گھڑی اور میں


زندگی میں پہلی گھڑی والد صاحب کی دیکھی جو تایا جی انور سعودی عرب سے لائے تھے سیکو کوارٹز کی گھڑی تھی ایک دن وہ بس میں کسی نے اتار لی پھر ابا جی نے دوسری گھڑی بھائی منظور سے سعودی عرب سے منگوائی۔ ابا جی کے خالہ زاد بھائی ظفر صاحب سعودیہ میں گھڑیوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ پر پہلی مرتبہ ماربل کی بنی گھڑی دیکھی بڑی حیرانی ہوتی تھی۔ پھر ہم گاؤں سے شہر راولپنڈی آ گئے اور ابا جی بڑے بھائی کے لئے سٹیزن واچ لائے جو غالباً 800 روپے کی آئی تھی اور پشاور باڑے سے لائی گئی۔

میرا بھی دل کرتا کہ میرے پاس بھی گھڑی ہو ایک دن ابا جی سے کہہ دیا وہ میرے لیے گھڑی لے آئے اس کا شیشہ ابھرا ہوا تھا۔ بھائی ابا جی اس نے شیشہ توڑ لینا ہے اور وہ گھڑی خود لے لی اور مجھے پہلے والی دے دی، زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ جب بھی لائلپور جاتے چچا نواز کے بیٹوں نے ہر دفعہ نئی گھڑی باندھی ہوتی کیونکہ پرانی کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہوتا تھا۔ ان تینوں بھائی نے گھڑیوں کو بہت سبق سکھائے۔

ساتویں جماعت میں تھے تو جامعہ محمدیہ نیو کٹاریاں مارکیٹ راولپنڈی میں نماز جمعہ پڑھ رہے تھے کہ میرے سکول فیلو محمد علی سنتوں کی ادائیگی کے دوران نماز بار بار وقت دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو عرض کی محمد علی یہ نامناسب بات ہے نماز میں گھڑی دیکھنا۔ اس پر محمد علی نے کہا یار ایک بات یاد رکھنا بندے کی گھڑی اگر اپنی ہو تو وقت دیکھنے کی اجازت ہے، یوں ایک نیا دینی مسئلہ وجود میں آیا۔

پھر بہت سی گھڑیاں خریدیں کیسیو کی سینسر والی گھڑیوں کا شوق ابا جی کی زندگی کے ساتھ ساتھ رہا اب بہت مہنگی لگتی ہیں۔

سنہ 1995 میں سردار کیمیکلز کا کیلنڈر بنانا تھا میرے بڑے بھائیوں جیسے بھائی سردار محمود صاحب کہنے لگے بیٹے جناح سپر جاؤ بی ایچ ایس سٹور والوں کو کہہ دیا ہے میری چھ گھڑیاں ان سے لے لو اور چھ صفحے کا دیوار والا کیلنڈر بنا دو۔ میں گیا انھوں نے رولیکس کی چھ گھڑیاں نکال کر میرے حوالے کیں اور رسید پر دستخط کرنے کے لئے میری طرف بڑھائی تو قیمتیں پندرہ لاکھ سے پینتیس لاکھ تک فی گھڑی کی قیمت تھی۔ ایک دفعہ ٹانگیں ہی کانپ گئیں۔ عرض کی جناب گھڑیاں ادھر ہی رکھیں میں سٹوڈیو یہیں لے کر آتا ہوں۔ اور پھر ان کی دکان کے اندر ہی شوٹ کیا۔ سوچا اگر کسی نے چھین لیں تو تاحیات کیلنڈر بنا کر بھی پیسے پورے نہیں کر سکوں گا۔

اب ہم خود چاچا اور بابا بن چکے ہیں ہر مہینے چھ بچوں کے لئے گھڑیاں لانا ایک معمولی بات ہے 2002 میں بارانی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ صبح نو بجے سے بارہ بجے تک کلاس ہوتی تھی۔ میں وقت پر کلاس لینے پہنچا تو یونیورسٹی بند تھی یہاں تک کہ گارڈز بھی نہیں تھے۔ میں سمجھا چھٹی ہے اور دفتر چلا گیا۔ جب یونیورسٹی کھلی تو انھوں نے گھر فون کیا سر نہیں آئے، گھر والوں کی دوڑیں لگ گئیں ہسپتال، تھانے سب چیک کر لیے پر میں کہیں نہیں تھا، دفتر فون کیا تو انھوں نے بھی کہا ابھی نہیں آئے کیونکہ میں یونین کی ایک تقریب میں بیٹھ گیا تھا۔

وہاں ایک لڑکا بھاگا بھاگا آیا سر گھر رابطہ کریں کوئی ایمرجنسی ہو گئی ہے کئی بار فون آ چکا ہے، گھر فون کیا بھائی نے خوب عزت کی یار یونیورسٹی کیوں نہیں گئے۔ بھائی گیا تھا یونیورسٹی بند تھی۔ اچھا پھر ان کا فون کیسے آیا، جب گھڑی پر نگاہ پڑی تو اندازہ ہوا دو سالہ بیٹی نے اپنے بابا کو وقت سے آگے کرنے کے چکر میں گھڑی آدھا گھنٹہ آگے کردی تھی۔ بس یہی فرق تھا جس نے سب کی دوڑیں لگوائی ہوئی تھیں۔

میرے چچا زاد بھائی ارسلان محمود بڑی گھڑیوں کا کام کرتے ہیں، دامن کوہ کے راستے پر کلاک بھی انھی کا کام ہے اور علامہ اقبال یونیورسٹی مورو کے کیمپس پر بھی انھی کی بنائی ہوئی گھڑی نصب ہے۔

دو دن سے ڈائریا کا شکار ہوں الٹے اور سیدھے دونوں کاموں کا حساب بھی گھڑی دیکھ کر رکھ رہا ہوں پہلے یہ ہر دس منٹ پر آمد تھی پر شفاء ایمرجنسی میں تین گھنٹے رہنے کے بعد اب اس کا دورانیہ تقریباً ہر گھنٹے تک بڑھ گیا ہے، ایمرجنسی بھی کم ہو گئی ہے۔

اب سنا ہے گھڑیاں اور مہنگی ہو گئی ہیں۔ میں نے بھی آرمانی کی مہنگی گھڑی خریدی ہے، جو کہ منظور بھائی سعودی عرب والوں کے بیٹے عبید منظور سے خریدی ہے جو لائلپور میں ایمازون کے ساتھ کاروبار کرتا ہے۔ جس سے پتہ چلا اب اچھی گھڑیاں یہاں مقامی طور پر بھی دستیاب ہیں۔ سعودی عرب سے منگوانے کی دقت بھی ختم ہو گئی ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور گھڑی آپ کے پاس گھڑی دو گھڑی میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments