بیچ دے – ایک غریب بادشاہ کی کہانی


ایک تھا بادشاہ۔ ویسے تو ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ لیکن پھر بھی ایک ملک خداداد کا ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو بادشاہ مگر بہت غریب، بھوکا اور ندیدا تھا۔ بھیک مانگ کر گزارا کرتا۔ مانگے تانگے سے روٹی کھاتا۔ جہاں نرم جگہ ملتی سو جاتا۔ قمیض میں دو دو سوراخ ہوتے۔ جیب خالی اور یہی کیفیت ذہن کی بھی ہوتی۔ غربت نے بیچارے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دی تھی۔ ہر آنے جانے والے کو پتھر مارتا۔ گالیاں بکتا۔ دن چڑھے دیر سے اٹھتا۔ اٹھتے ہی گالم گلوچ کو شعار بناتا۔ شام تک اس حسن کلام سے رعیت کو محظوظ کرتا۔ رات ہونے سے پہلے طبیب حاذق کی تجویز کردہ دوائی طوعاً کرہاً حلق میں انڈیلتا اور اگلے دن کے لیے نئی نئی گالیاں سوچتا نیند کے آغوش میں چلا جاتا۔

بادشاہ ویسے تو قادر الکلام تھا۔ ذہن رسا رکھتا تھا۔ جب مدہوشی کے لمحات میں نہیں ہوتا تھا تو ہر سوال کا ترنت سے جواب دیتا۔ رعایا کو اپنی رام کہانیاں سنا سنا کر رام کرتا۔ کوئی فریادی اگر سوال کرتا کہ غربت اتنی ہو گئی ہے کہ دو لقمے روٹی میسر نہیں تو بادشاہ اپنی دکھ بھری کتھا سنانا شروع کر دیتا کہ کس طرح بائیس سال اس نے بھوک پیاس سے نبرد آزما ہو کر گزارے۔ کس طرح عوام الناس کی خاطر پیٹ کاٹا۔ کس طرح احباب کے در پر پڑا رہا۔ بادشاہ اپنی کہانی کچھ ایسے دلدوز انداز میں سناتا کہ فریادی بھی روہانسا ہو کر آنسو پونچھتا، بادشاہ سلامت کے اقبال بلند ہونے کی دعا کرتا رخصت ہوتا۔

جب سب فریادی چلے جاتے اور عدل کا گھنٹہ خاموش ہو جاتا تو بادشاہ کے مصاحب میدان میں اترتے۔ کوئی دلجوئی کے لیے ہرن کے گوشت کی قاب پیش کرتا کوئی انگور کا رس سامنے کرتا۔ کوئی خدمت گار باندیوں کے رقص سے دلبستگی کی کوشش کرتا۔ مگر بادشاہ عوام کے غم میں اتنا رقیق القلب ہو چکا تھا کہ بس جھٹ سے طبیب کی دوائی کے پھکے مارتا اور خلق خدا کی خدمت کے خواب دیکھتا مدہوش ہو جاتا۔

بادشاہ کی عسرت کی داستانیں دنیا بھر میں معروف ہونے لگیں۔ مقامی تاجروں کی حقیر مدد سے مایوس ہو کر اب دساور کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنا اس کی ریت ہو گئی تھی۔ اب دنیا بھر سے لوگ مدد کو آ جاتے تھے۔ کوئی ہیروں کا ہار پیش کرتا، کوئی جڑاؤ گھڑی نظر کرتا، کوئی طلائی زیورات عطا کرتا تو کوئی خلعت فاخرہ سے مالا مال کر دیتا۔ دنیا بھر کی مدد کے باوجود نہ بادشاہ کی ناداری میں کمی ہوتی نہ اس کی بھوک ختم ہوتی۔ جنموں کی بھوک چند ہیروں جواہرات سے کب مٹتی ہے۔ بادشاہ کو جتنی مدد ملتی اتنی ہی اس کی بھوک میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اس کی جھولی پھیلی، دست سوال دراز اور ہاتھ مصاحبین کی جیب میں ہی رہتے۔

بادشاہ کی بھوک اتنی بڑھ گئی کہ اس نے شاہی محل کا سامان فروخت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ توشہ خانہ کی طرف نظر ہوئی تو پہلے تو دساور سے شاہی تحائف کی قیمت لگوائی۔ انہیں اونے پونے بیچا کہ بھوک اشرفیوں کی تعداد نہیں گنتی۔ پھر ضرورت مند کی مجبوری کا فائدہ سب ہی اٹھاتے ہیں۔ وہ تحفہ جو لاکھوں اشرفیوں کا تھا وہ چند ٹکوں میں فروخت کر کے بھوک مٹائی جاتی۔ مگر بھوک تھی کہ مٹتی ہی نہیں تھی۔ وہ وقت بھی آیا جب احباب کنگلے ہو گئے۔ عزیز رشتہ دار کترانے لگے تو بادشاہ ان لوگوں سے منفور ہوتا چلا گیا۔ اس نے اپنا کشکول دراز کرنا شروع کیا۔ ایسے ایسے لوگوں سے بھیک مانگی کہ جو ساری عمر چمڑی جائے اور دمڑی نہ جائے کہ اصول پر قائم رہے۔ ان کی جیبوں سے بھی سب کچھ نکلوا کر بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ جب بادشاہ کو کوئی بھیک دینے کے لئے تیار نہیں رہا۔ سب اپنے پرائے منہ موڑ گئے۔ ایسے میں بادشاہ کو خیال آیا کہ یتیم مسکین بچوں کی زکات بیت المال میں دستیاب ہے۔ اس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا ہے تو بہت رکیک حرکت لیکن بادشاہ کیا کرتا۔ وہ بہت ہی غریب تھا۔ بھیک مانگ کر گزارا کرتا تھا۔ بیت المال کے دروازے بادشاہ کے پیٹ کی دوزخ کے لیے کھول دیے گئے۔ ابتلاء کے اس عالم میں بادشاہ مساکین کے مال سے دو دو ہاتھ کرتا رہا۔

رعایا کو کبھی اس ظلم کی خبر نہ ہوئی۔ اس میں کمال شاہی طبلچیوں کا تھا۔ جب بھی کوئی شاہی خزانے میں ہوتی کمی کی طرف اشارہ کرتا شاہی طبلچی اس طرح بادشاہ کی امانت صداقت اور دیانت کا ڈھول پیٹتے کہ اختلاف کرنے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا اور اگر کوئی بہت ہی ضدی شخص بادشاہ کے کارنامے عوام تک پہنچانے پر مصر ہو جاتا تو بادشاہ کو مجبوراً اس کو دیوار میں چنوانا پڑتا۔ اس کی مشکیں کسوا کر اس کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلائی پھروانی پڑتی۔ کیونکہ امور ریاست میں وسیع تر مفاد میں کچھ قربانیاں ضروری ہوتی ہیں۔

ایک مدت تک طبلچی بادشاہ کی ہر مخالف آواز کو اپنے اپنے ڈھول کے شور میں دباتے رہے۔ لیکن اس جہاں میں دوام کس کو ہے؟ ایک وقت ایسا آیا کہ بادشاہ کا پول کھل گیا۔ صداقت امانت کا بت رعایا کے قدموں میں گر پاش پاش ہو گیا۔ اس موقعے پر نہ طبلچیوں کی لے کاری نے کام کیا نہ دھوم دھڑکا کام آیا۔ بہت کوشش کی گئی کہ اس شورش کو ماضی کی طرح شور میں دبایا جائے مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ گلی گلی میں بادشاہ کے شاہی خزانے سے چوری کا غل مچ چکا تھا۔ بچہ بچہ اب طعنہ زن تھا۔ دیواروں پر بادشاہ کے نام کے ساتھ چور کا لفظ جگہ جگہ کندہ تھا۔ بادشاہ ان سب چیزوں سے نظریں بچا کر شاہی دربار میں اپنی عظمت کے قصے اب بھی سناتا تھا مگر نہ اب اس کی آواز میں وہ لوچ رہا تھا نہ لہجے میں وہ درد تھا۔ نہ لوگوں کو اب اس کی بات کو اعتبار تھا نہ رعایا کو اس کے کہے پر اعتبار تھا۔

اس صورت حال سے بددل ہو کر بادشاہ نے اس سلطنت کو خیر باد کہنے کا سوچا۔ وہ اب اس جگہ قیام ہی نہیں کرنا چاہتا تھا جہاں کبھی اس کی عظمت کے گیت گائے جاتے تھے اور اب وہیں اس کی ہجو لکھی رہی ہو۔ بادشاہ نے شاہی خزانے کا باقی اسباب سمیٹ کر کاندھے پر ڈالا اور اگلے سفر پر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک وزیر باتدبیر نے پوچھا کہا اس شاہی محل کا کیا کرنا ہے؟ بادشاہ نے دھیرے سے کہنا ہی چاہا تھا کہ ”بیچ دے“ کہ اچانک داروغہ کی آنکھ کھل گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے بعد کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ بادشاہ کی بھوک ہمیشہ کے لیے مٹ گئی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments