جب روم جل رہا تھا


وزیر دفاع، خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا عمل شروع ہو گیا ہے، اور اسے اگلے بدھ تک مکمل ہو جانا چاہیے۔ لیکن ان کے ساتھی، وزیر داخلہ، رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ہے کہ عمل مکمل ہو چکا، فیصلہ کر لیا گیا، بس اعلان کرنا باقی ہے جو کسی بھی دن کیا جاسکتا ہے۔ اس دوران وزیرخزانہ، اسحاق ڈار، جنھیں عملی طور پر نائب وزیراعظم کا درجہ حاصل ہے، ایوان صدر میں گئے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جب موجودہ چیف کی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے کسی بھی افسر کی نامزدگی کی ایڈوائس صدر عارف علوی تک پہنچے تو ان کی طرف سے کوئی تاخیر نہ ہو۔ اس پر عمران خان کے بلند آہنگ ترجمان، فواد چوہدری نے برانگیختہ ہوتے ہوئے تحریک انصاف کے حامیوں کو تسلی دی ہے کہ صدر علوی وہی کچھ کریں گے جو عمران خان کی ہدایت ہوگی۔ وہ مسٹر ڈار کی درخواست کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اس دوران وزیر اعظم شہباز شریف کے کوویڈ 19 کی وجہ سے قرنطینہ میں چلے جانے کی رپورٹ ہے لیکن وہ اتحادیوں اور شراکت داروں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور مشاورت کا عمل جاری ہے۔ مولانا نے وزیر اعظم سے ملاقات بھی کی ہے۔ اگر یہ سب کچھ حیران کن ہے تو ذرا دھیان دیں کہ لکیر کے دوسری طرف کیا ہو رہا ہے؟

عمران خان نے اس مسلے پر اتنے موقف اختیار کیے ہیں کہ اب تو ان کے بیانات الجھی ہوئی ڈوری کی طرح ہیں جس کا کوئی سرا نہیں ملتا۔ انھوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقیدی حملے شروع کیے۔ الفاظ کا چناؤ ایسا تھا کہ انسان دہرا بھی نہیں سکتا۔ لیکن بالآخر انھیں چھے ماہ تک کی توسیع دینے کی وکالت کرنے لگے تاکہ اگلے انتخابات تک وہ عہدے برقرار رہیں۔ یہاں تک کہ نئی منتخب ہونے والی حکومت ان کا جانشین کا تقرر کردے۔ اس کے بعد عمران خان نے کہا کہ نئے آرمی چیف کا چناؤ پی ڈی ایم حکومت کر سکتی ہے لیکن ایسا میرٹ پر کیا جائے۔ پھر ساتھ ہی میرٹ کی جگہ سنیارٹی کی بات کرنے لگے۔ کہا کہ آرمی چیف کا چناؤ اس طرح سنیارٹی کی بنیاد پر ہو جیسے چیف جسٹس آف پاکستان کا ہوتا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ لانگ مارچ کا ہدف اور مقصد پی ڈی ایم حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ تاکہ وہ عام انتخابات کا انعقاد فوری طور پر کرے، اور اس میں کسی صورت تاخیر نہ کی جائے۔ لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ لانگ مارچ کی دانستہ منصوبہ بندی اس طرح کی گئی ہے کہ یہ ٹھیک اس تاریخ کو اسلام آباد میں داخل ہو جب نئے آرمی چیف کا اعلان کیا جائے۔ اس سے قوی تاثر ملتا ہے کہ ان کا ہدف الیکشن کے انعقاد کی بجائے آرمی چیف کی تعیناتی کے فیصلے پر اثر انداز ہونا ہے۔

جی ایچ کیو بھی گلے لگانے اور خنجر گھونپنے کی مہارت میں کسی سے کم نہیں۔ ایک گروپ ایک ”سینئر ترین“ جنرل کی حمایت کر رہا ہے، جب کہ دوسرا ایک اور ”سینئر ترین“ کے پیچھے کھڑا ہے۔ سینیارٹی کے ایشو پر چھڑ جانے والی بحث نے ابہام کی دھند مزید گہری کردی ہے اور یہ بھی کہ حکومت کے لیے اس معاملے کو نمٹانا کتنا آسان یا مشکل ہو گا۔ اس حوالے سے موجودہ چیف بھی اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے کسی ایک امیدوار کے پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اور وہ امیدوار وہ ہے جو عمران خان سے ان کا پیچھا چھڑائے، انھیں محفوظ راستہ، اور ضمانت دے کہ انھیں اس طرح تنگ نہیں کیا جائے گا کہ جس طرح وردی اتارنے کے بعد جنرل مشرف کو کیا گیا تھا۔ اگر ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو پھر وہ اگلے چھے ماہ کی توسیع لے کر اگلے انتخابات کرائیں اور نئے چیف کی تعیناتی کے عمل کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔

اس زور، زبردستی، دھونس، دھمکی سے جڑی ستم ظریفی کو زندگی اور تاریخ کی ایک حقیقت بے نقاب کر دیتی ہے : ہر آرمی چیف نے اپنے محسن کو نقصان پہنچایا۔ جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو برطرف کیا، جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان کو نکال باہر کیا، جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لٹکایا، جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق خان کو گھر بھیجا، جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو معزول کیا، جنرل اشفاق کیانی نے جنرل مشرف کی رخصتی کی راہ ہموار کی، جنرل راحیل شریف نے نواز شریف سے جان چھڑانے کے لیے دھرنے کی بساط سجائی، جنرل قمر جاوید باجوہ نے باری باری نواز شریف اور عمران خان کے اقتدار کے پتے کاٹنے والی قینچی کی دھار تیز کی (شہباز شریف کی قسمت کا ابھی کچھ پتہ نہیں)۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز سے منسوب ایک مشہور جملہ ہے : ”یارا، اس چیف کی ’چیچی‘ (چھوٹی انگلی) دیکھو! جب اس کا ایک اشارہ پانچ لاکھ مسلح افراد کو متحرک کر سکتا ہے تو چیف اس کے آدمی کے علاوہ کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے؟“

اگلے دس دنوں میں ہم حکمران اشرافیہ کے مختلف طبقوں میں اقتدار کے لیے دیوانہ وار کوشش دیکھیں گے۔ اس میں دھوکا دہی، چکما بازی، دغابازی، مکاری، منافقت اور ممکنہ طور پر خون ریزی کی بھی نوبت آ سکتی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت ”اپنا آدمی“ چاہتی ہے جو اگلے عام انتخابات تک اس کے اقتدار کی حمایت کرے اور عمران خان کو ان سے دور رکھے۔ دوسری طرف عمران خان اس کے برعکس چاہتے ہیں کہ ایسا ہو جو چیف کو پی ڈی ایم کو نکال باہر کرے اور 2018 ء کی طرح اسے ایک بار پر مسند اقتدار پر بٹھا دے۔ جنرل باجوہ کو عمران خان اور نواز شریف کی کوئی پروا نہیں، وہ بس ایسا جانشین چننا چاہتے ہیں جو انھیں شاہانہ انداز میں رخصت کرے تا کہ وہ بہت محنت سے حاصل کی گئی مراعات سے بھرپور لطف اٹھا سکیں۔ انتقام سے بوجھل فضا میں یہ ایک مشکل امر ہے۔ یا اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر انھیں ایک اور مدت کے لیے توسیع مل جائے۔

تو اگلا چیف کیا کرے گا؟ کیا وہ جنرل وحید کاکڑ کی طرح پس منظر میں رہے گا یہاں تک کہ وزیر اعظم ہاؤس میں چلے جائے؟ یا پھر وہ شہباز شریف کو اسی طرح سہارا دے گا جس طرح جنرل باجوہ نے عمران کو دیا تھا یہاں تک کہ گرانے کا وقت آ جائے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ خوف ناک حد تک غیر معمولی واقعات کا تسلسل ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ جب ہندوستان نوآبادیاتی تسلط کا شکار ہو رہا تھا تو بہادر شاہ ظفر شعر و سخن کی محفلیں آباد کیے بیٹھا تھا۔ اس وقت جب کہ ملک منہدم ہو رہا ہے، پاکستانی حکمران اشرافیہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہے۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments