پروین شاکر ایک ماں کے روپ میں!


پروین شاکر کے اکلوتے صاحب زادے سید مراد علی گزشتہ برس یعنی 2021 میں بیالیس برس کے ہو گئے پروین کی زندگی میں جب یہ ہندسہ آیا تو انھوں نے اپنا مسکن ہی تبدیل کر لیا اور اپنے بے پایاں تخلیقی سفر کو جب وہ ماہ تمام بن چکا تھا چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوئیں۔ میں چاہتی تھی کہ جب مراد میاں بیالیس برس کے ہوجائیں تو ان کی طویل عمری کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں ان کا صدقہ نکالا اور ان کے اعزاز میں قومی سطح پر یادگار تقریب کا انعقاد کیا جائے کیونکہ یہ وہ سال تھا جب دنیائے ادب کی نامور اور معتبر ترین ہستی نے دنیا کو الوداع کہا اور اپنے تخلیقی ورثے میں پانچ مجموعہ ہائے کلام، نثری سرمایہ، تراجم، کالم، مضامین، خطوط، لیکچرز اور بے شمار یادیں چھوڑی ہیں تو وہیں ان کے چہرے کا عکس اور ان کی عمر بھر کی کمائی سید مراد علی ماشاءاللہ ہمارے پاس موجود ہیں۔

اور یہ دونوں سرمائے ہی دنیائے ادب و فنون کو بے حد عزیز ہیں۔ پروین شاکر کی شاعری میں ہمیں ان کی ممتا بھری نظموں کا طاقتور ترین حوالہ ملتا ہے۔ یوں تو ہر ماں اپنی اولاد کے لئے تن، من، دھن سے اس کے آرام و آسائش کے لئے کوشاں رہتی ہے لیکن پروین شاکر کا معاملہ بالکل مختلف تھا انھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا اور اسے ایک بہترین انسان بنایا ماشاءاللہ آج وہ ایک کامیاب انسان ہے جس نے اپنی ماں کے خوابوں کو پورا کیا اور زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کیا جس کے لئے پروین شاکر نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا؛

” میں مراد کو نیورو سرجن بنانا چاہتی ہوں، معاشرے کا کامیاب اور ذمے دار شہری“
( ہیرالڈ، 1994، اکتوبر) ۔

سید مراد علی کی پیدائش 20، نومبر 1979 کو کراچی کے سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ اسپتال میں ہوئی۔ مراد کی پیدائش کو انھوں نے بڑے اہتمام سے منایا اس ضمن میں انھوں نے ایک بے بی بک ( Baby book) بنا رکھی تھی جس میں وہ اس کے متعلق حقائق جمع کرتی جاتیں مثلاً بچے کا وزن، اس کی آنکھوں کی رنگت، اس کے بالوں کی رنگت، قد، وزن اور سونے جاگنے کے اوقات بھی نوٹ کرتی جاتیں۔ پروین شاکر نے اپنا تیسرا مجموعہ کلام خود کلامی بھی مراد کے نام معنون کیا۔

مراد کو وہ پیار سے گیتو کہتیں۔ اسے گیتو کہنے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”میں اسے سلانے کے لئے لوریاں سناتی ایک دن میں نے دیکھا کہ مراد سونے کے بجائے میری ہی طرح گانے کی کوشش کر رہا ہے“ خودکلامی کو پروین نے انگریزی میں ( Talking to oneself) کے نام سے ترجمہ بھی کیا۔ بعد ازاں کتاب کا جاپانی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا خود کلامی کے صفحہ نمبر 18 پر ان کی پہلی ممتا بھری نظم موجود ہے۔ جس کا عنوان ”جواز“ ہے یہ جواز پروین شاکر کی زندگی کا جواز ہے کہ جب وہ ماں کے روپ میں سرشار نظر آتی ہیں۔

جواز
کتنی سنسان زندگی تھی
سب طاق مرے دیے سے خالی
بے برگ و ثمر بدن کی ڈالی
کھڑکی پہ نہ اکے بیٹھے چڑیا
آنگن میں بھٹک سکے نہ تتلی
سنجوگ کی بے نمو رتوں سے
میں کتنی اداس ہو چلی تھی
آواز کے سیل بے پنہ میں
میں تھی، مرے گھر کی خامشی تھی
پر دیکھ تو آ کے لال میرے
اس کلبۂ غم میں مجھ کو تیرے
آنے کی نوید کیا ملی ہے
جینے کا جواز مل گیا ہے!

ان کی اسی سرشاری کو پروین شاکر کے فن اور شخصیت اور یادوں پر مبنی ایک کتاب پارہ پارہ میں نصرت زہرا نے یوں اجاگر کیا ہے ؛

” حصول رزق کی گہری مشقتوں کے درمیان اپنی روح کے موسموں کے کھوئے ہوئے سر ڈھونڈنے نکلی کہ اس بار خدا نے اسے مسکرا کر دیکھا کہ جب اسے زندگی کا سب سے خوبصورت روپ عطا ہوا اور اسے اپنی مراد بر آنے کی امید ہوئی۔ یہ امید شادی کے تین برس بعد آئی۔“

امجد اسلام امجد جنہیں وہ پیار سے امجد بھائی کہا کرتی تھی ایک خط میں اپنی زندگی کی اس خوشی پر ان سے یوں مخاطب ہوئی

” ہاں امجد بھائی یہ دور ہے تو بہت خوبصورت مگر اس کی اذیتیں بھی بہت ہیں“ ۔

20 نومبر 1979 کو مراد کی پیدائش ہوئی، پروین نے اس ساعت کا جشن منانے کے لئے بڑی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ ”کائنات کے خالق“ ، ”جواز“ ، ”میرا لال“ اور ”تیری موہنی صورت“ خالصتاً ماں کے جذبات کو پیش کرتی ہیں مراد کی پیدائش کے بعد خانگی حالات کے پیش نظر زیادہ مضبوط اور مستحکم مستقبل کی فکر لاحق ہوئی حصول علم کی جستجو اسے ایک بار پھر کراچی یونیورسٹی کھینچ لائی اور اس نے شعبۂ انگریزی لسانیات میں داخلہ لیا۔ ”(باب نمبر 3 ککر تے انگور چڑھایا، ص 33 )

یہی نہیں انھوں نے مقابلے کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور نو سالہ تدریسی کیریئر کو خیر باد کہا۔ پروین کی گوناگوں مصروفیات میں اگر کسی کا وجود باعث تقویت تھا تو وہ مراد کا وجود تھا ”خود کلامی“ ہی میں ان کی ایک نظم ”میرا لال“ کے عنوان سے موجود بڑی پیاری نظم ہے۔ لال کے لغوی معنی پیارا، دلارا، چہیتا اور معشوق کے ہیں جبکہ ایک نوع کا بڑا یاقوت رمانی، لعل، ہیرا، قیمتی پتھر، سرخ احمر خواہ تمازت آفتاب سے ہو یا انچ میں لال رنگ ہے۔ مجازاً بیٹا، فرزند، بچہ اور لڑکے کے لئے بھی لال استعمال ہوتا ہے۔

میرا لال
میرے زرد آنگن میں۔
سرخ پھول کی خوشبو۔
نقرئی کرن بن کر ۔
کاسنی دنوں کی یاد۔
سبز کرتی جاتی ہے۔

اس نظم میں پروین شاکر کا لہجہ ہمیں خوشبو کی نظموں سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے جب ان کے وجود کو پہلے پہل محبت کا وجدان ملا اور خوشبو نے جنم لیا جب دنیا کی ہر شے میں حسن اور لطافت ایک سرشاری کے ساتھ انسان کو ہر دم سر سبز رکھتی ہے اور وہ اس بے خودی میں صرف ایک چہرہ یاد رکھتا ہے جو اس کے محبوب کا چہرہ ہوتا ہے۔ جب سرخ پھولوں کی خوشبو اور چاند کی اجلی سی کرنیں دل پر یوں اترتے ہیں کہ ذہن و دل میں ایک ہی چہرہ بسا رہتا ہے۔

پروین کی ممتا بھری نظموں کے بارے میں ممتاز افسانہ نگار محترمہ خالدہ حسین نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ،

” پروین کی اپنے بیٹے کے لئے لکھی گئی نظمیں پڑھ کر ڈی ایچ لارنس کی سنز اینڈ لورز یاد آجاتی ہے اور وہ اپنے بیٹے کو یونہی کل کائنات تصور کرتی ہے جس طرح محب اپنے محبوب کو ۔“

( مشمولہ، خوشبو کی ہم سفر از سلطانہ بخش، کانچ کی گڑیا) ۔

خود کلامی کی ایک اور نظم تیری موہنی صورت ہے۔ موہنی ہندو دیوتا وشنو کے حسین لڑکی کا اوتار ہے وشنو نے اسروں سے امرت گھڑا واپس لینے کے لئے یہ روپ لیا تھا تاکہ گھڑا واپس دیوتاؤں کے پاس اجائے۔ موہنی بمعنی دل لبھانے والی شکل جس پر دیکھنے والا عاشق ہو جائے پروین نے بھی تو اپنی اکلوتی اولاد سے عشق کی حد تک محبت کی اور اس کی موہنی صورت کو کئی زاویوں سے محسوس کیا اور اس کے وجود اندھیری راتوں میں جگنو، روشنی اور چاند کی طرح دمکتا ہوا پایا۔ یہاں تک کہ اداسیوں اور اندھیروں کو مات ہو گئی اور ماں کی محبت پر شے پر غالب آ گئی۔ پروین کا زندگی سے جاندار مکالمہ شاعری میں ڈھل کر ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا وہ زندگی کی ہر صورت حال کی فنکارانہ نظم کشی پر مکمل دسترس رکھتی ہیں۔

تیری موہنی صورت!
ہاں مجھے نہیں پرواہ
اب کسی اندھیرے کی
آنے والی راتوں کے
سب اداس رستوں پر
ایک چاند روشن ہے
تیری موہنی صورت!

پروین شاکر کے فن اور شخصیت پر شائع ہونے والی ایک کتاب پروین شاکر فکر و فن از احمد پراچہ میں یوسف تھا چشتی اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ

” بعض کا خیال ہے کہ خوشبو نوجوانی کی شاعری ہے، آزاد منش سی، صدبرگ کی شاعری بندھن کی شاعری ہے اور خود کلامی کی فضا خودی کا احساس لئے ہوئے ہے لیکن فی الاصل نوجوان طالبۂ علم پروین، شادی شدہ پروین اور بامراد پروین بڑی غیر متوقع صورت میں شاعرہ پروین پر اپنا اثر ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ جہاں ایک جرآت مند عورت بن کر “ خود کلامی ”کے آئینے میں سامنے آتی ہے وہاں ایک (Proud Mother) کی عظمت کی تصویر بھی پیش کرتی ہے، ان کی نظم کائنات کے خالق میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں،

کائنات کے خالق!
کائنات کے خالق
دیکھ تو مرا چہرہ
آج میرے ہونٹوں پر
کیسی مسکراہٹ ہے
آج میری آنکھوں میں
کیسی جگمگاہٹ ہے
میری مسکراہٹ سے
تجھ کو یاد کیا آیا
میری بھیگی پلکوں میں
تجھ کو کچھ نظر آیا
اس حسین لمحے کو
تو تو جانتا ہو گا
اس سمے کی عظمت کو
تو تو مانتا ہو گا
ہاں، ترا گماں سچ ہے
ہاں، کہ آج میں نے بھی
۔ زندگی جنم دی ہے!

اسی طرح جواز، میرا لال، تیری موہنی صورت، ایک ماں کے فخریہ احساسات کی ممکن حد تک کامیاب، واضح اور خوبصورت تصویر ہیں عورت اور اظہار جذبات ابھی تک ہمارے ہاں کا ایک مسئلہ ہے ”۔

( پروین شاکر، فکر و فن از احمد پراچہ 1994، کوہاٹ)

پروین شاکر کو جب خدا نے عظیم تخلیق کا حصہ بنایا تو ان کے فنی سفر پر بھی اس واقعے کے گہرے اثرات محسوس کیے گئے گو کہ انہوں نے بڑی حوصلہ مندی سے زندگی کی اور خدا سے شکوے شکایات اور دنیا کی بے ثباتی کو اپنے وضع کردہ نظام زیست سے ٹیکل کرنے کی کوشش کی جہاں ایک جانب گھریلو فرائض کے ساتھ پیشہ وارانہ زندگی کے معاملات اور پھر ایک ماں جس کے ذمے اپنے بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت اور اسے سنگل پیرنٹ ہونے کے باوجود بھرپور انسان بنانا شامل ہوں بڑی خوش اسلوبی سے نبھائے۔ بیگم پروین قادر آغا کی تحریر کردہ کتاب Rain drops tear drops میں انہوں نے پروین کی نرم اور حساس طبیعت کو یوں اجاگر کیا ہے،

” تحفظ اور تربیت کے نقطۂ نگاہ سے گیتو کو بورڈنگ اسکول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا چنانچہ پروین نے گھوڑا گلی لارنس کالج کو گیتو کے داخلے کے لئے چنا جہاں اسے داخلہ بھی مل گیا۔ پروین نے بوجھل دل کے ساتھ اس کا سامان باندھا اور کپڑے سوٹ کیس میں رکھے اور ہم سب افسردگی میں غرق اسے وہاں چھوڑنے گئے۔ جونہی گیتو نے اپنا منہ موڑا پروین افسردہ ہو گئی اور پرنسپل سے پوچھنے لگی کہ کیا وہ اس سے ملنے ہر ہفتے آ سکتی ہے یہ اسکول کے قواعد و ضوابط کے خلاف تھا لیکن پروین نے ذرا اصرار کیا تو رحمدل پرنسپل مان گیا لیکن اس کے لیے خاص انتظامات کرنے پڑے پروین پرنسپل کی رہائش گاہ آئے گی اور گیتو کو وہاں بلا لیا جائے گا۔

اس طرح دوسرے بچے احتجاج نہیں کریں گے یہ انداز ملاقات چند ہفتے ہی جاری رہ سکا ایک دن گھر آئی تو دیکھا کہ پروین خاموشی سے آنسو بہاتی ہے وہ اپنے بیٹے کی جدائی سے غمگین تھی اور کہنے لگی وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتی۔ پروین نے گیتو کے لئے ایک نظم بھی لکھی ہم نے اسے سمجھا بجھا کر تسلی دینے کی کوشش کی لیکن یہ بے کار تھا پھر گیتو بیمار پڑ گیا اور پروین کو پتہ چل گیا کہ اسے اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ پروین زیادہ بار کالج جانے لگی اور وہ بہت افسردہ ہو گئی ایک دن میں نے گیتو کو گھر پر دیکھا اور میں سمجھتی کہ وہ چھٹیوں میں آ یا ہو گا پھر میں نے اس کے صندوق دیکھے اور مجھے احساس ہوا کہ پروین اسے گھر لے آئی تھی اس کو بھی اسکول کا ہوسٹل کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔“

(تنہا عورت، شہرت کی قیمت، باب نمبر 5 )

یہ نظم جو انکار میں طبع ہوئی انہی دنوں کی نظم ہے جس میں ایک تنہا ماں کے کرب کو بڑی شدت اور نزاکت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پروین کے احساس نزاکت و ندرت پر بہت کچھ لکھا گیا تاہم زندگی کی مشکلات کا ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کرنے اور ثابت قدمی سے اپنے مقصد کی جد و جہد کرنے پر ذرا کم ہی نظر جاتی ہے ناقدین اور مضمون نگاروں کی۔ اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے وہ فیض احمد فیض کے پہلو بہ پہلو چلتی ہوئی دکھلائی دیتی ہیں اور فیض کے اس عہد جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے کی پاسدار نظر آتی ہیں۔

جدائی کی پہلی رات
آنکھ بوجھل ہے
مگر نیند نہیں آتی ہے
میری گردن میں حمائل تری بانہیں جو نہیں
کسی کروٹ بھی مجھے چین نہیں پڑتا ہے
سرد پڑتی ہوئی رات
مانگنے آئی ہے پھر مجھ سے
ترے نرم بدن کی گرمی
اور دریچوں سے جھجھکتی ہوئی آہستہ ہوا
کھوجتی ہے مرے غم خانے میں
تیری سانسوں کی گلابی خوشبو!
میرا بستر ہی نہیں
دل بھی بہت خالی ہے
اک خلا ہے کہ مری روح میں دہشت کی طرح اترا ہے
تیرا ننھا سا وجود
کیسے اس نے مجھے بھر رکھا تھا
ترے ہوتے ہوئے دنیا سے تعلق کی ضرورت ہی نہ تھی
ساری وابستگیاں تجھ سے تھیں
تو مری سوچ بھی، تصویر بھی اور بولی بھی
میں تری ماں بھی، تری دوست بھی ہم جولی بھی
تیرے جانے پہ کھلا
لفظ ہی کوئی مجھے یاد نہیں
بات کرنا ہی مجھے بھول گیا!
تو مری روح کا حصہ تھا
مرے چاروں طرف
چاند کی طرح سے رقصاں تھا مگر
کس قدر جلد تری ہستی نے
مرے اطراف میں سورج کی جگہ لے لی ہے
اب ترے گرد میں رقصندہ ہوں!
وقت کا فیصلہ تھا
ترے فردا کی رفاقت کے لیے
میرا امروز اکیلا رہ جائے
مرے بچے، مرے لال
فرض تو مجھ کو نبھانا ہے مگر
دیکھ کہ کتنی اکیلی ہوں میں!

پروین کی خود کلامی ہی میں ہمیں ایک نظم ”نوشتہ“ ملتی ہے جس میں انھوں نے اپنے مقدر، گھریلو حالات اور اپنی زندگی پر خود ایک لطیف طنز کیا ہے جو بڑی شاعری کی میراث ہے۔ ان کا روایتی شیریں لہجہ ان حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے جن سے وہ اس دور میں گزر رہی تھی کانٹوں پر آبلہ پا چلتے ہوئے دکھائی دیتا ہے وہ تیسری دنیا کی ان تمام مظلوم عورتوں کی آواز بن گئی ہیں جو اپنے گھروں کی کفیل ہونے کے باوجود فیصلہ سازی سے محروم ہیں اور جن کی کاوشوں کو سراہے جانے کے بجائے نہ صرف رد کر دیا جاتا ہے بلکہ اگر عورت اپنے خاوند سے زیادہ نامور ہو تو گھر کے ماحول میں مردانہ برتری کے تناؤ کو انھوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر یونہی پیش کر دیا ہے جو ایک سچے تخلیق کار کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔ ان کی اس عالی ہمتی کے باعث ہی وہ اردو شاعری کی نمائندہ آواز قرار پائی ہیں۔

نوشتہ
۔ تب زید نے بکر کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ ؛
اس کی ماں اس کے باپ سے زیادہ مشہور تھی
مرے بچے!
ترے حصے میں بھی یہ تیر آئے گا۔
تجھے بھی اس پدر بنیاد دنیا میں، بالآخر
اپنے یوں مادر نشاں ہونے کی اک دن
بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اگرچہ
تیری ان آنکھوں کی رنگت
تیرے ماتھے کی بناوٹ
اور تیرے ہونٹوں کے سارے زاویے۔
اس شخص کے ہیں۔
جو تری تخلیق میں ساجھی ہے میرا۔
فقیہ شہر کے نزدیک جو پہچاں ہے تری۔
مگر جس کے لہو نے تین موسم تک تجھے سینچا ہے
اس تنہا شجر کا
ایک اپنا بھی تو موسم ہے۔
لہو سے فصل تارے چھاننے کی
سوچ سے خوشبو بنانے کی رتیں
اور شعر کہنے کا عمل
جن کی عملداری ترے قلعوں سے باہر جا چکی ہے
اور جسے واپس بلا سکنا۔
نہ سیفو کے لئے ممکن رہا تھا
نہ میرا کے ہی بس میں تھا!
سو اب ہمجولیوں میں
گاہے گاہے تیری خجلت۔
واقفوں کے اگے تیرے باپ کی مجبور خفت۔
اس گھرانے کا مقدر ہو چکی ہے۔
کوئی تختی لگی ہو صدر دروازے پہ لیکن۔
حوالہ ایک ہی ہو گا
ترے ہونے نہ ہونے کا ۔

ان کے اسی کرب کی نمائندگی کرتی ہوئی نظم جو ان کی مدت زیست میں طبع ہو نے والے آخری مجموعہ کلام انکار میں طبع ہوئی۔ اور جس میں انہوں نے تمام دکھوں کو ایک مختصر سی نظم میں پرو دیا ہے جب بڑے بڑے سورما منافقت اور مصلحتوں کا شکار ہو کر چپ دریا میں بہتے اور بہتے ہی چلے جاتے ہیں وادی مہران کے ایک تیز رفتار شہر کی ایک غزل نما عورت اپنی ازدواجی زندگی کا حرف کلید بیان کرتے ہوئے ذرا نہیں چوکتی۔ تاہم یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بیٹے مراد کا وجود ہی ان کے ہر کرب کو قابل زیست بنائے رکھتا ہے۔

ایک دفنائی ہوئی آواز
۔
پھولوں اور کتابوں سے آراستہ گھر ہے۔
تن کی ہر آسائش دینے والا ساتھی،
آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا بچہ
لیکن اس آسائش،
اس ٹھنڈک کے رنگ محل میں
جہاں کہیں جاتی ہوں۔
بنیادوں میں بے حد گہری ہوئی۔
اک آواز برابر گریہ کرتی ہے۔
مجھے نکالو!
مجھے نکالو!

ڈی ایچ لارنس کی خود نوشت سوانح عمری ( Son ’s and lover‘ s) کا مآخذ بھی یہی نا آسودگی ہے لیکن پروین لائق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے وہی لکھا جو ان پر بیت رہی تھی تاہم یہ نا آسودگی اور کرب و بلا کے منظروں میں ہمیں ان کے جگر گوشے مراد کا وجود نظر آتا ہے جو ایک الاؤ کی طرح ہر رات میں روشنی سجھانے اور اندھیروں کو مٹانے کا ذریعہ ہے۔ پروین نے سنگل پیرنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ورکنگ مدر کے ساتھ پیش آنے والے دوہرے معیارات کو سیدھے اور دل میں اتر جانے والے انداز میں بیان کیا ہے حالانکہ وہ ایک ہائی پروفائل شخصیت تھیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں مردوں کے بنائے ہوئے اقداری نظام میں ملازمت پیشہ خواتین کو کئی سمت سے آنے والی ہواؤں سے لڑنا پڑتا پے۔

بات خواہ عام دفاتر کی ہو یا ہائی پروفائل اداروں کی یہاں بھی کنگ سائز شخصیات کی جانب سے اپنے رویے، باتوں، پیغامات، اور حرکات و سکنات سے ہراساں کیے جانے کا رویہ جاری و ساری ہے اگرچہ ملک کی منتخب حکومتیں ان مسائل کی روک تھام کے لئے سو طرح کے آرڈیننس جاری کرتی رہی ہیں لیکن یہ رویہ نہ صرف تھمنے کا نام نہیں لیتا بلکہ اب یہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ بات چاہے کسی معمولی عورت کی ہو یا ہائی پروفائل شخصیت کی تمام خواتین ہی ایسے حالات کا شکار پائی جاتی ہیں۔

پروین نے ان حالات میں بھی صبر و ضبط سے ایسے حالات کو نظم کیا جن میں گزارہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ پروین خوش شکل تھیں، اعلی تعلیم یافتہ تھیں اور سب سے بڑھ کر ایک تخلیق کار تھیں۔ ایسے میں یہ بھیڑیے اور گدھ اپنی حیثیت اور مرتبے کے نشے میں اس (Banana Republic) کے بے تاج بادشاہ اپنے میرٹ، ذہانت اور محنت کے بل پر معاشرے میں اپنا مقام بنانے والی خواتین کے پیچھے یوں پنجے گاڑے بیٹھے ہیں کہ (Me too) جیسی تحاریک بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

بھیڑیے!
میرے چاروں طرف بھیڑیے
آنکھیں حلقوں سے باہر
زبانیں بھی نکلی ہوئی
دھونکنی کی طرح سانس چلتی ہوئی
مرے اطراف حلقہ کیے
جس طرح کوئی ماہر شکاری
دانہ و دام بھی
سنگ الزام بھی
جاہ و انعام بھی
جال حاضر ہے ہر شکل کا
پر
مرے گرد ایسا الاؤ ہے روشن
کہ ہر حیلہ و مکر کے باوجود
یہ درندے
فاصلے کو نبھانے پہ مجبور ہیں!
بھیڑیے آگ میں پاؤں میں رکھتے نہیں۔

مقام حیرت تو یہ ہے کہ ہماری لغات میں بھی عورت کے اس مزاج اور کردار کے لئے کوئی موزوں لفظ ہی موجود نہیں مثلاً ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں عورت نے حالات کا عورت وار مقابلہ کیا اس کے لئے بھی ہم مردانہ وار استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ بہر کیف یہ اقداری نظام جس قدر بھی بوسیدہ اور ناقابل بیان حد تک مشکل تھا پروین نے استقامت اور راست گوئی سے ان حالات میں خود کو ایڈجسٹ کیا اور اپنے آپ کو علمی اعتبار سے خوب خوب سنوارا تو اس کی وجہ ان کی آنکھوں کا تارا مراد علی تھا جس کی خاطر دو برس تک انہوں نے پردیس کاٹا اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں بغرض تعلیم داخلہ لیا اور ایم پی اے کا امتحان پاس کیا جہاں وہ فاضل وقت میں ٹرینٹی اور ہارٹ فورڈ کالج میں جنوبی ایشیا کا ادب، فلم اور سماج پڑھاتی رہیں تاہم ان کی شاعری کی سب سے دلکش بات یہ ہے کہ محض مسائل کی تصویر کشی اور مصائب ہی ان کی شاعری کا موضوع نہیں ہوتے بلکہ سرشاری کے عالم میں وہ سارے دکھ بھول کر ، مسائل کی آزمائشوں کو فراموش کر کے بس انہی لمحات کی ہو رہتی ہیں۔

شرارت سے بھری آنکھیں۔
پروین شاکر
ستاروں کی طرح سے جگمگاتی ہیں
شرارت سے بھری آنکھیں!
مرے گھر میں اجالا بھر گیا
تیری ہنسی کا
یہ ننھے ہاتھ جو گھر کی کوئی شے
اب کسی ترتیب میں رہنے نہیں دیتے
کوئی سامان آرائش نہیں اپنی جگہ پر اب
کوئی کیاری سلامت ہے
نہ کوئی پھول باقی
یہ مٹی میں سنے پاؤں
جو میری خواب گہ کی دودھیا چادر کا ایسا حال کرتے ہیں
کہ کچھ لمحے گزرنے پر ہی پہچانی نہیں جاتی
مگر میری جبیں پر بل نہیں آتا
کبھی رنگوں کی پچکاری سے
سر تا پا بھگو دینا
کبھی چنری چھپا دینا
کبھی آنا عقب سے
اور میری آنکھوں پہ دونوں ہاتھ رکھ کر
پوچھنا تیرا
بھلا میں کون ہوں
بوجھیں تو جانوں!
میں تجھ سے کیا کہوں
تو کون ہے میرا
مرے نٹ کھٹ کنہیا!
مجھے تو علم ہے اتنا
کہ یہ بے نظم اور ناصاف گھر
میری توازن گر طبیعت پر
گراں بننے نہیں پاتا
اگر تو میرے آنگن میں نہ ہوتا
تو میرے خانۂ آئینہ ساماں میں
بہ ایں ترتیب و آرائش
اندھیرا ہی رہا کرتا۔

اس نظم کا حسن مراد پر لکھی گئی تمام نظموں سے سوا ہے یوں لگتا ہے جیسے پروین اور مراد کے سوا دنیا میں تیسرا کوئی وجود نہیں ان کی ننھی سی جنت ہی حاصل زیست ہے جہاں ماں اور بچے کی خوشیاں اور انہیں سو طرح نظم کا عنوان دینا ہی حاصل فن ہے۔ لیکن پروین شاکر بیسویں صدی کی انتہائی حساس، باشعور اور ذکی الحس ماں تھیں جو آنکھوں پر پھول باندھے اپنی مراد کی انگلی تھامے خوابوں کی سبز وادی میں جگنو تلاشتی تھیں مگر وہ جلد حقیقت کی دنیا میں لوٹ جاتیں اور ان کا فن انہیں رائیگانی اور ریزگی کا رزق بننے سے بچا لیتا یہ بھی ان کی نظموں کا ایک خاص مزاج ہے کہ وہ نہ تو خود کو دھوکا دیتی ہیں نہ ہی اپنے فن کو طفل تسلیوں سے بہلاتیں ہیں۔

سفر اب جتنا باقی ہے۔
بہت سردی ہے۔ مما
ابھی کچھ دیر
میرا ہاتھ مت چھوڑیں!
زمستاں کی ہوا سے کپکپاتا
میرے سینے سے لگا
تو کہہ رہا تھا!
زیادہ دن نہیں گزرے
کہ میری گود کی گرمی
تجھے آرام دیتی تھی
گلے میں میرے، بانہیں ڈال کر تو اس طرح سوتا
کہ اکثر ساری ساری رات میری
ایک کروٹ میں گزر جاتی!
مرے دامن کو پکڑے
گھر میں تتلی کی طرح سے گھومتا پھرتا
مگر پھر جلد ہی تجھ کو
پرندوں اور پھولوں
اور پھر ہمجولیوں کے پاس سے ایسا بلاوا آ گیا کہ
جس کو پا کر
مری انگلی چھڑا کر
تو ہجوم رنگ میں خوشبو کی صورت مل گیا تھا
پھر اس کے بعد
خوابوں سے بھرا بستہ لئے
اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تو
جہاں پر رنگ اور پھر حرف اور پھر ہندسے
اور سو طرح کے کھیل تیرے منتظر تھے
دل لبھاتے تھے
ترے استاد مجھ سے معتبر تھے
دوست مجھ سے خوب تر تھے
مجھے معلوم ہے
میں تجھ سے پیچھے رہ گئی ہوں
سفر اب جتنا باقی ہے
وہ بس پسپائی کا ہی رہ گیا ہے
تری دنیا میں اب ہر پل
نئے لوگوں کی آمد ہے
میں بے حد خامشی سے
ان کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
ترا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں!
زیادہ دن نہ گزریں گے
مرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
تجھے کافی نہیں ہو گی
کوئی خوش لمس دست یاسمیں آ کر
گلابی رنگ کی حدت
تیرے ہاتھوں میں سمو دے گا
مرا دل تجھ کو کھو دے گا
میں باقی عمر
تیرا راستہ تکتی رہوں گی
میں ماں ہوں
اور میری قسمت جدائی ہے!

اسی نظم میں ہم پروین کو اپنے بیٹے کے مستقبل میں غرق ایک ایسے مقام پر پاتے ہیں کہ جہاں انہوں نے کئی برس پہلے مراد کے لئے کسی خوش لمس دست یاسمیں کی پیشین گوئی کردی تھی اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ پروین کی رحلت کے پندرہ برس بعد مراد واقعی پروین کی ہم قافیہ عرشین کے ہم سفر بن گئے اور آج ماشاءاللہ دونوں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے آنگن میں دو بے حد خوبصورت پھول بھی کھل چکے ہیں جن کے نام شانزے اور آریہ ہیں۔

دونوں بچیوں میں اپنی قابل فخر دادی پروین شاکر کی خوب جھلک آتی ہے۔ یہی وہ نظم ہے کہ جس میں انہوں نے اپنے آپ کو تیاگ دینے اور عمر بھر اس کا انتظار کرتے رہنے کو اپنا مقدر گردانا۔ وہ کہتی تھیں۔ He ’s all I have۔ پروین کی شاعری مجھے ابتداء میں سرتا سر جمال محسوس ہوتی جو ان کے دیگر تین مجموعے پڑھ کر مسلسل تبدیل ہوتی رہی جس میں زندگی کے سارے رنگ موجود ہیں پروین ان گنے چنے تخلیق کاروں میں سے ہیں جو اپنے مثبت رویوں کے باعث زندگی کی ہر آزمائش میں سرخرو ہوتے ہیں یقیناً یہی وجہ ہے کہ ان کا بیٹا ان کی اسی تربیت کی وجہ سے مشکل حالات سے نبرد آزما ہوسکا۔

وہ اپنے اس جگر پارے سے ایسی محبت کرتیں کہ اس کی زندگی بنانے کی کوشش اور جدوجہد کرتے کرتے ایک دن اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری میں اس دنیا سے ہی رخصت ہو گئیں۔ وہ اپنے دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلیں اور کبھی واپس نہ آئیں۔ پروین کی گاڑی IDC 4362 کو 26، دسمبر 1994 کو ایک مسافر بس نے رو ند ڈالا۔ مراد کی عمر اس وقت پندرہ برس تھی یہ پروین کی تربیت ہی کا اثر ہے کہ اس نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالا اور ان کے خوابوں کی عملی تفسیر بن گیا۔ آج کل مراد علی اپنی اہلیہ اور دو بچیوں سمیت کینیڈا میں مقیم ہے اور برقی کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا میں فرائض انجام دے رہا ہے۔ دعا ہے پروردگار عالم اسے بہترین صحت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے۔

آمین۔
اپنے بیٹے کے لیے ایک نظم۔
مرے بچے نے پہلی بار اٹھایا ہے قلم
اور پوچھتا ہے
کیا لکھوں مما؟
میں تجھ سے کیا کہوں بیٹے
کہ اب سے برسوں پہلے
یہ لمحہ جب مری ہستی میں آیا تھا
تو میرے باپ نے مجھ کو سکھائے تھے
محبت اور نیکی اور سچائی کے کلمے
مرے تو شے میں ان لفظوں کی روٹی رکھ کے وہ سمجھا تھا
میرا رستہ کٹ جائے گا
آگے سفر آسان ہو جائے گا شاید!
محبت مجھ سے دنیا نے وصولی
قرض کی مانند
نیکی سود کی صورت میں
حاصل کی
مری سچائی کے سکے
ہوئے رد اس طرح سے
کہ میں فوراً سنبھلنے کی نہ گر تدبیر کرتی
تو سر پر چھت نہ رہتی
تن پر پیراہن نہیں بچتا
میں اپنے گھر میں رہ کر
عمر بھر جزیہ ادا کرتی رہی ہوں!
زمانہ
میرے خدشوں سے سوا عیار تھا
اور زندگی
میری توقع سے زیادہ بے مروت تھی
تعلق کے گھنے جنگل میں
بچھو سرسراتے تھے
مگر ہم اس کو سرشاری میں
فصل گل کی سرگوشی سمجھتے تھے
پتہ ہی کچھ نہ چلتا تھا
کہ خوابوں کی چھپر کھٹ پر
لباس ریشمیں
کس وقت بن کر کینچلی اترا
مخاطب کے روپہلے دانت
کب لمبے ہوئے
اور کان
کب پیچھے مڑے
اور پاؤں
کب غائب ہوئے یک دم
میں اس کذب دریا
اس بے لحاظی سے بھری دنیا میں رہ کر
محبت اور نیکی اور سچائی کا ورثہ
تجھ کو کیسے منتقل کر دوں
مجھے کیا دے دیا اس نے!
مگر میں ماں ہوں
اور اک ماں اگر مایوس ہو جائے
تو دنیا ختم ہو جائے
سو میرے خوش گماں بچے!
تو اپنی لوح آئندہ پہ
سارے خوبصورت لفظ لکھنا
سدا سچ بولنا
احسان کرنا
پیار بھی کرنا
مگر آنکھیں کھلی رکھنا!
۔ نصرت زہرا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments