تیسری دنیا اور انقلاب


تیسری دنیا ایسے ممالک کا گروہ ہے جس پر نہ تو مذاہب کے صحیفے کارگر ثابت ہوئے ہیں اور نہ ہی فلسفہ ہائے سیاست و سماج نے ان پر معاشرت کے اثرات و رموز منکشف کیے ہیں۔ چنانچہ خانقاہی اور شہنشاہی نظام کے تحت یہاں ہمیشہ سماجی تفرقہ بازی غالب ہے اور معاشرہ دو طبقات میں ازل سے تقسیم شدہ ہے۔ ایک طبقہ صاحبان ثروت و اقتدار ہے اور دوسرا ان کی خدمت و اطاعت پر مامور ہے جو نہ صرف ان کے بچے کچے نوالے کھاتا ہے بلکہ فکری خیرات کا کاسہ بھی انہیں آقاؤں کی درگاہوں سے بھرتا ہے۔

یہ طبقہ امراء اور شرفاء کا نمائندہ ہے جن کی آسودگی کا معیار فقط اقتدار اور اقتدار کی راہداریوں سے آتے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے ہیں اور ان کی رسوائی اقتدار کا چھن جانا ہے۔ یعنی ان کی منزل ہمیشہ اقتدار ہی ہے پھر مذہب کا نام لے کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا ہو یا انقلاب کا نعرہ لگا کر اقتدار کا حصول دونوں ہی جائز و واجب کہلاتے ہیں البتہ دوسرا گروہ مزید دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ پہلا حصہ صاحبان اقتدار کے منظور نظر گروہ پر مشتمل ہے جو امراء کو آسودہ رکھتے ہیں اور اپنے سے ذیلی طبقے کو قناعت محنت اور تقدیر کا درس دیتے ہیں۔

تیسرا طبقہ فقط نعرے لگانا، احتجاجی جلسوں میں کپڑے پھاڑنا اور انقلابی رہنما کی خاطر مر مٹنے کو تیار رہتا ہے لیکن جب سیاسی اکھاڑے ختم ہو جاتے ہیں اور امراء اور ان کے خادمین اپنے محلات کو لوٹ جاتے ہیں تو یہی لوگ اناج کی ایک ایک بوری کا سوال کرتے پھرتے ہیں اور ابتری کی تصویر بن جاتے ہیں۔ یہ مختصر افسانہ تیسری دنیا کی سماجی سیاسی اور معاشی کہانی ہے۔

پاکستان کو آزاد ہوئے پون صدی ہو چکی لیکن اس کا شمار بھی تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔

مسیحا مسیحائی کا راگ الاپ چکے حاکم سر پرستی کے دعوے کرچکے اور جرنیل حفاظت کے خواب دکھا کر اقتدار پر قابض رہ چکے ہیں لیکن پاکستان وہیں کھڑا ہے۔ جہاں اس کے پیش رو اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ ہر پانچ سال بعد یہاں عام انتخابات ہوتے ہیں اور انقلاب تبدیلی اور مسیحائی کے نعرے سنے جاتے ہیں لیکن یہ سارا عمل سپہ سالاروں کی مہربان کمانوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔ سو ہارنے والوں سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور جیتنے والے حکم کی طنابیں تھام لیتے ہیں اور پھر ہم دنیا کے سامنے جمہوریت کے دعوے کرتے ہیں۔

ہماری آنکھیں انقلاب کی متلاشی ہیں اور کان کسی شہ سوار کے گھوڑے کی ٹاپوں کو سننے کے لیے بے تاب ہیں کہ جس کی تلوار کی پہلی ضرب انقلاب کی ترویج کی منادی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب کی خواہش رکھے ہوئے ہم۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اب یہ اکیسویں صدی ہے۔ اس کے کینوس میں گھوڑے اور تلوار کے لیے کوئی جگہ نہیں سو یہ اصطلاحیں اب دم توڑ چکی ہیں۔ وقت کی رفتار پہلے سے کئی گنا تیز ہے۔ پہلے یہ رفتار انسانوں کے دم سے تھی اور اب مشینوں کے اضافے نے اسے انسانوں کی دسترس سے ماورا کر دیا ہے۔

سو اب اگر کوئی سوچتا ہے کہ انقلاب ممکن ہے تو وہ جنگی انقلاب نہیں بلکہ فکری انقلاب ہو گا جس کا نفاذ فلسفہ ہائے سیاست و سماج کی فہم اور اشاعت سے ہی ممکن ہے جس کی بنیادی اساس ادیب دانشور اور شعراء ہوتے ہیں اور سیاستدان یہ پیغام عوام تک پہنچاتے ہیں۔ مگر یہاں سیاستدان انقلاب کا استعمال اقتدار کے حصول کے لیے کرتے ہیں اور اقتدار ملتے ہی مزاحمت کی ہر تحریک کو کچلنا اپنا وتیرہ سمجھتے ہیں۔ ادب کیسے انقلاب کا حال بیان کرے کہ یہاں ہر اس کتاب پر پابندی ہے جو سماجی حالات پر انقلابی تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس ملک کے زندانوں میں اب بھی فیض فراز اور جالب کی نظموں کے نشان ملیں گے لیکن یہ معاشرہ حواس باختہ ہو کر ابھی تک وہیں کھڑا ہے اور اس کے افراد اب بھی بیرونی شاہراؤں کی جانب ملتجی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ خدا جانے کب، ؟ کون؟ ان کی مسیحائی کو نکل آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments