کوپ 27 اور ماحولیاتی تباہی


کوپ کی تشکیل 1992 میں ریو ڈی جنیرو میں زمین پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے (UNCCC) کے تحت ہونے والے کانفرنس میں جس کی 196 ریاستوں نے توثیق کی تھی نے ایک بین الاقوامی معاہدے میں اپنایا تھا۔ کوپ کا اجتماع 1995 سے منعقد کیا جاتا رہا ہے اس کا پہلا اجلاس 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوا تھا۔ موجودہ اجلاس 6۔ 18 نومبر کو شرم الشیخ، مصر میں ہو رہا ہے جبکہ اگلا اجلاس 2023 میں دبئی میں ہونا ہے۔ موجودہ اجلاس میں 46000 شرکاء، 112 سربراہان مملکت، 197 ریاستوں کے نمائندوں، سائنسدانوں، سول سوسائٹی کے ارکان، پالیسی سازوں، آئی جی اوز، اور نوجوانوں شرکت کر رہے ہیں۔ میٹنگ کے ذریعے طے شدہ ایجنڈا موافقت، تخفیف، مالیات اور تعاون پر مشتمل ہے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف جو اجلاس میں مصری وزیر خارجہ سامح شکری کے ساتھ شریک صدر کے طور پر شریک ہوئے نے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران سب سے زیادہ زور کمزور ممالک کے لیے قرضوں میں ریلیف، موسمیاتی معاوضے اور موسمیاتی انصاف کا مطالبہ پر دیا۔ جبکہ، یورپی یونین نے گیس اور تیل کے ایندھن کو مرحلہ وار کم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

اس اجلاس میں امیر اور غریب ممالک کے درمیان اختلافات بھی سامنے آئے۔ غریب ممالک کے نمائندوں نے زور دیا کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں ان کا حصہ کم ہے جبکہ دوسری طرف ان گیسوں کی وجہ سے جن کے ذمہ دار ترقی یافتہ اور امیر ممالک ہیں وہ (یعنی ترقی پذیر ممالک) زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ کی قیمت وہ اکیلے کیوں ادا کریں؟ ان تحفظات پر قابو پانے کے لیے ایک اعلیٰ وزارتی سطح کی میٹنگ بھی ہوئی جس کا عنوان ’لاس اینڈ ڈیمج‘ تھا

2009 میں کوپن ہیگن میں منعقدہ کوہ کے اجلاس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔ لیکن وہ دعویٰ، دعوے تک ہی رہ گیا۔ اگرچہ، وہ اجلاس ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے حوالے سے اچھی پیش رفت تھی لیکن اس کی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کے مثبت نتائج اثرات برآمد نہیں ہوئے

دوسری طرف ایک اور چیلنج سامنا آ رہا ہے وہ یہ کہ نیٹ زیرو پالیسی کے نفاذ کے لیے امریکہ، انڈیا، فرانس، جرمنی، جاپان اور چین وغیرہ جو کہ زہریلی گیس پیدا کرنے کے بڑے ممالک ہیں ان کو راضی کرنے میں کوپ مستقبل میں کس طرح کامیاب ہوگی یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کوپ گیس اور تیل کے استعمال کو کم کرنے کے حوالے سے ایک پالیسی کو حتمی شکل دینے اور ترقی پذیر اور غریب ممالک کو قابل تجدید اور گرین ٹیکنالوجی میں مہارت اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں مدد کرنے میں ناکام رہی ہے جو کہ سستی اور ماحول دوست بھی ہیں۔ غریب ممالک کو مناسب قیمتوں پر شمسی توانائی، برقی گاڑیوں، ہوا کی توانائی وغیرہ کے لیے تکنیکی مدد اور خام مال کی فراہمی سے گیس اور تیل پر ان کا انحصار کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس کانفرنس میں معاملات ایک دفعہ اس وقت بد تر ہوئے جب 100 سے زیادہ ریاستوں نے عالمی عدالت انصاف میں لاس اینڈ ڈیمج کے حوالے سے مقدمہ دائر کرنے کی قرارداد کی حمایت کی۔ جس کے مطابق ترقی پذیر ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے امیر ممالک کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ امیر طاقتیں 2009 کے کوپ 15 اور 26 میں ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے 100 بلین امریکی ڈالر کی امداد کا دعویٰ کیا تھا مگر ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

کوپ 27 میں ماحولیاتی تبدیلی کے لیے گلوبل شیلڈ کے اقدام کا اعلان کر کے ایک قابل تعریف قدم اٹھایا گیا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو امداد فراہم کی جائے گی۔ ان ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، گھانا، کوسٹاریکا، فلپائن اور سینیگال شامل ہیں۔ فنڈز کے لیے جرمنی نے 17 بلین یورو فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔

12 دسمبر 2021 کو ڈیلی پارلیمنٹ ٹائمز میں میرا کالم کوپ 26 اور پاکستان شائع ہوا تھا، جن کے مطابق کوہ 26 کے میٹنگ میں سفارشات اور پالیسی کے اعلانات کچھ اس طرح تھے ؛

1۔ غیر قابل تجدید توانائی پر توجہ دینے کے ساتھ 2050 تک نیٹ زیرو کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

2۔ درجہ حرارت جو صنعتی انقلاب سے پہلے تھا کو 1.5 سیلسیس کم کرنے کے لیے پیرس معاہدے کے نفاذ پر مزید کام کرے گا

3۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ترقی پذیر اور کم ترقی پذیر ممالک کو 1 ٹریلین امریکی ڈالر فراہم کرے گا۔

4۔ امریکہ اور چین نے اگلی دہائی تک ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے تعاون کرنے کا وعدہ کیا۔
5۔ اراکین نے تقریباً 85 فیصد پر جنگلات کی کٹائی روکنے پر اتفاق کیا۔
6۔ میتھین کے اخراج کو 2030 تک 30 فیصد تک کم کرنے کا عہد کیا۔

کوپ 27 کے میٹنگ میں بھی تقریباً وہی سفارشات کی گئی ہیں ساتھ ساتھ میں لاس اینڈ ڈیمج کے فنڈ کو شامل کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں کچھ اعلانات درج ذیل تھے :

1۔ یہ کہ لاس اینڈ ڈیمج قائم کرنے کا اعلان کیا۔ گیا اس فنڈ سے 134 ممالک کی مدد ہو سکے گی۔ اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہے جو شرائط و ضوابط مرتب کرے گی اور 2023 میں دبئی میں اگلی کوپ 28 میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

2۔ 25 نئے ایریا میں اشتراک عمل کا ایک پیکج شروع کرنے کا عہد کیا گیا جس میں پانچ اہم شعبے پاور، روڈ ٹرانسپورٹ، اسٹیل، ہائیڈروجن اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔

3۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے قبل از وقت وارننگ سسٹم کے لیے پانچ سال کے لیے 3.1 بلین امریکی ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا۔

4۔ مزید یہ کہ جی سیون  نے ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنے والے کمزور ممالک کے لیے عالمی شیلڈ فنانسنگ کی سہولت کا منصوبہ تجویز کیا۔

5۔ جنگلات اور زمین کی کٹائی کے تحفظ کے لیے منصوبہ تجویز کیا گیا تھا۔

6۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی سے پہلے کی سطح سے 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

7۔ اس صدی کے آخر تک دنیا کی حرارت کو 2.5 سینٹی گریڈ تک رکھنا۔

ہم فی الحال ایک پرومیتھین دور میں رہ رہے ہیں جہاں کلورو فلورو کاربن گیسوں کا اخراج مکمل طور پر تباہ کن ہے۔ یہ بلا کسی کو نہیں بخش رہا۔ زہریلی گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والے مسائل سب کے مشترکہ ہیں۔ جس سے سب متاثر ہوں گے۔ بقائے انسانیت اور دھرتی ماں کی بقاء کے لیے ذاتی، معاشی اور سیاسی مفادات کا خاتمہ ضروری۔ کوپ 27 کو موسمیاتی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیز اور مضبوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ماحولیاتی تبدیلی ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لینے سے پہلے عقل سلیم غالب رہے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments