خواتین کے خلاف تشدد کا عالمی دن


تشدد کسی معاشرے میں بھی کسی بھی ذی روح کے لیے صحیح نہیں ہے۔ چرند، پرند، جانوروں پر بھی بلا وجہ تشدد کرنا ظلم کہلاتا ہے انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا۔ انسان کے روپ میں چاہے مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ عورت کے بغیر انسانیت کی تکمیل ممکن نہیں عورت اللہ رب العالمین کے لطف و کرم اور جمال کا مظہر ہے عورت معاشرے کا اہم ستون ہے عورت انسانیت بالخصوص خاندان کا مرکز محبت ہے

لیکن چوں کہ عورت صنف نازک اور مرد کی بہ نسبت کمزور ہے اس لیے جہاں جہالت ہوتی ہے وہاں فطری طور پر عورت پر جبر و ستم ہوتا رہا ہے۔ عورت ہر معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر ہر سال 25 نومبر خواتین کے خلاف تشدد کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس کے باوجود صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی روک تھام میں اب تک کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ صنف نازک پر تشدد ہر دور کے جابر طبقے نے کیا۔ یونان، مصر، عراق، ہند اور چین، الغرض ہر معاشرے میں عورت پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے، موذی جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔ اہل عرب عورت کے وجود کو موجب عار سمجھتے تھے، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے دنیا کے اکثر مذاہب عورت کو گناہ کا سر چشمہ، معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے حتیٰ کہ گھر میں بھی عورت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔

عورت کو سب سے زیادہ معاشرتی حقوق اسلام نے دیے۔ ظلم و تشدد کی آندھیوں سے نکال کر روشنی عطا کی۔ اسلام نے عورت پر احسان عظیم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ظلم و جبر کے دور میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیج دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کو ظلم کی اندھیری گھٹاؤں سے نکال کر وہ تمام حقوق دیے جس کی وہ حق دار تھی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیے گئے حقوق کے سنہری چارٹر پر عمل کیا؟ یقیناً عمل درآمد صرف علم سے آشنا معاشروں میں ہوتا آیا ہے اور کئی معاشروں میں تشدد کی روایات آج بھی موجود ہیں۔ پوری دنیا میں خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ مسلم معاشروں میں مجموعی طور پر انس و محبت ہے لیکن کچھ خرافات، یا رسم و رواج ایسے ہیں جن کی وجہ سے ذہنی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر مسلم معاشروں میں بھی یہ جاہلانہ تصورات کئی دور دراز کے علاقوں میں موجود ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے برابر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتی۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت سے یہ سبق ملتا ہے کہ مرد کو گھر کے کام کاج میں بھی خواتین کی مدد کرنی چاہیے۔ دوسری طرف ترقی یافتہ خطوں میں بھی معاشروں میں خواتین پر روایتی تشدد کیا جاتا ہے۔ اور تشدد کے نت نئے طریقے بھی صنف نازک پر ہی آزمائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دو صدیوں میں یورپی متشرقین اور ان کے زیر اثر بعض مسلم محققین کا ایک پسندیدہ موضوع ”مسلم معاشرے میں مظلوم خواتین کے حقوق کی پامالی“ رہا ہے۔

اگر ہم مغربی دنیا کا جائزہ لیں تو مغربی دنیا میں حقوق نسواں کی تحریک جو عورت پر ظلم و تشدد کے خلاف شروع ہوئی وہ انیسویں صدی میں فرانسیسی سرزمین سے شروع ہوئی، جسے فیمینزم یا ”نسائیت“ کا نام دیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد خواتین کو سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کا حق دلوانا تھا۔ نسائیت کی تحریک کے مقاصد میں عورتوں کے لیے حق رائے دہی، مساوات، عورتوں کی ضروریات، حق وراثت، آزادی رائے، خود کفالت اور آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ خانگی ایذا یا گھریلو تشدد اور آبروریزی سے تحفظ وغیرہ بھی شامل تھا۔

مغربی معاشروں میں حقوق نسواں کی علم بردار تنظیموں کی کوششوں کے باوجود عورتوں کو وہ حقوق آج تک نہیں مل سکے جو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورتوں کو دیے تھے مغرب میں گھریلو تشدد آج بھی موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کی جس کرب ناک صورت حال سے مغرب کی خواتین گزرتی ہیں شاید ہی مسلم معاشروں میں کوئی ایسے واقعات رونما ہوتے ہوں۔ یورپ میں عورت کے خلاف گزرتی صدی میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ فرانس میں ایک سال کے دوران 601 عورتوں کو قتل کر دیا گیا۔

یورپ کے حوالے سے European Union Agency for Fundamental Rights۔ FRA کے زیر اہتمام تحقیقی اعداد و شمار اور جائزے بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر اور مقامی ریاستوں کی جانب سے یورپ میں خواتین کے ساتھ صنفی نا انصافی کا مسئلہ ابھی تک اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ جب کہ غیر یورپی اقوام اپنی خوش فہمی کی بنا پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یورپ و امریکہ میں خواتین کو عزت اور تحفظ کی نعمتیں حاصل ہو گئی ہیں اور غیر یورپی اقوام ابھی تک صنفی عدم مساوات پر قابو نہیں پا سکی ہیں۔

ایک غیر جانبدارانہ جائزہ کے مطابق یورپ میں 14 فیصد خواتین کو دوران ملازمت محض عورت ہونے کی بنا پر تعصبات کا نشانہ بننا پڑا۔ یہ تو وہ خواتین ہیں جو معمولی معاوضہ پر کام کر رہی ہیں لیکن جو اعلیٰ مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں ان کے حوالہ سے یہ تعصب، تفریق اور امتیاز 28 فیصد ہے۔ جب کہ Luxemburg میں طبع شدہ ایک جائزہ کے مطابق تفریق و امتیاز کا سامنا 57 فیصد خواتین کو پیش آیا۔ ان میں بھی وہ خواتین جو دوران ملازمت حاملہ ہوئیں ان میں 43 فیصد کو صرف ماں بننے کی سزا میں اس تفریق و تعصب کا شکار ہونا پڑا۔

جرمنی میں خواتین پر جنسی تشدد اور ہراسانی کی شرح 58 فیصد ہے، جب کہ پولینڈ میں ایک تحقیقی جائزہ میں حصہ لینے والی 451 خواتین میں سے 88 فیصد پندرہ سال کی عمر کے بعد کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی اور تشدد کا شکار رہیں۔ ہالینڈ میں ہراسانی کے حوالہ سے گیارہ سو خواتین سے جمع کردہ معلومات کی روشنی میں دن کی روشنی میں گلیوں اور بازاروں میں 94 فیصد خواتین ہراسانی کا شکار ہوئیں۔ خواتین کے ساتھ یہ تفریقی رویہ ایسے حالات میں اختیار کیا گیا ہے جب خواتین کی یکساں نمائندگی کے اصول کی بنا پر یورپی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد 38 فیصد ہے اور خواتین یورپی ممالک میں کسی شہر کی انتظامیہ یا عدلیہ میں 33 فیصد تک نمائندگی کی حامل ہیں۔ لیکن ان مقامات پر ان کی نمائندگی کے باوجود انہیں معاشرتی، تعلیمی، کاروباری اور پیشہ وارانہ اداروں میں نہ تحفظ ملا نہ عزت و احترام۔ حتٰی کہ سیاسی میدان میں قیادت کے مقام تک پہنچنے والی خواتین کو بھی یورپ اور امریکہ کی حد تک جنسی ہراسانی اور تضحیک کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔

نام نہاد حقوق کے علمبرداروں اور مسلم معاشروں پر تنقید کے تیر چلانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے در اصل اسلام خواتین کے حقوق کا حقیقی علم بردار ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے فطری دائرے میں معاشرتی، معاشی، تہذیبی، اور ثقافتی کردار ادا کریں۔ یورپ اور امریکہ کے اداروں کے میدانی سروے، براہ راست انٹرویو اور جمع کردہ شماریات یہ ثابت کرتے ہے خواتین پر تشدد نام نہاد خواتین کے حقوق کے علمبرداروں کی چھتری کے نیچے تشدد اب بھی ہو رہا ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے دیے گئے ”خواتین کے حقوق چارٹر“ پر عمل کر کے ختم کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments