منگو کوچوان اور نئی تعیناتی


سعادت حسن منٹو کے دو افسانوں، نیا قانون اور ٹوبہ ٹیک سنگھ، کو میں ان کے شہکار اور اوریجنل افسانے سمجھتا ہوں۔ شہکار اس لیے کہ وہ تیکنیکی اعتبار سے اردو افسانے کی نئی جہت کی بنیاد بن سکتے تھے اگر ان افسانوں کے تکنیکی پہلوؤں پہ توجہ دی جاتی شاید کچھ تنقید نگاروں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہو لیکن میں لا علم ہوں۔ اوریجنل اس لیے کہ یہ دو افسانے سعادت حسن منٹو کی رپوتاژ صنف میں اور مشہور فرانسیسی افسانہ نگار موپاساں کے اثر میں نہیں لکھے گئے تھے۔

ان دو افسانوں میں مکمل ڈرامائی تاثرات ہیں۔ نیا قانون میں توقعات اور حقیقت میں واضح کشمکش ہے۔ طاقت کے جدلیاتی کھیل کے پس منظر مین ان دو کہانیوں کی بساط بچھی ہے۔ طاقت کے کھیل کو رچانے والے بہت سے گر آزماتے ہیں کہ ان کا کھیل جما رہے۔ اس گر میں ایک مستند نسخہ عام آدمی میں اس کے با اختیار ہونے کا احساس دلایا جانا بھی شامل ہے۔ نفسیات کی زبان میں اسے فریب (ڈیلوژن) کہا جاتا ہے۔ فریب کا شکار فرد کسی ذہنی بیماری سے ہوتا ہے جو موضوعی مسئلہ ٔ ہو گا مگر جب معاشرہ فریب کا شکار ہو تو پھر وہ مرض معروضی ہو گا۔

طاقت کا کھیل رچانے والے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے معاشرے میں ڈھیر سارے فریبوں کا جال بچھاتے ہیں کہ جس میں الجھے ایک بچارے فرد کے لئے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنا کسی بھی ریاست کی بنیادی ساخت کو بدلے بغیر عام آدمی کو اس کے بنیادی حقوق کا جھانسا دینا۔ جب تک ایک ریاست اپنے آمرانہ ہتھکنڈوں سے دستبردار نہیں ہوگی تو اس کے ادارے طاقت کے دائرے سے باہر بسنے والے یعنی مارجنلائزڈ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیسے کرے گی؟

منگو کوچوان بھی اسی فریب میں مبتلا ہے کہ نئے قانون کے آ جانے سے ایسی ریاست جس کی ساخت نو آبادیاتی اصولوں پہ قائم ہے اسے اس کی شناخت اور بنیادی حقوق دے گی۔ رومن ایمپائر کے گلیڈی ایٹرز کی کہانیوں کو پڑھ لیجیے کہ کس طرح طاقت کے رکھوالوں نے گلیڈی ایٹرز کی خوبیوں کو اجاگر کر کے آمریت کی آئیڈیالوجی کی بنیاد قائم رکھی۔ ایرک گنڈرسن نے اپنی تحقیقاتی مقالہ ”ایرینا کی آئیڈیالوجی“ میں ایرینا یا میدان کو ( جہاں گلیڈی ایٹرز اپنی بہادری کے جوہر دیکھاتے ) ایک پیداواری ادارے کے طور پر پرکھا ہے جو حکمران اور رعایا کے درمیان رومن سماجی تعلقات کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا تھا۔

اگر اسے نظریاتی ریاست کے ہتھکنڈوں کے بارے میں لوئس التھوسر کے خیال کی روشنی میں دیکھا جائے تو، میدان کو سیاسی اور نفسیاتی ہتھکنڈوں کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایرینا رومی دنیا کے ایک مخصوص قسم کے وژن کی افزائش کرتا نظر آتا ہے۔ اس وژن میں عام طور پر رومن رئیسوں اور بعد میں، خاص طور پر شہنشاہ کے ہر حکم کے جائز حکم کے طور پر تصدیق ہوتی تھی۔ حکمرانوں کو ایرینا یا میدان کی شاید ہجوم سے زیادہ ضرورت تھی۔

قصہ مختصر ریاست بہت سے فریبوں کو فروغ دے کر اپنی آمرانہ قوت کو تقویت دیتی ہے۔ اور ان فریب کی چالوں کو آئیڈیالوجی کا گورکھ دھندا بھی کہا جاسکتا ہے۔ منگو کوچوان کی طرح عام پاکستانی بھی اب یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ دھرنوں کی سیاست، امریکہ مخالف نعرے اور کسی ایک خاص فرد کے ایک خاص ادارے کی مسند سنبھالنے کے بعد اسے حقیقی آزادی میسر ہوگی۔ عام آدمی ٹویٹر پہ یا سوشل میڈیا کے کسی دیگر پلیٹ فارم پہ کسی کو نشانہ بنا کر اس زعم کا شکار ہے کہ اس طرح وہ معاشرے میں تبدیلی کا پیامبر بن رہا ہے۔

مگر بچارے کو ملک میں موجود حکمران اشرافیہ کے ایک ٹولے کو برا بھلا کہہ کر دوسرے ٹولے کی بھرپور حمایت کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ ہمارے اخبارات اور ٹیلی ویژن پہ جاری آئندہ بننے والے خاص عہدے دار کی بحث ریاست میں جاری فریب کی چالوں کو مزید ہوا دی رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ اور طاقت کے کھیل کے تجزیے کی بجائے عام آدمی ایک فریب کے جال میں پھنسا ہے۔

ملک کی معیشت دن بدن ڈوبتی جا رہی ہے۔ غربت کا تناسب معاشرے میں بڑھنے لگا ہے۔ اور دور افق پر بھی کوئی ایسی حکومتی پائیدار پالیسی نظر نہیں آ رہی کہ اس ملک میں معاشی استحکام کیسے لایا جائے۔ پورا معاشرہ سعادت حسن منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک ہیجان ہے کہ جس کا کوئی سرا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments