پی ایس او کا مایوس کن اندرونی خلفشار


دو روز قبل کا دکھ بھرا دن بھی دیکھنا پڑا۔ جب بھائیوں جیسے پارٹی کارکن آپس میں لڑ پڑے جب اپنے ہی اپنوں کا خون بہا رہے تھے۔ جب ایک درجن سے زیادہ طلباء بلا وجہ زخمی ہوئے۔ یہ ایک مایوس کن، بد ترین، اور دل رہا دینے والا موقع تھا۔

پی ایس او ( پختونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) جو کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا دائیں ہاتھ رہا ہے، اس وقت شدید اندرونی اختلافات اور انتشار کا شکار ہے۔ یہ تنظیم جو کہ کبھی اپنے تنظیمی سیٹ اپ کے لیے مشہور تھا جس نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو صف اول کی قیادت بھی فراہم کی۔ عثمان خان کاکڑ سے لے کر نصر اللہ خان زائرائی تک، رحیم زیارتوال سے لے کر ڈاکٹر عبدالصمد اچکزئی شہید تک، رضا محمد رضا سے لے کر خوشحال خان کاکڑ تک۔ یہ غلط نہ ہو گا کہ 90 فیصد سے زیادہ پارٹی قیادت اس تنظیم کی بدولت ہے۔

اس تنظیم کی ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کے حقوق اور خدمات کے لیے طویل جدوجہد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ایس او ملک میں جمہوریت کا محافظ بھی رہا ہے جس کی جدوجہد کی پاداش میں اس تنظیم نے قیمتی جانیں بھی گنوا دی۔ میں ذاتی طور پر ایسے بے شمار لوگوں سے ملا ہوں جو اب اچھے عہدوں پر ہیں، وہ اپنی کامیابی کا کریڈٹ اس تنظیم کو دیتے ہیں۔

اسی تنظیم کے طلبا کے خون آلود ویڈیوز اور تصاویر دیکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ حالات کیسے بدلے ہیں اور کیسے نئی ترجیحات نظریے پر غالب اچکی ہیں؟ کس طرح ایک ہی تنظیم کے ایف ایس سی کے طلباء کی بے رحمی سے اپنی ہی تنظیم کے طلباء کے خلاف برین واشنگ کی گئی جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔

الزام لگانا شاید دنیا کا آسان ترین کام یو۔ کسی کی مذمت کیے بغیر، میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ اس خونی جھگڑے کی جڑ کافی پرانی ہے جس کا میں نے بار بار اپنے پرانے کالموں میں ذکر بھی کرتا چلا آ رہا ہوں۔ پارٹی کی اندرونی صورتحال کا حالیہ دھچکا اس وقت لگا جب دو رہنماؤں کو پارٹی سے نکالا گیا۔ موجودہ واقعہ جس میں طلباء زخمی ہوئے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ پی ایس او کے قیام کے بعد سے اب تک یہ پہلا موقع تھا جب تنظیم کے ارکان آپس میں اس طرح لڑ پڑے ہو جس میں لاٹھیوں کا آزادانہ اور غیر انسانی طور پر استعمال کیا گیا ہوں۔

پی ایس او ایک بہترین تنظیم ہے اور کم از کم بلوچستان کے موجودہ حالات میں پشتون طلباء کی آخری امید بھی۔ اس کے بگڑے ہوئے معاملات خاص توجہ کے مستحق ہیں۔ عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ اس تنظیم کو اس طرح راتوں رات برباد نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اسے ایک منقسم پلیٹ فارم بنایا جائے۔ کئی دہائیوں پرانی طلبہ تنظیم کو اس طرح کی بے سر و پا اقدامات اور واقعات سے ختم کرنا شاید آسان ہو۔ لیکن پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتون طلبہ کے لیے مجموعی طور پر اس کے اثرات تاحیات اور بڑے تباہ کن ثابت ہوں گے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت کو حالیہ واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے اور باہمی مشاورت اور مذاکراتی عمل کے ذریعے تمام اختلافات کو ختم کر کے مل بیٹھنا چاہیے۔ اس کی بڑی ذمہ داری پارٹی چیئرمین کے کندھوں پر آ چکی ہے جن کے لیے اب بھی دونوں گروپوں میں پیار اور عزت موجود ہیں جو دونوں گروپوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

اس وقت پارٹی اور پی ایس او دونوں کے اندر خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے جس کے لئے فوری طور پر پارٹی کی قیادت کو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہو گا۔ خدشہ ہے کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے جیسے وہ اس وقت چل رہے ہیں۔ تو پی ایس او اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مستقبل کا منظر نامہ تاریک ہے۔ جس کے پشتون معاشرے پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوں گے جو پہلے ہی بنیاد پرستی کی لپیٹ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments