جنس اور محبت: مشکل سوال جواب مانگتے ہیں


ایک سوال ہے، جواب کا متلاشی ہوں، نہیں مل پا رہا۔ اگر ایک عورت کو اپنی ہی ہم جنس سے انسیت ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ یہی سوال ایک مرد پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ اب اگر یہی عورت یا مرد پاکستانی ہوں، مسلمان ہوں تو وہ پھر کیا کرے؟

ایسا ہی ایک کیس ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا تھا، لڑکی کو اپنی کلاس فیلو کے ساتھ انسیت ہو گئی، میں انسیت کو محبت لکھ دیتا ہوں۔ لڑکی تھی، مسلمان تھی، پاکستانی تھی، پڑھی لکھی بھی تھی، اچھا کیا کہ گھر والوں کو نہیں بتایا، وہ ڈاکٹر کے پاس چلی گئی، اس نے سارے ٹیسٹ کیے، نارمل نکلے، اس نے آگے ماہر نفسیات کو ریفر کر دیا، آگے کا مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ وہ لڑکی کس حالت میں ہے، اس پر کیا بیت رہی ہے، مجھے نہیں معلوم، شاید کسی کو بھی نہ معلوم ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ کس سے منصفی چاہیں؟ کوئی ان کو سمجھنے کو تیار نہیں۔ ہم جنس کے بارے میں ہمارے مذہب کی تعلیمات بھی واضح ہیں، پاکستانی قوانین بھی ہیں۔ سوال تو پھر سوال ہے، سوالات جواب مانگتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں موجود۔ اگر کسی ذی شعور کو اپنے ہم جنس سے انسیت / محبت ہو جائے، وہ کیا کرے؟ اگر ان جذبات کا کسی دوسرے کو پتا چل جائے، تو کیا وہ محفوظ رہ سکے گا؟ ریاست اس بارے میں خاموش ہے۔ جو ان دونوں کے دل پر بیت رہی، اس کا کیا؟ قوانین اس بارے میں بھی خاموش ہیں۔

میں یہ باتیں اہل علم کے سامنے کر چکا ہوں، وہ خود ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔ پھر کیا ہو گا جب ماہر نفسیات بھی کہہ دے کہ آپ کو کوئی ذہنی و دماغی مسئلہ نہیں۔

بات سے بات نکلتی ہے، سوالوں کے نامکمل جوابات سے مزید سوال نکلتے ہیں۔ چلیے ایک سوال اور سہی۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر ایک شادی شدہ عورت کو، کسی دوسرے مرد سے محبت ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ شادی شدہ ہے، پاکستانی مسلم ہے، بچوں والی بھی ہے، لیکن محبت کسی اور سے ہو گئی / کر بیٹھی، ایسی صورتحال میں وہ کیا کرے؟ اگر دوسرے مرد سے تعلقات رکھتی ہے، تب بھی غلط، طلاق لیکر، کسی دوسرے مرد سے شادی کرتی ہے، تب بھی غلط، معاشرے میں بدنام کا لیبل لگے گا ہی۔

اب شادی شدہ مرد کو، کسی دوسری عورت سے محبت ہو جائے، وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے، اگر کسی تیسری سے لگاؤ ہو گیا، وہ اس سے بھی نکاح کر سکتا ہے (اگر انصاف کر سکتا ہو) ۔ سوال یہ ہے کہ جو یہ سہولیات مرد کو مسیر ہیں، کیا عورت کو میسر ہیں؟ اگر ایک لمحے کے لئے مان لیں کہ میسر ہیں تو اگر وہ ان سہولیات سے فائدہ اٹھائے گی، تو کیا معاشرہ اسے برداشت کر لے گا؟ کیا معاشرہ اس کے متعلق ججمینٹل ہو گا؟ ضرور ہو گا۔ تو وہ کیا کرے؟ اپنی محبت کا گلا گھونٹ دے؟ خواہشات کو ختم کر دے؟ وہ جو بھی قدم اٹھائے گی، لوگوں کی نظروں میں بری ہی ٹھہرے گی۔ اگر محبت کی طرف جاتی ہے بد کردار کہلائے گی، اگر نہیں جائے گی تو خوش کیسے رہ پائے گی میں ایسے کئی واقعات کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔

میں نے یہ سوال کئی لوگوں سے پوچھا، سبھی کا ایک ہی جواب تھا ”اس عورت کا علاج ہے چھتر“ ۔ جو کم از کم میری ذات کی حد تک ہر گز قابل قبول نہیں۔ سوال جواب مانگتے ہیں، نامکمل جوابات مزید سوال اٹھاتے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال میں یہ سوال مزید اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ سوال بلاشبہ مشکل ہیں، کچھ ”مذہبی بھائیوں“ کے بقول یہ سوال لبرل ازم کے زمرے میں آتے ہیں۔ جبکہ میرا ماننا ہے کہ ہمارے دانشوروں کو اس بابت میں آگے آنا ہو گا کہ دنیا میں معاشرتی و سماجی نظام میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اگر وہی تبدیلیاں پاکستانی معاشرے میں وقوع پذیر ہوں تو ہمارا ردعمل کیسا ہو گا؟ آیا ہم ان تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے بزرگوں کے پاس نئی نسل کے پیچیدہ سوالات کے جوابات ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments