رات، بخار، خیالات


جمشید جب سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو اس کا جسم دکھ رہا تھا۔ آج سارا دن اس نے سفر کیا تھا اور اپنے دفتر کی طرف سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر اس نے کھانا کھا کر بتیاں بند کرا دی تھیں اور وقت سے پہلے ہی سونے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ اس کے بیٹے نے کہا بھی تھا ابھی تو صرف آٹھ بجے ہیں لیکن جمشید نے جھاڑ کر سونے پر مجبور کیا اور خود بھی کمبل کھینچ کر سر سے اوپر لے گیا تاکہ نیند آ جائے لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اس وجہ سے ایک کے بعد ایک خیال ذہن میں کوند آتا تھا۔

پہلے اس نے سوچا کہ آج کا سفر مفت میں اس کو کرنا پڑا حالانکہ یہ کام اس کے متعلقہ نہ تھا لیکن باس کی گڈ بکس میں آنے کے لیے اس کو یہ پھٹیک پڑی تھی۔ پھر اس کا ذہن ایک کہانی سنانے لگا۔ اس نے سوچا کہ اس کو ایک کہانی لکھنی چاہیے جس کا نام ”محنت کا پھل“ ہو۔ پھر اس نے سوچا کہ ایک شہر میں پنساری یار محمد کی ایک بڑی دکان تھی کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کی دکان پر کوئی لڑکا نہیں رکتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی دکان پر دو نئے لڑکے رکھے سعادت اور جاوید۔

سعادت سارا دن مکھیاں مارتا اور جاوید بھاگ بھاگ کر کام کرتا اس طرح دکان کا ستر اسی فیصد کام جاوید کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ جاوید سمجھتا تھا کہ اس کو اس کی محنت کا پھل ضرور ملے گا۔ اس لیے وہ آئے دن خوب محنت کرتا۔ ایک دن یار محمد نے سوچا کہ سعادت کوئی کام نہیں کرتا اور مفت کی تنخواہ لے جاتا ہے کیوں نہ اس کو کام سے ہٹا دیا جائے اور پھر یار محمد نے سعادت کی چھٹی کر دی۔ اب سارا کام جاوید کرتا ہے اور وہ بھی پرانی تنخواہ پر۔

اس کو ”محنت کا پھل“ مل گیا۔ اس کے بعد جمشید کو ایک خیال آیا کہ آج ہی اس کے باس نے کہا تھا کہ آپ ٹھنڈے میٹھے آدمی ہیں لیکن جب اس نے غور کیا کہ وہ جو گھسیٹا کاری (حسن کی صورت حال خالی جگہ پر کریں ) سے لفظ مستعار لیا گیا ہے، کرتا ہے وہ اپنے لفظوں میں طنز اعتراض سے ہوتا ہے کہ کیا جس منافقت کو اپنی تحریروں میں نشانہ بناتا ہے اس کے اندر بھی موجود ہے۔ جمشید نے پھر سوچا وہ ایسا نہیں ہے پھر ایک اور خیال اس کے ذہن میں کوند آیا کہ اگر کبھی اس کی کوئی تحریریں کتابی حالت میں آئیں تو وہ اس کا نام گھسیٹا کاری رکھے گا پھر اس نے سوچا وہ کیوں کتاب لکھنا چاہتا ہے۔ حالانکہ کچھ دن پہلے اس نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے لکھنے کی وجوہات بیان کی تھیں۔ پھر اس نے اس مضمون کو یاد کرتے ہوئے اس سوال کو اپنے اندر دبایا۔ اس کی دل کی دھڑکن تیز تھی اور اس کو گردن تک محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا تھا جیسے کسی نے اس کو ڈنڈے سے خوب پیٹا ہو۔

اس وقت تک اس کے دونوں بچے سو چکے ہیں۔ اور اس کی بیوی کے خراٹے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے وہ بستر سے اٹھا اور ساتھ پڑے ہوئے دوائیوں کے ڈبے میں سے دو پیناڈول نکال کر پانی سے نگل گیا۔ اس نے سوچا شاید یہ گولیاں اس کو راحت دیں اور جسم کے درد کو رفع کریں۔ وہ پھر آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا اس کی بیوی کی آنکھ کھلی اور اس نے پوچھا کیا ہوا جمشید نیند نہیں آ رہی اور اس کے بعد کروٹ بدل کر سو گئی اور تھوڑی دیر میں اس کے خراٹے پھر کمرے میں گونجنے لگے۔

جمشید نے دوبارہ آنکھیں موند لیں پھر اس کا ذہن چلنے لگا۔ اس کے ذہن میں یہ الفاظ گونجے اودھے اودھے نیلے نیلے پیرہن اس نے سوچا یہ مصرعہ کہاں سے اس کے ذہن میں آ گیا پھر گلزار کی ایک نظم کہیں سے آ گئی پھر ایک مصرعہ ذہن میں آیا وہ اس کی تقطیع کر کے وزن معلوم کرنے لگا اس نے سوچا کہ شاعری بھی عجیب فن ہے۔ پھر کہیں سے اس کے ذہن میں جبار کا عکس آیا۔ اس نے سوچا کہ جبا ر صاحب سے اس نے IELTS کی تیاری کی تھی۔ جب وہ بیرون ملک جانے کا خواہاں تھا لیکن بیرون ملک جانے کا خواب ابھی تک خواب ہی ہے۔

پھر اس نے سوچا کہ جبار صاحب بھی مختلف انسان تھے کبھی وکیل بن جاتے کبھی استاد، کبھی صحافی اور کبھی سیاستدان کے سیکریٹری لیکن ہر کردار میں شاید جبار صاحب ناکام رہے تھے کیونکہ پچھلے دنوں اس کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ اب وہ ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور چلا رہے ہیں اب نجانے وہ کب تک اس کام کو چلائیں گے۔ پھر اس نے سوچا ہر انسان ہی ایک وقت میں کئی کردار ادا کر رہا ہوتا ہے شاید جمشید کے ساتھ یہی تھا کہ وہ سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب اور استاد بھی تھا۔

اب نجانے وہ کس کردار میں کامیاب ہوا تھا یا پھر سب میں ہی ناکام۔ پھر اس نے غور کیا کہ اب اس کی بیوی خراٹے نہیں لے رہی بلکہ اس کے بیٹے کے خراٹے کمرے میں گونج رہے ہیں اس نے غور کرنے کی کوشش کی کیا اس کی بیٹی خراٹے لے رہی ہے یا نہیں؟ وہ سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے عجیب خیال اس کے ذہن میں آ رہے ہیں پھر وہ سوچنے لگا کہ سب کے ذہن میں ایسے خیالات آتے رہتے ہیں۔ اب اس کا ذہن خالی ہو چکا تھا شاید پیناڈول اثر کر گئی تھی وہ نیند کی وادی میں جانے ہی والا تھا

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments