سوشل میڈیا اور مسلم لیگ نون


سوشل میڈیا، ایک بڑا سا ٹب، اس کے نیچے جل رہی آگ، گرمی کا موسم، ٹب میں پانی اور پانی میں رکھی برف کی ایک بڑی سی سل اور اس پر بیٹھا ایک ”پٹواری“ جو یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہا ہے کہ گرمی کے موسم میں اسے بیٹھنے کو ایک اچھی جگہ نصیب ہوئی ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ جب پانی گرم ہو گا تو برف پگھلے گی اور جب برف پگھلے گی تو کیا ہو گا؟ یہ سمجھنا کوئی کیمسٹری نہیں۔

جملہ معترضہ: ویسے میرے نزدیک اصل پٹواری تحریک انصاف والے ہیں جنھوں نے شہباز شریف کے ختم کردہ پٹوار خانہ سسٹم کو ایک بڑی شخصیت کو راضی کرنے کے لیے نہ صرف دوبارہ بحال کیا بلکہ کئی پٹواری بھرتی بھی کیے۔

پاکستان مسلم نون والے بیچارے اپنی کارکردگی کی برفیلی سل پر آرام سے بیٹھے خوش فہمیوں کا شکار تھے۔ عمران خان نے آگ بھڑکائی، انھیں ”سیک“ لگنا شروع ہوا، جاگے لیکن پھر بھی سوشل میڈیا کی جانب توجہ نہ دی۔ جب کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہوا تو اس جانب توجہ مبذول کی لیکن پھر بھی ان کا سوشل میڈیا دفاع تک محدود رہا۔ میں نے باقاعدہ ریسرچ کر کے اس پر چار کالم لکھے لیکن لگتا ہے کہ نون لیگ کے مرکزی یا صوبائی دفاتر میں روزمرہ کی بنیاد پر اپنے بارے چھپنے والی خبروں اور تجزیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ نون لیگ صرف بڑے کالم نگاروں کی باتوں کو سیریس لیتی ہے، اس لحاظ سے میں ایم کیو ایم کو داد دوں گا کہ وہ ملک کے طول و عرض میں چھپنے والی خبروں اور کالموں کا باقاعدہ رسپانس دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا جان لیوا ہتھیار ہے۔ ایک نوجوان ٹک ٹاکر نے چلتی ریل کے آگے ویڈیو بنانے کے چکر میں اپنی جان دے دی جبکہ دوسری مثال کے پی کے کی ہے جہاں ایک لڑکا ویڈیو بنانے کے چکر میں خود اپنے سر میں گولی اتار بیٹھا۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوا؟ کس چیز نے پہلے لڑکے کو تیزرفتار چلتی ہوئی ٹرین کے آگے کھڑا رہنے پر مجبور کیا؟ کون سی چیز تھی جس نے دوسرے لڑکے کو یہ تک نہ دیکھنے دیا کہ پستول خالی نہیں ہے؟ جواب ایک ہی ہے سوشل میڈیا کا جنون، ویڈیو وائرل ہونے کا جنون، زیادہ لائیک حاصل کرنے کا جنون، بہت سے کمینٹ اور شیئرنگ کا جنون؟ یعنی سوشل میڈیا کے اثرات ہیں اور اسی ”جن“ کے ذریعے اس وقت عمران خان نے بڑی بڑی ”ہستیوں“ کو ڈرا رکھا ہے۔

سوشل میڈیا کے اثرات پر میں باقاعدہ لکھ چکا، آج صرف یہ لکھنا چاہتا ہوں کہ نون لیگ کو اس عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

( 1 ) ۔ کچھ باتیں تو وہی ہیں کہ انھیں ٹویٹر کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک، سنیک ویڈیوز اور لائیکی کے میدان میں بھی فوجیں اتارنی ہوں گے اور اس کا رزلٹ آپ دیکھیں کہ تین چار دن پہلے نون لیگ نے ٹک ٹاک کا قلعہ فتح کیا تو تحریک انصاف اور بعض نام نہاد صحافیوں کا ”ماتم“ دیکھنے والا تھا۔ بس یہیں سے آپ کو ان کی طاقت اور اپنی کمزوری کا علم ہوجانا چاہیے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ سنیک ویڈیوز اور لائیکی کا میدان مارنا ہے۔ ایک عام مزدور پاکستانی دن بھر کا تھکا ہارا گھر آتا ہے تو تھکن اتارنے کے لیے ٹویٹر کی بجائے انھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ فیس بک کی مختصر مزاحیہ ویڈیوز کا سہارا لیتا ہے۔ تحریک انصاف نے اس بات کا ادراک کیا اور مزاح کے انداز میں اپنا پروپیگنڈا یوں پھیلایا کہ محرم کو مجرم بنا ڈالا۔

( 2 ) ۔ آپ کو اپنی سوشل میڈیا کو گراس روٹ لیول پر منظم اور یک جان کرنا ہو گا۔ ہر یونین کونسل میں موجود اپنے عہدیداروں کے ذمے اگر بیس بیس ایکٹو ممبر بھی لگائے جائیں تو اندازہ لگائیں کہ ان کی تعداد کیا ہو گی اور ہر ممبر کے ذمے دن کی صرف دس پوسٹیں لگا دیں تو رزلٹ آپ خود دیکھ لیجیے گا۔ تحریک انصاف کے حق میں کوئی پوسٹ آئے تو تحریک انصاف کے لیڈر اور باقی ممبران یہ نہیں دیکھتے کہ جاننے والا ہے یا نہیں اور اس کی حیثیت کیا ہے وہ اسے شیئر اور لائیک کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں نون لیگ کے لیڈر اور کارکنان صرف بڑے صحافیوں، اپنے مخالفین یا اپنے جاننے والوں کی پوسٹ لائیک، شیئر یا ریپلائی کرتے رہتے ہیں جس سے عام کارکن کا حوصلہ بھی پست ہوتا ہے اور ان کی پوسٹوں کی ریچ کم جبکہ مخالفین کی ریچ بڑھتی چلی جاتی ہے۔

( 3 ) ۔ سلیبرٹیز کو بھی انگیج کریں کیونکہ کچھ لوگ ان کے دلدادہ ہوتے ہیں اور ان کی زیراثر پروپیگنڈے کا شکار ہوتے ہیں جیسا کہ وینا ملک اور ثمینہ پیرزادہ ان دنوں تحریک انصاف کا جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔

(4) ۔ آپ کا سوشل میڈیا جتنا بھی مضبوط ہو لیکن اس کے پاس مواد (کانٹینٹ) نہیں ہو گا تو وہ وقتی ٹرینڈ تو چلا پائے گا لیکن اثرات سے خالی ہو گا۔ مواد ایک عام کارکن کے پاس نہیں بلکہ آپ کے پاس ہے۔ آپ حکومت میں ہیں اور تحریک انصاف کی ہر واردات تک آپ کی رسائی ہے۔ آپ وہ مواد اپنی ٹیم کو مہیا کریں اور پھر ٹیم کا کام ہے کہ اس مواد سے متعلقہ پوسٹیں بنا کر سوشل میڈیا پر ”انت“ مچا دے۔

( 5 ) ۔ پانچویں اور سب سے اہم بات: آپ کو دفاعی پوزیشن سے باہر نکل کر اٹیکنگ پوزیشن پر کھیلنا ہو گا۔ عمران خان ایک بے بنیاد ذریعے سے آپ پر اٹیک کرتا ہے، آپ اس کا دفاع کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس سے پہلے کہ لوگ آپ کی باتوں کی طرف توجہ دے کر سچ جھوٹ کا امتیاز کر سکیں، عمران خان ایک نیا اٹیک کر دیتا ہے، آپ پہلا دفاع ادھورا چھوڑ کر نئے دفاع میں لگ جاتے ہیں اور عوام بھی عمران خان کے نئے اٹیک سے متاثر ہونے لگتی ہے۔ یعنی وہ ایک قدم ہمیشہ آگے جا رہا ہے۔ آپ بس ایک مہینا اتنا کریں کہ پریس کانفرنس یا ٹاک شوز جو بھی ہو، مت سنیں اینکر اور صحافی اور عمران کیا کہہ رہا ہے اسے بھی مسلسل اگنور کرتے جائیں، بس اپنی اٹیکنگ پوزیشن برقرار رکھیں، رزلٹ خود دیکھ لیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments