تیاری کے ہر مرحلے پر ڈیزائینر کی طرف سے خود نگرانی کی جاتی ہے۔‘

یوں بظاہر گراف کا شمار ان خاص گھڑی ساز کمپنیوں میں نہیں کیا جا سکتا جو مشہور ہی خاص طور پر اپنی گھڑی سازی اور اس کی جدت کی وجہ سے ہوتی ہیں جیسے ہوبلوٹ یا رولیکس وغیرہ۔ تاہم ہیروں کے زیورات اور گھڑیوں میں اس نام نمایاں شمار کیا جاتا ہے۔

گھڑی

کسٹمائیزڈ یا نایاب گھڑیوں کی مالیت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

اگر ایک نایاب گھڑی کی کل مالیت صرف خریدار یا اس کمپنی کو معلوم ہوتی ہے جس نے وہ گھڑی بنائی ہے تو اس کی کل مالیت کا اندازہ مارکیٹ میں کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟

اسامہ طارق سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی حقیقی مالیت کا صحیح اندازہ لگانا کسی بھی تیسرے شخص کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

’یہ وہی کمپنی بتا سکتی ہے کہ اس نے یہ گھڑی کتنے میں خریدی اور عام طور پر اچھی بڑی کمپنیاں اس نوعیت کی معلومات بغیر خریدار کی اجازت کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتی ہیں۔‘ اسامہ طارق کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی گھڑیاں زیادہ تر وہی کمپنی ہی خریدار سے واپس خریدتی ہے۔

’اگر کوئی شخص اس طرح کی خاص نایاب گھڑی بنواتا ہے اور کل کو وہ چاہتا ہے کہ وہ اس کو بازار میں بیچے تو وہ کبھی بھی اس قیمت پر نہیں بیچ سکے گا جس میں اس نے یہ گھڑی بنوائی تھی۔ کوئی اس کو اتنی قیمت ادا ہی نہیں کرے گا۔‘

اسامہ طارق کہتے ہیں کہ خاص طور پر پاکستان میں بہت ہی کم ایسے ڈیلر موجود ہیں جو کوئی ایسی نایاب گھڑی خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہوں یا ان کی قوتِ خرید ہو۔

’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اتنی مہنگی گھڑی ان سے آگے کوئی خریدنے والا نہیں ہو گا تو وہ اس کا کیا کریں گے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ مشہور گھڑی ساز برانڈز کی گھڑیاں اس لیے پہننا پسند کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو اس برانڈ ک پتہ ہوتا ہے اور ان کی قیمت لاکھوں روپے سے شروع ہو کر چند کروڑ میں ہوتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔‘

اسامہ طارق کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پاکستانی مارکیٹ میں کسٹمائیزڈ گھڑی کو دوبارہ فروخت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

تو لوگ اتنی مہنگی گھڑی کیوں بنواتے یا خریدتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ افراد کے لیے یہ سرمایہ کاری کی ایک شکل بھی ہے۔ جو گھڑیاں نایاب یا کسٹمائیزڈ نہیں ہوتی لیکن ان کے اندر قیمتی ہیرے جواہرات جڑے ہوتے ہیں اور سونے وغیرہ کی دھات استعمال ہوئی ہوتی ہے ان گھڑیوں کی قیمت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔

یوں ایک گھڑی خرید کر اور کچھ وقت استعمال کرنے کے بعد جب کوئی اس کو مارکیٹ میں بیچتا ہے تو اسے اس کے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ یوں کئی ملین ڈالر میں خریدی ہوئی گھڑی کی مالیت میں وقت کے ساتھ چند ملین اور شامل ہو جاتے ہیں۔

اسامہ طارق سمجھتے ہیں کہ ’زیادہ تر ایسی گھڑیاں جن کے ماڈل اپنی جدت کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور ہو جاتے ہیں یا پھر ان کی بناوٹ بہت خوبصورت ہوتی ہے اور وہ بڑے برانڈز کی ہوتی ہیں وہ ہر گزرتے سال کے ساتھ مہنگی ہوتی رہتی ہیں۔‘

تاہم وہ گھڑیاں جو خاص طور پر کسی ایک شخص کے لیے بنائی جاتی ہیں اور نایاب ہوتی ہیں، ان کو زیادہ تر نیلامی وغیرہ میں پیش کیا جاتا ہے جہاں ان کی اچھی قیمت ملنے کی توقع ہوتی ہے۔

ایسی گھڑیوں کے لیے عام مارکیٹ میں خریدار تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments