نومبر کا آخری ہفتہ اور سپہ سالار


بلی ماراں کے محلے کی پیچیدہ گلیوں میں ایک بے نور اندھیری سی گلی قاسم میں داخل ہوں تو ایک بلبل نوحہ گاتی سنائی دیتی تھی۔ ”میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں“ یعنی میں اس گلشن کی بلبل ہوں جو ابھی وجود میں نہیں آیا۔ اختر حسین جعفری بھی ایک ایسی ہی عندلیب تھی جو ملہار کے بجائے حزن کا گیت گاتے سرحد پار کر آئی اور گوجرانوالہ کو گلشن جان کر یہیں گھونسلا ترتیب دیا۔ خون میں انقلابی جوش تھا اور شعر کہنے کی چیٹک بھی تھی۔ بیسویں صدی میں آزاد اردو نظم کو جن ناموں نے بے پناہ وسعت بخشی ان اختر حسین جعفری کا نام ن م راشد ’میرا جی‘ فیض احمد فیض اور مجید امجد کے ساتھ آتا ہے۔ ”نومبر کے پہلے ہفتے پر ایک نظم“ کے عنوان تلے چند سطریں یوں بکھیریں گویا شکستہ خزاں خود ایک حزنیہ دھن گاتی دکھائی دیتی ہے۔

خنک ہوا کا برہنہ ہاتھوں سے زرد ماتھے سے
پہلا پہلا مکالمہ ہے
ابھی یہ دن رات سرد مہری کے اتنے خوگر نہیں ہوئے ہیں
تو پھر یہ بے وزن صبح کیوں بوجھ بن رہی ہے

جعفری صاحب حیات ہوتے تو نومبر کے اس آخری ہفتے پر بھی ایک نظم تحریر کرتے جو ملک خداداد میں ہیجان انگیز جاڑا لے کر اترا ہے۔ مارگلہ کے پہاڑوں پر سے ڈھلتی شام میں شہر اقتدار پر روٹھی ہوئی تمناؤں کا دھواں دکھائی دیتا ہے۔ جڑواں شہروں میں وہ برادرانہ تعلقات جو موسم بہار میں استوار ہوئے تھے اب قدرے تناؤ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کیا پس پردہ کوئی ”عمرانی معاہدہ“ تشکیل پا رہا ہے جہاں نئی شرائط کے ساتھ مطلق العنان اختیارات تفویض کیے جا رہے ہیں یا نئے سپہ سالار کا قرعہ سمندر پار افرنگ کی ایک گلی میں 17 ایون فیلڈ ہاؤس میں نکالا جا چکا ہے۔ قیاس آرائیاں اور اندازے تسلیم کی بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول خدائے سخن ”کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی“

سپہ سالار کی تعیناتی کا معاملہ سیکیورٹی سٹیٹس (عسکری ریاستوں ) میں اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سفید گھر میں نئے تھانیدار کا چناؤ۔ مملکت خداداد میں اقتدار کا عمل ایک مستقل دائرے میں مضحکہ خیز رقص کرتا ہے جہاں موجودہ وزیراعظم مستقبل کے سپہ سالار کا انتخاب اکابرین کی فہرست سمری سے کرتا ہے اور پھر وہی منتخب سالار دوران ملازمت آنے والے وزیر اعظم کا انتخاب کرتا ہے۔ ہمارے دوست شناور جرا کی نظم ”ناٹک“ سے چند سطریں درج کیے دیتے ہیں۔

وہ منظر سے غائب ہوا تو ہدایت کی کرسی
پہ بیٹھے لکھاری نے
منظر کی سانسوں کو گن کے بہت سے اداکار بدلے

نئے سیٹ پر ہدایت کار کی تعیناتی کو لے کر گزشتہ چند روز سے بے یقینی سموگ کے چبھنے والے ذرات کی طرح فضا میں معلق رہی۔ سیاسی پنڈتوں نے ناٹک میں موجود تمام کرداروں کی جنم کنڈلیاں کھنگالیں مگر سب کی زبانیں گنگ ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا منظر اور کون سا کردار لیڈنگ رول میں دکھائی دیتا ہے۔ مگر کل کی مہین رات میں فضا کچھ چھٹ سی گئی اور ادارے کے بگل سے ایلان مسک کی تفریح گاہ میں ایک اعلان گونجا تو سنجے لیلی بھنسالی کی رس گھولتی دھن ”ہم سمری بھیج چکے صنم“ دور دور تک سنائی دی۔ کئی راتوں کے جاگے ہوؤں کو اس میں ماں کی لوری سنائی دی تو پھیلا کے پاؤں تب تک سوئے جب تک آج کے سورج کا ایوان اقتدار کی دیوار پر مستی سے سر نہیں آ گیا۔

مارگلہ کی پہاڑیوں میں سید پور نامی آبادی میں چند روز قبل تین چیتوں کی موجودگی کی اطلاع نے علاقے کو خوف کی لہر میں لپیٹ دیا تھا۔ مگر اس آبادی سے قریباً 400 کلومیٹر دور زمان پارک میں ایک زخمی شیر جو گاہے گاہے گرجتا ہے ’موجود ہے اور اقتدار کے جنگل پر اپنی یلغار کا قصد کر چکا ہے۔ اقبال نے لکھا تھا

دنیا نہیں مردان جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسس

چیتے کا جگر تو خان صاحب بلاشبہ رکھتے ہوں گے مگر شاہین کا تجسس ان کے ہاں ناپید ہے۔ باقی شاہین سے اتنی نسبت ہے کہ وہ نومبر کی ڈھلتی شام میں مشینی شاہین (ہیلی کاپٹر) سے مارگلہ کی پہاڑیوں کے عقب میں اتریں گے۔ ان کی آمد سے قبل نئے سپہ سالار کی تعیناتی پر جشن چراغاں جاری ہو گا یا خان صاحب اپنی خطیبانہ سوزش کی بدولت ہنگامہ برپا کریں گے یہ فیصلہ آنے والی چند قیمتی گھڑیاں کر دیں گی۔ 26 نومبر کی سیاسی محفل کا عنوان یوں ہے کہ ”نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی۔“ باقی شنید ہے کہ یہ نوحۂ غم احتجاج صد بصحرا ثابت ہو گا۔ ویسے بھی کل کے شعلۂ جوالا آج ابریشم کی طرح نرم دکھائی پڑتے ہیں۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آئین انسان کا اتنا ہی بڑا کارنامہ ہے جتنا پہیے کی ایجاد۔ انسان کے اس تخیل نے صدیوں سے جاری فساد کو ایک منظم معاشرے کی ترکیب میں ڈھالا ہے۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ طاقت کا خوفناک ترین ظہور اقتدار کی صورت میں ہوا ہے۔ پاکستان میں آئین اور اقتدار کے کھیل میں اقتدار یک ورقی کو دو سو بائیس آئینی اوراق پر برتری حاصل ہے۔ کہنے کو تو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے مگر درحقیقت یہ ایک عسکری ریاست ہے جہاں جمہوری رویے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ موجودہ تعیناتی پر سیاسی کرداروں میں رسہ کشی ’عسکری اکابرین کی رنجشیں‘ اندھیر نگری میں میل ملاقاتیں ’قول قرار اور نئی بساط بچھانے کا عمل جاری ہے جبکہ ہیجان گی کے اس ماحول میں جمہوریت پاؤں سمیٹے دبک کر سو رہی ہے۔ جعفری صاحب نے یہ دکھ یوں بیان کیا تھا۔

خزاں کا پانی نئے معانی نہیں سمجھتا
سو نہر اب تک پرانے پہرے میں چل رہی ہے

پس نوشت: جارج آرول کے شہرۂ آفاق ناول اینمیل فارم کا اردو ترجمہ بک کارنر جہلم سے شائع ہو رہا ہے جس کا فریضہ محترم ڈاکٹر جمیل جالبی نے بخوبی نبھایا ہے۔ اس ناول کو مملکت خداداد کے کرداروں کے ساتھ نئے پیرائے میں لکھنا یا تو محمد حنیف کا کام ہے یا وجاہت مسعود کا۔ دیکھیے یہ پتھر کس ناتواں سے اٹھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments