آرمی چیف کی تقرریر اور پس پردہ حرکات


پاکستان میں آج کل ایک مسئلہ زبان زد عام ہے اور وہ آرمی چیف کی تعیناتی کا ہے جس پر حکومتی حلقوں میں بھی تناؤ کی کیفیت دیکھنے کو ملی ہے۔ خاص طور پر سابق وزیراعظم اور رہنما مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی کے انٹرویو نے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک چینل پر گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو کی طرف سے سمری کا ارسال نہ کرنا یا پھر سینئر ترین جنرلز کا نام نہ بھیجنا کسی طور پر خوش گوار بات نہ ہوگی، اور اگر حکومت کے تجویز کردہ نام کو آرمی چیف تعینات نہ کیا گیا تو ہمارے پاس عدالت میں جانے کا اختیار موجود ہے۔

شاہد خاقان عباسی کی ان باتوں سے یہ تاثر ملا کہ جیسے حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان اس معاملے پر اتفاق نہیں ہو رہا اور کسی بحران کا خدشہ موجود ہے جس کی طرف پہلے سے اشارہ دیا جا رہا ہے۔ خوشگوار بات یہ ہے کہ ان سب خطرات کے ہوتے ہوئے رات وزارت دفاع کو سمری موصول ہو چکی ہے جو کہ وزیراعظم صاحب کو بھیجی جا چکی ہے جن میں چھ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کے نام شامل ہیں جو بالترتیب اس طرح سے ہیں

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، لیفٹیننٹ جنرل اظہر، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اور لیفٹیننٹ جنرل عامر۔

وزارت دفاع جی ایچ کیو کی جانب سے بھیجے جانے والے اس ڈوزیئر کو وزیراعظم ہاؤس کو ارسال کرے گا، جس کے بعد حکومت اتحادیوں کی مشاورت سے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا انتخاب کرے گی اور پھر اسے منظوری کے لیے صدر مملکت عارف علوی کے پاس بھیجا جائے گا۔

اتحادی جماعتوں نے ظاہری طور پر تو وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں لیکن رات آصف علی زرداری کی شہباز شریف سے ہنگامی ملاقات کے بعد یہ قیاس آرائیاں سامنے آ رہی ہیں کہ آصف علی زرداری دراصل آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے لیے اپنا پسندیدہ نام بتانے آئے تھے۔ آصف علی زرداری کی مفاہمت سے کون واقف نہیں، ان کی یہ اچانک ملاقات اپنے اندر کئی خدشات پنہاں کیے ہوئے ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کا اپنے اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیے سے ہٹ جانا بھی کسی طوفان کی پیشین گوئی کر رہا ہے، سمندر یونہی خاموش نہیں بلکہ کسی خطرناک لہر کی آمد کا عکاس ہے۔ عمران خان نے جس طرح فوراً اپنے ان دونوں مشہور نعروں سے جان چھڑوائی ہے وہ ہمارے سامنے دو قسم کے حالات کی پیشین گوئی ہو سکتی ہے، اول تو یہ کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ٹھان لی ہو اور وہ نئی عسکری قیادت سے کسی قسم کا ٹکراؤ نہ چاہتے ہوں، اگر ایسا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے جس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور ہماری سیاسی بے چینی میں کمی واقع ہو تاکہ اقتصادی شعبے میں کچھ بہتری لائی جا سکے۔

دوئم یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو کسی طاقتور حلقے کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہو کہ ان کی پسند ناپسند کا خاص خیال رکھا جائے گا اور اس وجہ سے انہوں نے اپنے بیانیے کو بدلنے کی کوشش کی ہو۔ پاکستان تحریک انصاف بڑے منظم طریقے سے اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹی اور اس تبدیلی کی مکمل تشہیر کرانے کی کوشش کی ہے اور طاقتور حلقوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ اے آر وائی نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں (شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، اسد عمر ) کی پریس کانفرنس کے دوران اسد عمر کے منہ سے نکلنے والے ایک عسکری افسر کے خلاف تحقیقات کی بات کو حذف کر دیا، اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی اور فواد چوہدری نے باقاعدہ کانفرنس کر کے پی ٹی آئی کے نئے بیانیے کی نمائندگی کرنے کی کوشش ہے۔

اس کے علاوہ عمران خان صاحب سے برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر کی ملاقات اور چوہدری پرویز الہی سے امریکی عہدے داروں کی ملاقات کسی نئے سیاسی طوفان کی غماز ہو سکتی ہے۔ اگر سمری کی مزید تاخیر ہوتی تو شاید ہم ایک بار پھر ”میرے عزیز ہم وطنو!“ سننے کا انتظار کرتے لیکن اب امید کی جا سکتی ہے کہ یہ سارا عمل احسن اور آئینی طریقے سے سر انجام دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments