“کالاش” ایک ڈرامائی سفرنامہ


مستنصر حسین تارڑ کا شمار اردو ادب کے چوٹی کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی تحریروں اور اسلوب کو سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنا ادبی سفر ایک سفرنامے ”نکلے تیری تلاش میں“ سے شروع کیا۔ انھوں نے نہ صرف سفرنامے کی زوال پذیر صنف کو بام عروج پر پہنچایا بلکہ تیس سفرنامے، متعدد ناول اور کئی ڈرامے لکھ کر اردو ادب کے دامن کو تجسس اور حسن سے مالا مال کیا۔ انھوں نے اپنے سفرناموں کا آغاز مغرب کے اسفار سے کیا مگر بعد میں مے کدہ نما شمال کی خوبصورت وادیوں، برف پوش چوٹیوں، سرمئی چٹانوں، بلند و بالا آبشاروں، سبز پوش میدانوں اور نیلو نیل دریاؤں کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ صرف شمالی علاقہ جات پر یکے بعد دیگرے بارہ سفرنامے رقم کیے۔ سفرناموں کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ نے چند شاہکار ڈرامے بھی تخلیق کیے ہیں جن میں پرواز، مورت، شہپر، ہزاروں راستے اور کالاش شامل ہیں۔

”کالاش“ تجسس سے بھرپور ایک ڈرامائی سفرنامہ ہے جس میں چترال میں وادی کافرستان اور وادی بمبوریت کے سفری احوال ڈرامائی انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس ڈرامائی سفرنامے کے مرکزی کردار شان اور کیلاشی لڑکی زرگل ہیں۔ ثانوی کرداروں میں ظفر ( شان کا والد) ، مہوش ( شان کی دوسری بیوی) ، داؤد ( شان کا بہنوئی) ، ثریا ( شان کی بہن) اور بشارا، ثناء اللہ، مزمل، شجاع و دیگر شامل ہیں جو شان کی شخصیت کو نمایاں کرنے اور ڈرامے کو اختتام تک پہنچانے کے لیے آخر تک محو گردش ہیں۔

یہ ڈرامہ ایک سادہ لوح اور قوت فیصلہ سے محروم نوجوان، شان کی محبت کی ایک الم ناک داستان ہے جو یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر لوٹتا ہے اور سیر و تفریح کی خاطر اسلام آباد ائرپورٹ سے فوکر جہاز کے ذریعے چترال جاتا ہے۔ چترال میں پرنس شجاع الرحمن کے پرتعیش قلعے میں جگری دوست ثناء اللہ کے ہاں مختصر قیام کرتا ہے پھر بہ ذریعہ جیپ بمبوریت وادی پہنچ جاتا ہے۔ وہاں وہ ایک شفاف ندی کے کنارے اپنا خیمہ ایستادہ کر کے قیام کرتا ہے۔

کیلاش میں لڑکیاں بالعموم ندی کے کنارے بیٹھ کر بناؤ سنگھار کرنے کے علاوہ کھیتوں میں کام کاج بھی کرتی ہیں۔ دریں اثناء دو سیاح ایک کیلاشی لڑکی (زرگل) کو چھیڑنے آتے ہیں۔ لڑکی ندی کے کنارے ہرنی کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہوئی پناہ مانگنے شان کے قریب آتی ہے۔ شان اس خوبصورت ہرنی کو سیاحوں کی زرد نگاہوں سے بچاتا ہے اور ہر قسم کی تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھ کر اس کے کافر حسن پر دل فریفتہ ہو جاتا ہے۔ چوں کہ کیلاش میں لڑکیاں پسند کی شادیاں کرتی ہیں، یوں شان کی شادی زرگل سے ہو ہی جاتی ہے۔ شان اپنے والد کو اعتماد میں لینے کے لیے زرگل کو کچھ عرصے کے لیے میکے میں چھوڑ کر آتا ہے۔

لیکن گھر واپسی پر ظفر اور ثریا کے پر زور اصرار پر شان کی اپنی کزن مہوش سے چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو جاتی ہے۔ شان اب ظفر اور ثریا کو زرگل سے پہلی شادی کے بارے میں آگاہ کرنے سے ہچکچاتا ہے اور یوں وہ چند دنوں میں دو بیویوں کا یرغمال شوہر بن جاتا ہے۔ ادھر چترال میں زرگل شان کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر بشارا کے ہمراہ شان کے گھر آتی ہے اور شان گھر والوں کو حقیقت بتائے بغیر فٹافٹ زرگل کو اپنے دوست خواجہ مزمل کے پلیٹ میں منتقل کر دیتا ہے۔

یہاں مہوش شان کی مسلسل بے اعتنائی اور روز تاخیر سے گھر آنے پر شک میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ مہوش اب ہمہ وقت سراغ رساں کتے کی طرح شان کی جاسوسی میں مصروف رہتی ہے۔ اور بالآخر زرگل تک پہنچ ہی جاتی ہے جو خواجہ مزمل کے پلیٹ میں ننھے شیر خان کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ مہوش کا شک یقین میں بدل جاتا ہے اور منہ بسور کر گھر لوٹ آتی ہے۔

انکل ظفر روز شان سے تلخ لہجے میں مخاطب ہو کر آوازے کستا ہے : ”شان میں کچھ نہیں سنتا اب مجھے رزلٹ چاہیے“ ۔ بے چارے ظفر کو کیا پتہ کہ شان کب کا رزلٹ دے چکا ہے۔

والد کے روز کی طعن تشنیع سے تنگ آ کر شان ایک دن زرگل اور شیر خان کو اپنے ساتھ گھر لے آتا ہے اور اپنے والد (ظفر) سے کہتا ہے : ”ابا جی! یہ لیجیے رزلٹ۔“

ظفر یہ سب کچھ دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتا ہے۔
شان! یہ کون ہیں؟
”یہ میری پہلی بیوی زرگل اور یہ میرا نتیجہ شیر خان ہے۔“ شان جواب دیتا ہے۔

اس غیر متوقع رزلٹ کے بعد شان کی زندگی کی ناؤ منجدھار میں مسلسل ڈگمگانا شروع کر دیتی ہے۔ ایک طرف سادہ لوح اور قوت فیصلہ سے محروم شان ہے، اور دوسری طرف دو بیویوں کے درمیان حصول سلطنت کے لیے لڑائی جھگڑے، یعنی چترال کی قدیم فطری اور اسلام آباد کی جدید میکانکی تہذیب کے درمیان تصادم شروع ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا اہتمام داؤد کے ذمے ہے۔ کیونکہ داؤد ثریا کی عارضی بانجھ پنی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ظفر کی جائیداد پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے شان کو ٹھکانے لگانا بہت ضروری ہے، اور یوں گھر میں شان کے خلاف سازشوں کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

داؤد گھریلو خلفشار سے فائدہ اٹھا کر مہوش کو شان اور زرگل کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ دریں اثنا شان اور مہوش کے درمیان بار بار ٹکراؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے ظفر انتقال کر جاتا ہے۔ مہوش زرگل سے شیر خان کو چھین لینے کی کوشش شروع کر دیتی ہے اور شان کو ہمہ وقت یہ پٹی پڑھاتی ہے کہ زرگل ایک جنگلی اور پھوہڑ عورت ہے جو شیر خان کی تربیت جدید تقاضوں کے مطابق نہیں کر سکتی۔ شان بھی یہی چاہتا ہے کہ شیر خان کی تربیت مہوش کریں۔ کئی مہینے بعد زرگل ایک دن موقع پاکر چپکے سے شیر خان کو انگلی سے پکڑ کر بمبوریت ویلی آف چترال فرار ہو جاتی ہے۔ شان پر یہ خبر قیامت بن کر گزر جاتی ہے۔

ایک دن مہوش اور شان دونوں اپنے دوست مزمل کی شادی میں شرکت کے لیے جاتے ہیں اور راستے میں حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مہوش جاں بحق ہو جاتی ہے۔ داؤد موقعے کی مناسبت کا فائدہ اٹھا کر تھانے میں شان کے خلاف گواہی دیتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کئی مہینوں سے شدید اختلافات تھے، یعنی مہوش کو شان نے قتل کیا ہے۔ یوں داؤد کی جھوٹی گواہی کی بنا پر شان سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ چند مہینوں بعد داؤد کی تمام سازشیں رفتہ رفتہ آشکار ہو کر شان جیل سے باعزت بری ہو جاتا ہے۔

گھر لوٹتے ہی وہ جنت گم گشتہ کو بازیافت کرنے چترال جاتا ہے۔ چترال پہنچنے پر بشارا اسے زرگل کے گھر کے بجائے قبرستان لے جاتا ہے۔ وہاں بمبوریت کی قبرستان میں زرگل کی کھوپڑی اور ہڈیاں کیلاشی رسم کے مطابق چوبی تابوت میں کھلے آسمان تلے موجود ہوتی ہیں۔ جس کے اردگرد ہری گھاس اور چند رنگ برنگے پھول اگ آئے ہیں۔ شان اور بشارا تابوت کے سرہانے خاموش اور افسردہ کھڑے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ نے اس ڈرامے کو تیرہ اقساط میں لکھا ہے۔ فنی نقطہ نظر سے یہ ایک حزنیہ ڈرامہ ہے، جس میں مصنف نے دو تہذیبوں کے درمیان تصادم، کیلاش کا رسم و رواج اور کیلاشیوں کے استحصال کا ایک بہترین مقدمہ پیش کیا ہے۔ ڈرامے کا چست پلاٹ، حسین محاکات نگاری، بے تکلف مکالمہ نگاری، پرتجسس کشمکش اور غیر متوقع اختتام کہانی کو ارفع اور عمدہ بنا دیتا ہے۔ ”کالاش“ دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی، تہذیبی اور ثقافتی معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ بھی دامن میں سموئے رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments