باتیں فٹ بال کی


ویسے تو انسان جس کھیل کے ساتھ دلچسپی پیدا کر لے اسے وہی پسند آنے لگ جاتی ہے۔ باکسنگ پسند کرنے والے باکسنگ، امریکن فٹ بال کے شوقین اور فارمولا ون والے ریسنگ جیسے کھیل بھی دیکھتے ہیں۔ کسی زمانے میں جب پاکستان ہاکی جیتا کرتا تھا ہر بندہ ہاکی دیکھا کرتا اور اس پر گفتگو کرتا تھا۔ کلیم االلہ، سمیع االلہ، حسن سردار، منظور جونیئر اور شہباز سینئر کی باتیں تھیں۔ دھیان چند جیسے لیجنڈ کے نام بھی اسی دلچسپی کی وجہ سے سننے کو ملے۔ اب کہیں ہاکی کی خبر تلاش کرنا بھی مشکل ہوتی ہے، نہ اپنے کھلاڑیوں کا علم ہے نہ دنیا کے۔

ہاکی زوال پذیر ہوئی، ون ڈے کی رنگینی، آسٹریلیشیا کپ، عمران خان، جاوید میاں داد، سلیم ملک، سعید انور، وسیم اکرم جیسے کھلاڑیوں اور اس پر مستزاد ملک میں کھیل میں کوئی اور چوائس نہ ہونے (سوائے تھوڑی دیر کے لئے سکواش) کی وجہ سے پاکستانی قوم کے پاس کرکٹ پسند کرنے کے سوا کوئی چارا نہ رہا۔ لیکن کرکٹ میں بھی ہماری جیت ٹلوں اور دعاؤں کی مرہون منت رہی۔ وہی بقول شاعر جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔

فیض کا شعر غلط جگہ استعمال کرنے کی معذرت لیکن شاید کرکٹ ٹیم کے سوا یہ ہماری قومی زندگی پر کہیں بھی اور منطبق نہیں ہوتا۔ ایسے ہی جیسے شاہد آفریدی ایک میچ میں چھکوں چوکوں کی برسات کر دیتا اور پھر اگلے کئی میچ ایسے جیسے اسے بلا بھی پکڑنا نہیں سکھایا گیا۔ کھیلنے پہ آئے تو ایک عبدالرزاق آخری وکٹ پر پورا میچ جتا جائے اور نہ کھیلنے پہ آئیں تو پوری ٹیم پچاس کا ہندسہ بھی پار نہ کر پائے۔

گو باسکٹ بال، کرکٹ جیسے کھیل بھی علاقائی طور پر مشہور ہیں، پیسہ گالف، فارمولا ون اور باکسنگ میں بھی بہت ہے لیکن پورے گلوب پر فٹبال اور ٹینس سے مقبول اور خوبصورت کھیل شاید ہی کوئی اور ہوں۔ ٹینس میں جب بورس بیکر، سٹیفی گراف، آندرے آگاسی، پیٹ سمپراس، مارٹینا نیوراتلوا، جان میکنرو، گبریلا سباٹینی، راجر فیڈرر جیسے کھلاڑیوں کا کھیل دیکھنے کا اپنا ہی نشہ تھا۔ اسی طرح جب دو اچھی ٹیمیں مدمقابل ہوں تو جو مزا فٹ بال دیکھنے کا ہے وہ کرکٹ میں کہاں۔

عموماً کھیل کو ہمارے جذبات اور مقابلے کی اہمیت زیادہ دلچسپی عطا کرتے ہیں۔ جیسے بابر اعظم آئرلینڈ کے خلاف رنز بنائے یا شاہین آفریدی نیدرلینڈ کی وکٹیں لے لیکن یہی جب کوہلی اور سوریا کمار کی وکٹیں لیں یا جسپریت بھمرا کی پٹائی لگائیں تو دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ لیکن فٹ بال ملکی کھیل نہ ہوتے ہوئے بھی اسی دل چسپی سے دیکھا جاسکتا ہے۔

فٹبال میں جرمنی اور برازیل یا ارجنٹائن اور فرانس یا ہالینڈ اور سپین جیسی ٹیمیں مدمقابل ہوں تو کھیل دیکھنے کا مزا دوبالا ہوجاتا ہے۔ یورپین ٹیمیں مکینیکل انداز میں اور ساوتھ امریکن ٹیمیں جس کلاسیکی انداز میں فٹبال کھیلتی ہیں اس کا ایک اپنا نشہ ہے۔ ذوقی سی بات ہے کہ یورپین ٹیموں اور برازیل اور ارجنٹینا کی ٹیموں میں وہی فرق ہے جو اے آر رحمن اور مدن موہن کی موسیقی میں ہے۔

ذاتی طور پر ہمیں ہمیشہ برازیل کی ٹیم ہی پسند رہی۔ پیلے سے لے کر رونالڈو، رونالڈینیو، روبرٹو کارلوس، کاکا، روماریو، کافو سے نیمار جونیئر تک کیسا کیسا کھلاڑی اس ٹیم نے دنیائے فٹبال کو نہیں دیا۔ ان کے ہمسائے میں پہلے میراڈونا اور اب میسی نے فٹبال کی دنیا میں اپنی خداداد صلاحیتوں سے حکمرانی کی۔ ویسے تو مختلف ادوار کے کھلاڑی سے موازنہ بیکار ہوتا ہے لیکن میسی جیسا ڈربلر شاید ہی فٹ بال کی تاریخ میں کوئی دوسرا ہو۔

یورپ میں جرمنی کی ٹیم نے نسبتاً بڑے سٹار کم پیدا کیے لیکن ان کی ٹیم کا تال میل ہمیشہ شاندار رہا۔ مکینکل انداز میں پاس دینا اور گیند کو ایک نکر سے دوسری نکر تک کیکولیٹڈ انداز میں کھیلنا جرمنی کا خاصا ہے۔ اسی لئے یہ ہمیشہ ٹورنامنٹ کے فیورٹس میں شامل ہوتے ہیں۔ فرانز بیکن باور، گیرڈ ملر، لوتھر متھیوز، اولیور کھان جیسے کھلاڑی بہرحال فٹ بال کی شان رہے ہیں۔ جرمنی کا لیگ سسٹم کسی دور میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

سکول میں ہر سال مختلف کھیل کھلائے جاتے ہیں۔ عمر کے لحاظ سے مختلف کھیلوں میں ایک مخصوص پوزیشن یا ریکارڈ حاصل کرنے والے کو صوبائی وزیر اعلی اور جرمن صدر کے دستخطوں سے سرٹیفیکٹ ملتے ہیں۔ وہیں سے بچے کے رجحان پر مقامی کلب، پھر ضلعی سطح پھر صوبائی اور قومی سطح تک کھلاڑی پہنچتے ہیں۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں فٹبال کا شاندار گراؤنڈ اور سپورٹس ہال ضرور موجود ہوتا ہے۔ جس طرح کی حوصلہ افزائی اور کوچنگ اس چھوٹے سی جگہ پر دستیاب ہوتی ہے ہم صرف تصور کر سکتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ عرض کردوں کہ پڑھائی میں بھی ایسے ہی سراہا جاتا ہے اور قومی سطح تک اسے پہچان بخشی جاتی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی طالبعلم نے ریاضی کے ایک سوال کو مختلف فارمولے سے حل کیا جو ہمارے استاد کے لئے نیا تھا۔ اس نے وہ سوال ایجوکیشن بورڈ کو بھجوایا ان کے علم میں بھی وہ نہیں تھا چنانچہ وفاقی وزیر تعلیم کے دستخطوں کے ساتھ اس بچے کو سرٹیفیکٹ دیا گیا کہ یہ تمہارا ایجاد کردہ فارمولا ہے جو تم سے منسوب ہوا۔ اور یہ بچہ مڈل سکول کا تھا۔

باقی یورپ کا بھی یہی حال ہے۔ انگلینڈ، سپین اور اٹلی اپنی قومی لیگ پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ارب پتی لوگوں نے ان کے کلب خرید رکھے ہیں، روسیوں اور عربی امرا میں بھی یہ رجحان بڑھا ہے اور کئی انگلش کلب اب ان کی ملکیت ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکی ارب پتی شاہد خان بھی ایک کلب کے مالک ہیں۔ اتنے زیادہ چکا چوند اور پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے بھی ان کے پاس ہمیشہ اچھے کھلاڑی ہوتے ہیں اور ان کی ٹیمیں بہترین ٹیموں کی صف میں شامل رہتی ہیں۔ ہیں۔

امسال قطر کا ورلڈ کپ پوری رنگینیوں کے ساتھ شروع ہو چکا۔ قطر نے پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے۔ میسی، رونالڈو، نیمار، کلیان ایمبپے، پیڈری جیسے کھلاڑی مدمقابل ہیں۔ ورلڈ کپ کون لے جاتا ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی نے ریاضی کے ایک قاعدے پر پرکھتے ہوئے جو پیشگوئی کی اس کے مطابق تو ہماری ہمیشہ کی فیورٹ برازیل ہی جیتتی دکھائی دیتی ہے لیکن دل کا ووٹ اس دفعہ میسی کے لئے ہے۔ دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments