کراچی کی خطرناک گلیاں


عمر شریف مرحوم کہا کرتے تھے کہ ایک بار کسی کے گھر میں ڈاکو آ گئے، اہل خانہ میں سے ایک بندہ بندوق نکال لایا اور ڈاکو فرار ہو گئے، اگلے دن ان کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا کہ آپ کے گھر میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے، جس پر گھر والوں نے وہ بندوق دکھا دی اور کہا کہ جناب یہ ایک نقلی ہتھیار ہے جس سے کسی کی جان نہیں لی جا سکتی۔ پولیس چلی گئی مگر اگلے روز پھر ڈاکو ان کے گھر گھس آئے اور بڑی سختی سے پیش آئے کہ ہمیں نقلی بندوق دکھا کر ڈراتے ہو، اب دیکھو ہم کیا کرتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہ محض ایک من گھڑت کہانی ہو مگر اس سے ملتے جلتے واقعات آئے دن ہمارے اردگرد رونما ہوتے رہتے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ چار دوستوں نے مل کر ٹک ٹاک بنانے کے لئے ایک ڈرامہ کیا، ایک دوست کتے کے ساتھ تصاویر بنوا رہا تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار اچانک سین میں داخل ہوئے تصویر بنانے والے لڑکے کا موبائل چھینا اور فرار ہو گئے، حالانکہ انہوں نے کچھ ہی دیر میں موبائل واپس کر دیا تھا کیوں کہ وہ چاروں آپس میں دوست تھے اور محض ٹک ٹاک بنانے کے لئے یہ ڈرامہ کر رہے تھے۔ جیسا کہ ان کا ارادہ تھا انہوں ازراہ مذاق یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی، حیرت انگیز طور پر پولیس نے ان چاروں دوستوں کو فوراً ہی گرفتار کر لیا، وہ کہتے رہے کہ جناب یہ ایک جھوٹا ویڈیو کلپ ہے، جس کا موبائل چھنا تھا وہ بھی کہتا رہا کہ ہم چاروں دوست ہیں وہ محض ایک مذاق تھا، مگر پولیس نے انہیں لاک اپ میں بند کر دیا۔

اس کے برعکس، ایسی بے شمار ویڈیوز موجود ہیں جن میں ڈاکوؤں کو صاف لوٹ مار کرتے دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ بار بار دیکھا جا سکتا ہے مگر وہ کبھی گرفتار ہونا تو درکنار جرم میں نامزد تک نہیں ہوتے، اور شہر میں دندناتے پھرتے ہیں، لوگوں کا بینک جانا، اے ٹی ایم جانا، یا کسی اور قیمتی شہ جیسے موبائل، لیپ ٹاپ، قیمتی گھڑی، زیورات اور نقدی کے ساتھ سفر کرنا انتہائی غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

ان ہی دنوں ایک نہایت ہی کریہہ واقعہ نے توجہ اپنی جانب مبذول کرلی، ہوا کچھ یوں کہ ایک لیڈی ڈاکٹر اپنی معذور والدہ کے ساتھ جو وہیل چیئر پر تھیں اور ڈاکٹر صاحبہ ان کی چیئر کو دھکیل رہی تھیں گھر کی گلی سے گزر رہی تھیں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار پیچھے سے آتا ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کے کندھے پر لٹکا ہوا پرس چھیننے کی کوشش کرتا ہے، ظاہر ہے اس ناگہانی پر ڈاکٹر صاحبہ ہکا بکا رہ جاتی ہیں ساتھ ساتھ کچھ مزاحمت بھی کرتی ہیں، مگر لٹیرا پوری قوت سے پرس چھیننے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ڈاکٹر صاحبہ اور ان کی والدہ بہت بری طرح زمین پر گر جاتی ہیں اور زخمی ہو جاتی ہیں۔

مگر لٹیرا پرس چھننے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور فرار ہو جاتا ہے جس کا آج تک کوئی پتہ نہیں کون تھا، ایک ادارہ کہتا ہے کہ ویڈیو میں نمبر پلیٹ صاف نہیں کوئی کیا کہہ رہا ہے تو کوئی کیا مگر یہ روز کا معمول ہے، عمومی طور پر جرائم پیشہ افراد قانون کی دسترس و گرفت سے محفوظ ہی رہتے ہیں، یا تو ان کو عوام ہی پکڑ کر مار دے یا اداروں سے تعلقات خراب ہو گئے ہوں تو وہ مارے جاتے ہیں ورنہ وہ اپنی طبعی عمر پوری کر کے ہی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔

امر استعجاب یہ ہے کہ جب عام لوگوں تک یہ ساری معلومات ہوتی ہیں تو پھر جن کی ذمہ داری ہے وہ کیوں اس معاملے میں کارگر نظر نہیں آتے، وہ ان جرائم کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے کہ جو عوام ان کی نا اہلی کی وجہ سے ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں انہیں تنخواہ اور مراعات ان ہی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کی جاتی ہے جن کی زندگی ان لوگوں کی چشم پوشی کی وجہ سے اجیرن بنی ہوئی ہے۔ لوٹ کے مال میں سے انہیں بھی حصہ ملتا ہے تاکہ وہ چشم پوشی کرتے رہیں اور وقت پڑنے پر ان کی مدد بھی کریں۔

موجودہ حالات کے تناظر میں اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ششدر رہ جائیں گے کہ اب تک رواں سال کے دوران قریب صرف کراچی میں 19,000 لوگ اپنے موبائل فونز سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ 104 کاریں چھین لی گئی جبکہ 1383 چھین لی گئی، سائڈ مر ر اور دیگر قیمتی پرزہ جات کی چوری اس کے علاوہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ 35,000 موٹر سائل بھی چوری کی گئیں یا چھین لی گئیں۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے مزاحمت کی ان میں سے عمومی مار دیے گئے لہذا چوری، ڈکیتی یا چھینا جھپٹی کے دوران مارے جانے والے افراد کی تعداد 59 ہے جبکہ 269 زخمی ہوئے، کراچی میں اس دوران قریب 56,600 مختلف نوعیت کے جرائم وقوع پذیر ہوئے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

مندرجہ بالا جرائم کے اعداد و شمار میں اگر اغواء برائے تاوان اور گھروں میں گھس کر کی جانے والی ڈکیتی کی وارداتیں بھی شامل کر لی جائیں تو کراچی دنیا میں جرائم زدہ شہروں میں عروج پر نظر آئے گا۔ حکومتی دعووں کے باوجود عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا نتیجہ وہی کہ لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں اور دن دھاڑے گھروں، بازاروں ہوٹلوں اور تفریحی مقامات پر لوٹ لئے جاتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے باوجود وہ پکڑے نہیں جاتے بلکہ وہ تو مشہور ڈان بن جاتے ہیں، ملک کے دیگر حصوں کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے رواں سال اب تک پورے ملک میں جرائم کی سات لاکھ وارداتیں ہو چکی ہیں، یہ شاید یقین کرنا ذرا مشکل ہو مگر یہ سچ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments