پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے سات اضلاع کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں جن میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبد اللہ، چمن، نوشکی اور چاغی شامل ہیں۔ان میں سے چار اضلاع پشین، قلعہ عبد اللہ، چمن اور نوشکی کی سرحدیں قندھار سے متصل ہیں۔ ان تمام اضلاع سے لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی گزرگاہ ضلع چمن میں بابِ دوستی ہے۔یہ سرحدی شہر نہ صرف بلوچستان اور قندھار کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے بلکہ یہ ہرات کے راستے پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے منسلک کرتا ہے۔ اس روٹ سے بڑے پیمانے پر آمد و رفت کے علاوہ افغان ٹرانزٹ کی گاڑیوں کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے۔چمن میں باب دوستی کی دوسری جانب افغانستان کی سرحدی منڈی واقع ہے جسے مقامی طور پر ویش منڈی کہا جاتا ہے, چمن بارڈر پر افغانستان کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ معمول بن چکا ہے, جس کے باعث محض رواں سال میں پاک فوج کے 23 جوان افغانستان کی کھلی جارحیت کے سبب شہید ہوچکے ہیں, دراصل افغانستان کی حکومت پاکستان ک جانب سے بارڈر مینجمنٹ کے تحت باڑ لگانے کے عمل کو اپنے ساتھ ظلم سمجھتی ہے کیونکہ اس وجہ سے ان کا غیر قانونی طور پر پاکستان آنے کی رکاوٹ ہوگئی ہے,جرائم پیشہ عناصر پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو منشیات اور اسمگلنگ کے لئے  استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان بارڈر کراسنگ پر باڑ لگانے سے ان کے غیر قانونی  ہتھکنڈے براہ راست متاثر ہوئے ہیں، اس لئے باڑ لگانے کے عمل کے خلاف افغان باشندے سراپا احتجاج ہیں,جس کی وجہ سے وہ وقت فوقتا پاکستانی بارڈر پر فائرنگ کرکے خوف ک فضا بناتے ہیں,
سرحدی قانونین کے مطابق سرحد پار کرنے والے کسی کو بھی چیک کرنا اور  اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنانا لازمی ہے۔ چودہ نومبر کو ایک مرتبہ پھر چمن بارڈر کراسنگ (جسے فرینڈشپ گیٹ بھی کہا جاتا ہے) پر افغان سرحد کی جانب سے پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی گئی, جس کے باعث پاکستانی فوج کے تین جوان شہید ہوئے

افسوسناک واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے, جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ افغان جانب سے ایک دہشت گرد نے اپنے پاس موجود پستول سے فائرنگ کی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کی جانب سے نہتے پاکستانی فوجی پر فائرنگ کرنے کے بعد مسلح افغان طالبان فوجی دہشت گردوں کو روکنے کے بجائے دہشت گردوں سے صرف ایک فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر بھاگ گئے۔ اسی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ افغان طالبان شواہد کو تباہ کرنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے کو گولی مارنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد اور افغان طالبان کے درمیان اشتراک عمل تھا۔ طالبان حکومت سے ایک اور سوال پوچھنا ضروری ہے کہ ایک مسلح فرد کو سرحدی گزرگاہ پر جانے کی اجازت کیسے دی گئی، اس کی جانچ کیوں نہیں کی گئی؟ یہ افغان جانب سے نظم و ضبط، پروٹوکول اور قواعد کے فقدان کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس واقعے پر تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔تاہم سوشل میڈیا پر ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی گردش کر رہی ہے جس میں افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ایک مسلح موٹر سائیکل سوار جس نے سبز رنگ کی پگڑی پہن رکھتی تھی نے فائرنگ کی اور فرار ہوگیا, افغانستان کی حکومت کی زمے داری ہے کہ وہ سرحدی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال ہونے سے روکے تاکہ خطے میں امن کی فضا قائم ہوسکے,