پی ٹی آئی: پاکستان میں پسپائی آزاد کشمیر میں چڑھائی


آزاد کشمیر میں 27 نومبر کے بلدیاتی انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن اور حکومت کی طرف سے پرعزم ہو نے کے اعلانات بار بار کیے جار ہے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے رہا کہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر سیکورٹی کے انتظامات کیا اور کیسے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن اور آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے اس امید کا اظہار کیا جار ہا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے سیکورٹی فورسز مہیا کر دی جائیں گی لیکن ابھی تک حکومت پاکستان کی طرف سے سیکورٹی فورسز فراہم کرنے کی کوئی تصدیق سامنے نہیں آ سکی ہے۔

قبل ازیں آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے سابق پالیس ملازمین کو بھی سیکورٹی ڈیوٹی میں استعمال کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کی اس تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ’امن کمیٹیوں‘ کے قیام کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا لیکن اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے علاوہ خود آزاد کشمیر کی تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت مسلم کانفرنس نے بھی ’امن کمیٹی‘ کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ ’امن کمیٹی‘ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اس صورتحال میں 27 نومبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے کیونکہ موثر سیکورٹی انتظامات کے بغیر بلدیاتی انتخابات منعقد کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کے پاس بلدیاتی انتخابات کے لئے پانچ ہزار پولیس اہلکار میسر ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کے لئے تیس ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکاران کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن اور آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان سے سیکورٹی فورسز مہیا نہ ہونے کی صورت آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار بھی کرائے جا سکتے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مرحلہ وار انتخابات کی تجویز کو بھی سختی سے مسترد کر دیا تھا۔

تین دن قبل ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نے یہ بیان دیا کہ بلدیاتی انتخابات ہر صورت میں کرائے جائیں گے اور اگر پاکستان سے سیکورٹی فورسز مہیا نہ کی گئی تو بھی آزاد کشمیر حکومت کے پاس ’پلان بی‘ اور پلان سی ’موجود ہیں۔ تاہم وزیر اعظم آزاد کشمیر نے یہ نہیں بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے حکومت کا‘ پلان بی ’اور پلان سی‘ کیا ہے۔ اگر ان کی مراد فورسز کے ریٹائرڈ افراد کے ذریعے سیکورٹی انتظامات کرانا یا مرحلہ وار انتخابات کرانا ہے تو اپوزیشن جماعتیں ان دونوں تجاویز کو پہلے ہی سختی سے مسترد کر چکی ہیں۔

آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کی تحریک انصاف حکومت بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے سرکاری وسائل کا بھر پور استعمال کر رہی ہے۔ اس کے لئے آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے تعمیر و ترقی سے متعلق کئی اعلانات کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم تنویر الیاس وزیر اعظم ہاؤس میں تحریک انصاف کے امیدواروں کے اجتماعات منعقد کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے متعدد روزنامہ اخبارات میں خصوصی طور پر تیار کردہ پورے صفحے کا ایک اشتہار بھی شائع کرایا جا رہا ہے جس میں آزاد کشمیر کی تحریک انصاف حکومت کے تعمیر و ترقی و دیگر اقدامات کی تفصیل شامل ہے۔ یوں اخبارات میں شائع کیے جانے والے اس اشتہار کے لئے بھی کثیر رقوم خرچ کی جار ہی ہیں۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف سے وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کی طرف سے انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر مبنی تحریری شکایت پہ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کو 23 نومبر کو وضاحت کے لئے طلب کر لیا ہے اور ساتھ ہی وزیر اعظم کی طرف سے کیے گئے مختلف اعلانات کو بھی انتخابات کے انعقاد تک روک دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں الیکشن کمیشن کی کمزوری اور بے چارگی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔

عین الیکشن کے موقع پر الیکشن کمیشن کے ممبر کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ معروف صحافی اسلم میر نے کہا ہے کہ ”آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 کے مطابق آزاد جموں وکشمیر الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے ممبر الیکشن کمیشن فرحت علی میر کو کام سے روکنے کے بعد کیا نامکمل الیکشن کمیشن کی نگرانی میں 27 نومبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات قانونی قرار دیے جا سکتے ہیں؟ ممبر الیکشن کمیشن فرحت علی میر کی بر طرفی کے بعد عملاً الیکشن کمیشن آزاد جموں وکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی رفتار متاثر ہو گئی ہے“ ۔

پاکستان میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی صورتحال میں حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات کے لئے سیکورٹی فورسز مہیا کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ظاہر ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ روز ہی اعلان کیا ہے کہ وہ لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچیں گے۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ ملک بھر سے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچیں۔ 26 نومبر کو راولپنڈی میں تحریک انصاف کا جلسہ بھی ہو گا اور ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے کے بعد عمران خان کا اگلا اقدام کیا ہو گا۔

انہی دنوں پاکستان میں نئے آرمی چیف کا معاملہ بھی ایک بڑا موضوع بنا ہوا ہے اور عمران خان نے اس معاملے میں مخالفانہ طرز عمل کے بھر پور مظاہرے کے بعد صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس معاملے پہ ’نیوٹرل‘ رہنے کا اعلان کیا ہے۔ ان دنوں عمران خان توشہ خانے کی بیش قیمت گھڑی کی فروخت کے سیکنڈل کے حوالے سے بھی شدید بدنامی اور دباؤ کا شکار ہیں۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان اور ان کی پارٹی کا بیانیہ منتشر ہو چکا ہے اور ان کی سیاسی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوتی جار ہی ہے۔ جارحانہ انداز اپنانے والے عمران خان اور تحریک انصاف اب دفاعی پوزیشن اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔

آزاد کشمیر میں تحریک انصاف حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح بلدیاتی انتخابات ہو جائیں۔ آزاد کشمیر میں وزیر اعظم تنویر الیاس کی سربراہی میں قائم تحریک انصاف حکومت نے سرکاری وسائل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کو ”فتح“ کرنے کے انتظامات کافی حد تک مکمل کر لئے ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ وزیر اعظم تنویر الیاس حکومت اگر جارحانہ انداز میں سرکاری وسائل اور سرکاری حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کو فتح کر لیتی ہے تو اس سے آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کو نچلی مقامی سطح پر مضبوط بنانے میں بڑی مدد ملے گی اور اس سے اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن کو بڑی حد تک کمزور کیا جا سکتا ہے۔

یوں تحریک انصاف پاکستان میں کمزوری اور پسپائی کی شکار ہے لیکن آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات میں سرکاری وسائل اور سرکاری حیثیت سے تحریک انصاف حکومت جارحانہ انداز اپنائے چڑھائی کی صورتحال میں نظر آ رہی ہے۔ آزاد کشمیر کی یہ صورتحال پاکستان کی سیاست میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے لئے ’سیاسی آکسیجن‘ کا کام بھی کر سکتی ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ اس تمام صورتحال میں، آزاد کشمیر میں اتحادی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور تحریک انصاف حکومت کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کو ”فتح“ کرنے کی کوشش میں کس ردعمل کا اظہار کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ صرف بلدیاتی انتخابات تک محدود نہیں بلکہ یہ آزاد کشمیر کے اگلے عام انتخابات کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل معاملہ بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments