فیفا ورلڈ کپ کے دوران ذاکر نائیک کی قطر میں موجودگی پر انڈیا کو اعتراض کیوں؟


قطر میں فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں انڈین قیادت کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مگر اس دوران دوحہ میں اسلامی سکالر ذاکر نائیک کی موجودگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

اگرچہ قطر نے اس بارے میں وضاحت نہیں کی کہ آیا ذاکر نائیک کو ورلڈ کپ کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا تاہم ان کے قطر پہنچنے پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔

قطر کے سرکاری سپورٹس چینل الکاس کے پریزنٹر الہاجری نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’شیخ ذاکر نائیک قطر میں ہیں اور وہاں وہ ورلڈ کپ کے دوران کئی مذہبی لیکچر دیں گے۔‘

ادھر سوشل میڈیا پر ذاکر نائیک نے بھی قطر میں لیکچر دینے کی تصدیق کی ہے۔

انڈیا میں ذاکر نائیک پر منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقاریر جیسے سنگین الزامات ہیں۔ اس لیے ان کی قطر آمد پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس پیشرفت کا انڈیا اور قطر کے درمیان تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم انڈین وزارت خارجہ نے اس معاملے پر باقاعدہ کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

منگل کو انڈیا میں پیٹرولیم کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے چندی گڑھ میں محتاط لہجے میں کہا کہ ’مجھے یقین ہے انڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا ہوگا۔ ذاکر نائیک ملائیشیا کے شہری ہیں۔‘

ایک بی جے پی ترجمان نے یہاں تک کہا کہ انڈین حکومت کو فیفا ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

https://twitter.com/Faisal_Alhajri0/status/1593964062408572928

انڈیا ذاکر نائیک کی قطر آمد پر اتنا مایوس کیوں؟

انڈیا کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں بھی ذاکر نائیک کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندی کے فروغ دینے کے الزامات میں مقدمات درج ہیں۔

ذاکر نائیک نے ملائیشیا میں پناہ لے لی تھی اور وہ اب وہاں کے رہائشی بھی ہیں۔

انڈیا، بنگلہ دیش، کینیڈا، سری لنکا اور برطانیہ میں پیس ٹی وی نیٹ ورک پر پابندی ہے، جہاں ذاکر نائیک کی تقاریر نشر ہوتی ہیں۔

انڈین شہریوں کو یہ بات بخوبی یاد ہے کہ نوپور شرما کے پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیان کے بعد دوحہ میں انڈین سفیر کو احتجاجاً طلب کیا گیا تھا۔

قطر کی وزارت خارجہ نے نوپور شرما کے بیان کی مذمت کی تھی اور انھیں انڈین حکمراں جماعت سے نکالنے کے قدم کو سراہا بھی تھا۔ دیگر عرب ملکوں نے بھی انڈیا سے اس معاملے پر کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ذاکر نائیک: متنازع مبلغ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟

نوپور شرما کا متنازع بیان اور خلیجی ممالک میں ملازم انڈینز کی پریشانیاں

https://twitter.com/Abdulla_Alamadi/status/1593986277715476480?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1593986277715476480%7Ctwgr%5Eefc96d82e83cc1861148b86df08894dd5f882b13%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Finternational-63721294

انڈیا میں ذاکر نائیک پر الزامات اور ان کے متنازع بیان

ذاکر نائیک نے پیس ٹی وی کی بنیاد رکھی جو دبئی سے نشر ہوتا تھا۔ وہ اس پر اسلام کی تشہیر اور مذہبی بیان دیتے تھے۔ انھوں نے اردو اور بنگلہ زبانوں میں بھی چینل کی نشریات شروع کر دی تھی۔

گذشتہ سال انڈین وزارت داخلہ نے ذاکر نائیک کی تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آر ایف) پر 2016 میں عائد کردہ پابندی میں پانچ سال کی توسیع کر دی تھی۔

وفاقی حکومت نے اس پابندی کے حوالے سے کہا تھا کہ ذاکر نائیک کی تنظیم ان سرگرمیوں میں ملوث ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اس سے ملکی اتحاد اور امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ذاکر نائیک کی جانب سے ملک کے نوجوانوں کو انتہا پسند سرگرمیوں پر اُکسایا جاتا ہے۔

انسداد دہشتگردی ٹریبیول میں انڈیا کے سولیسیٹر جنرل نے کہا تھا کہ ذاکر نائیک اپنی مذہبی تقاریر اور تشدد پر اکسانے والے بیانات سے انڈیا بھر میں اپنے فالوورز تک بات پہنچاتے ہیں۔

نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ ذاکر نائیک اور ان کی تنظیم آئی آر ایف نے ٹرسٹ، این جی او اور جعلی کمپنیاں بنا رکھی ہیں جو خلیجی ممالک سے پیسے اکٹھے کرتی ہیں۔ اس میں الزام لگایا گیا کہ اس کی مدد سے مسلم نوجوانوں کو شدت پسند بنایا جاتا ہے۔

ذاکر نائیک نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان کی تقاریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔

ذاکر نائیک کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ شیعہ اور احمدی برادریوں پر سخت تنقید کرتے ہیں۔

سال 2015 میں ذاکر نائیک کو ’اسلام کی خدمت‘ پر سعودی عرب کی جانب سے کنگ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ذاکر نائیک نے کئی متنازع بیان دیے جیسے انھوں نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو ’وائٹ کالر دہشتگرد‘ کہا۔

https://twitter.com/Hardism/status/1594201873401380864

https://twitter.com/beingarun28/status/1594302207402586112

ایک انٹرویو کے دوران دی ویک نے ان سے پوچھا تھا کہ 1998 کی ایک تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اسامہ بن لادن اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں تو ’میں ان کے ساتھ ہوں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر وہ سب سے بڑے دہشتگرد امریکہ کو ڈرا رہے ہیں تو میں ان کے ساتھ ہوں۔‘

اس سوال کے جواب میں ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن دہشتگرد تھا نہ کوئی پاک شخصیت۔

دریں اثنا ذاکر نائیک خود کو امن کا سفیر کہتے ہیں۔ انھوں نے دی ویک کو بتایا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کے سلامی سکالر شیخ احمد دیدات سے متاثر ہوئے تھے۔ ان کے والد ماہر نفسیات جبکہ ان کے بھائی ڈاکٹر ہیں۔ ذاکر نائیک کی والدہ انھیں دل کے امراض کی ماہر بنانا چاہتی تھیں۔

انھوں نے بتایا تھا کہ دیدات سے ملاقات کے بعد جب انھوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ انھیں کیا بننا چاہیے، تو ان کا جواب تھا کہ وہ مذہبی سکالر اور ڈاکٹر دونوں کے طور پر انھیں دیکھنا چاہتی ہیں۔

طب میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ذاکر نائیک نے 1990 میں آئی آر ایف کے ذریعے اسلام کی دعوت شروع کی۔

وہ ممبئی میں پیدا ہوئے اور بچپن میں ہکلاتے تھے۔ مگر اب وہ بڑی آسانی سے لمبی سے لمبی تقریر کر لیتے ہیں۔ اپنی لیکچرز کی وجہ سے ذاکر نائیک نوے کی دہائی میں ہی مشہور ہونے لگے تھے۔ سال 2000 کے دوران ان کی وہ تقاریر لوگوں کی نظروں میں آنے لگیں جن میں وہ اسلام اور دوسرے مذاہب کا موازنہ کرتے تھے اور اسلام کے بہتر مذہب ہونے کے دلائل دیتے تھے۔

سال 2016 میں بنگلہ دیش میں شدت پسندوں کے حملے میں 29 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تفتیش کاروں کے مطابق مبینہ حملہ آور نے گرفتاری کے بعد بتایا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقاریر سے متاثر ہوا ہے۔

ممبئی پولیس کی سپیشل برانچ کی ابتدائی تحقیقات کے بعد ذاکر نائیک کی تنظیم آئی آر ایف پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

ذاکر نائیک انڈیا چھوڑ کر ملائیشیا چلے گئے تھے اور انڈین حکومت نے انھیں مفرور قرار دیا تھا۔

سال 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر دھماکے میں 250 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس بار پر ذاکر نائیک پر اسی طرح کے الزامات سامنے آئے تھے۔ سری لنکا میں بھی ان کا چینل بند کر دیا گیا تھا۔

ذاکر نائیک اب ملائیشیا کے مستقل رہائشی ہیں مگر وہاں انھیں خطبہ دینے کی اجازت نہیں۔

https://twitter.com/DivyaSoti/status/1594723576384479239

https://twitter.com/greatbong/status/1594875165732544512

کیا انڈیا ذاکر نائیک کے قطر دورے کے حوالے سے کچھ کر سکتا ہے؟

قطر میں انڈیا کے سابق سفیر کے پی فبیئن نے کہا ہے کہ یہ ایک نازک معاملہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے پیش نظر انڈیا کے لیے قطر کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا اتنا آسان نہیں۔

انھوں نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’انڈیا اور قطر کے درمیان تعلقات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ وہاں آٹھ لاکھ انڈین شہری رہتے ہیں۔ ہم وہاں سے ایل این جی بھی حاصل کرتے ہیں۔

’وہاں ہماری کئی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments