شادی سے پہلے لڑکا ’چیک‘ کرنے کا طریقہ


ہوم اکنامکس کالج لاہور کی ایک پرانی درسگاہ ہے، یہاں میری والدہ کیمسٹری پڑھایا کرتی تھیں، کیمسٹری ویسے ہی بڑا مشکل مضمون ہے اور والدہ محترمہ اس کی بھی ایک دقیق شاخ بائیو کیمسٹری پڑھاتی تھیں۔ بعض اوقات مجھے حیرت ہوتی تھی کہ لڑکیوں کے کالج میں اس مضمون کا کیا کام، خیر یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں، ان دنوں میں یہ سمجھتا تھا کہ لڑکیوں کو گھر گرہستی کی تعلیم کے بعد بیاہ دینا چاہیے اور اگر کسی کو پڑھنے کا بہت ہی شوق ہو تو زیادہ سے زیادہ بی اے کروا دینا چاہیے، بس۔

اب یہ کالج یونیورسٹی بن چکا ہے اور ڈاکٹر کنول امین جیسی دبنگ خاتون یہاں کی رئیس جامعہ ہیں جو یونیورسٹی میں مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد کرواتی رہتی ہیں، انہوں نے جامعہ میں ایک نفسیاتی علاج گاہ بھی قائم کردی ہے جہاں ملک کے نامور ڈاکٹروں سے علاج معالجہ اور مشورہ کرنے کی سہولت موجود ہے۔ گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے شعبہ انسانی ترقی و نفسیات کی جانب سے ایسے ہی ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا دعوت نامہ ملا جس کا مقصد دماغی صحت اور ان سے جڑے مسائل پر گفتگو کرنا تھا۔

نہ جانے کیا سوچ کر سربراہ شعبہ عطیہ گیلانی نے مجھے ذہنی مسائل کے اس سیمینار میں مدعو کیا، بہرحال وجہ چاہے جو بھی ہو، اس سیمینار میں ہونے والی گفتگو اس لحاظ سے مثبت رہی کہ مجھے طالبات کو یہ بات سمجھانے کا موقع مل گیا کہ وہ اپنی زندگیوں میں شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ کہیں ان کا پالا کسی ذہنی مریض سے نہ پڑ جائے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ جتنا وقت اور تردد اپنی زندگی کے غیر اہم فیصلوں پر صرف کرتے ہیں اتنی پڑتال اگر اس مرد کی بھی کر لیں جس سے شادی کا ارادہ ہو تو شاید آپ کی زندگی سکھ میں گزر جائے۔

اس موقع پر ایک طالبہ نے سوال کیا کہ اگر لڑکی شادی سے پہلے لڑکے کے دماغی معائنے کا مطالبہ کرے گی تو شادی تو دور کی بات لڑکے والے تو چائے کی ٹرالی الٹا کر چلے جائیں گے، ایسے میں لڑکے کو ’چیک‘ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں لیکن کچھ طریقے بہرحال ایسے ضرور ہیں جن کی بنیاد پر لڑکے کے ذہنی رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ طریقے کیا ہیں؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ لڑکے کو عورت اور مرد کی برابری کا قائل ہونا چاہیے، اگر لڑکا عورت کو مرد کے برابر نہیں سمجھتا، اسے پاؤں کی جوتی سے تشبیہ دیتا ہے، اس کی آزادی کا مخالف ہے، نوکری کرنے والی عورتوں کو اچھا نہیں سمجھتا، اسے خود مختار عورتیں پسند نہیں جو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں تو ایسا بندہ چاہے شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو، اس سے شادی کا خیال دل سے نکال دیں، ایسے شخص کو بیوی نہیں باندی چاہیے۔

اور رہی یہ بات کہ کسی شخص کے خیالات کے بارے میں جانکاری کیسے حاصل کی جائے تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں، انسان طویل وقت تک خود پر منافقت کا خول چڑھا کر نہیں رکھ سکتا، آپ کسی بندے سے دو چار مرتبہ مل لیں تو اس کے خیالات کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ ممکن نہیں رہتا کہ بندے کا باطن آشکار نہ ہو، لہذا یہ مت سوچیں کہ لوگوں کو جاننا نا ممکن بات ہے۔ ٹھیک ہے کہ آپ کسی کے دل کا حال نہیں جان سکتے مگر چند ملاقاتوں میں آپ اس کے چیدہ چیدہ خیالات کا پتا ضرور لگا سکتے ہیں۔

اس کام کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ موروثی بیماریوں کی تفصیل معلوم کی جائے، بظاہر یہ بات بہت عجیب لگے گی کہ آپ رشتہ تلاش کرتے وقت یہ شرط رکھیں کہ ہمیں لڑکے کے گھر والوں کی تمام ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے متعلق آگاہ کیا جائے مگر قطعی غیر محسوس انداز میں یہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

یہاں شفیق الرحمن کا ایک مضمون یاد آ گیا جس میں شادی کا خواہش مند نوجوان اپنے ہونے والے خسر سے ملنے جاتا ہے اور انٹرویو میں ناکام ہو کر لوٹتا ہے کیونکہ بزرگوار بڑھاپے کی بیماریوں سے متعلق بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ نوجوان کسی قسم کی بیماری کے بارے میں جانتا تک نہیں۔ سو آپ ہرگز یہ غلطی نہ کریں بلکہ الٹا لڑکے کے گھر والوں کی بیماریوں کے بارے میں ایسے گفتگو کریں جیسے آپ کو اس بات کی بہت فکر ہے، غالب امکان ہے کہ وہ لوگ خود ہی اپنا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیں گے۔

اسی سے جڑی ایک نہایت اہم بات جنسی رجحان معلوم کرنا بھی ہے۔ ممکن ہے آپ کو میری یہ بات احمقانہ لگے کہ ایک مشرقی لڑکی جس کے رشتے کی بات چل رہی ہو وہ کس طرح اپنے ہونے والے شوہر کے جنسی رجحان کا پتا چلا سکتی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات بے حد عجیب ہے بشرطیکہ براہ راست یوں پوچھی جائے کہ جناب آپ ’سیدھے‘ ہیں یا کچھ اور! لیکن اگر آپ شادی سے پہلے لڑکے سے بات چیت کر لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کس قسم کا جنسی رجحان رکھتا ہے بلکہ وہ خود ہی ’سب کچھ‘ بتا دے گا۔

دو انسانوں کے درمیان شادی ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں وہ یہ عہد کرتے ہیں کہ مرتے دم تک ایک ساتھ رہیں گے، ہم دوستی کرتے وقت بھی ایسا کوئی پیمان نہیں باندھتے کہ اگلے پچاس برس تک دوست رہیں گے لیکن شادی ایسا بندھن ہے جس میں ہمیں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اگلی کئی دہائیوں تک ہمیں اس مرد یا عورت کے ساتھ رہنا ہے، اسی لیے ایسے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے لاز می ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے متعلق تمام ضروری معلومات اکٹھی کر لیں، جیسے کہ ان کے مذہبی خیالات کیا ہیں، سیاسی سوچ کیا ہے، وہ یہ بھی طے کر لیں کہ بچوں کی پرورش کیسے کی جائے گی، ان کے دماغ میں کس قسم کے خیالات پروان چڑھائے جائیں گے، گھر کے ذرائع آمدن اور اخراجات کیسے تقسیم کیسے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کل کلاں کو شادی ختم ہو گئی تو لڑکی کہاں جائے گی اور کیسے رہے گی؟

ہمارے ہاں شادی کے موقع پر حق مہر پر بات کرنے کو بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا، لڑکی والے اگر زیادہ حق مہر طلب کریں تو لڑکے والے انہیں لالچی اور بد نیت سمجھتے ہیں۔ اس مسئلے کا سوائے اس کے اور کوئی حل نہیں کہ لڑکی کو وہی قانونی تحفظ دے دیا جائے جو مغربی ممالک میں اسے حاصل ہے، وہاں جب شادی کو مخصوص مدت گزر جاتی ہے تو لڑکی اپنے شوہر کی جائیداد میں حصہ دار بن جاتی ہے اور اگر پھر اس کا شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ نصف جائیداد دے کر فارغ کرتا ہے۔

جیف بیزوز، بل گیٹس، ٹائیگر وڈز جیسے کئی لوگوں نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی اور انہیں بیویوں کو جائیداد میں حصہ دینا پڑا۔ سو، ہمارے ملک میں بھی یہ قانون بنانے کی ضرورت ہے، یہاں حقوق نسواں کی تنظیمیں اگر ایسا قانون منظور کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس سے بڑی اور کوئی نیکی عورت کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔

اس سے پہلے کہ عشاق مجھے مطعون کریں، میں خود ہی اس بات کا اعتراف کرلوں کہ محبت بھی شادی کے لیے بے حد ضروری ہے بلکہ سچ پوچھیں تو پہلی چیز ہی محبت ہے، مگر محبت کی لذت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکے کے پاس مناسب گاڑی ہو، وہ بچوں کو معیاری اسکولوں میں پڑھانے کی استطاعت رکھتا ہو اور اس کے گھر میں گیزر اور پانی کی موٹر وغیرہ ٹھیک طریقے سے کام کرتے ہوں، ایسا نہ ہو کہ جب وہ کہے کہ جان من مجھے تم سے محبت ہے تو بیوی جل کر جواب دے کہ پہلے گیزر ٹھیک کروائیں!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments