جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد کی تقرری پر عمران خان کی پریشانی


بظاہر جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس بنائے کے فیصلہ کے بعد ملک میں اہم عسکری عہدوں پر تعیناتی پر ہیجان پیدا کرنے کی کیفیت ختم ہو جانی چاہیے تھی پچھلے 6 ماہ سے ان اہم عہدوں کی تقرری پر کی جانے والی سیاست کا باب بند ہو جانا چاہیے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیا وزیر اعظم کی طرف سے صدر مملکت کو بھجوائی جانے والی ایڈوائس پر پر بلا ”۔ چوں چرا“ فوری طور پر دستخط کرنے کی بجائے صدر محترم اپنا سب کام کاج چھوڑ کر اس ایڈوائس پر ”کپتان“ سے ایڈوائس لینے زمان پارک لاہور پہنچ گئے صدر مملکت کو وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے ملاقات میں سمری پر دستخط نہ کرنے یا تقرری کے عمل کو تاخیر کا شکار کرنے کے سنگین نتائج سے آگاہ کر دیا تھا۔

انہیں باور کرا دیا تھا کہ یہ ان کے پاس آخری موقع ہے وہ آئینی عمل میں رکاوٹ بن کر اپنے خلاف تحریک مواخذہ کو دعوت نہ دیں انہیں یہ بھی کہہ دیا گیا تھا وہ صرف علامتی صدر ہیں صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل درآمد کا پابند ہوتا ہے۔ صدر کمانڈر انچیف ضرور ہیں لیکن آئین کے سامنے وہ ہاتھ بندھے کھڑے ہیں حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ سمری صدر پاکستان کو بھجوا دی گئی ہے، امید ہے کہ صدر تعیناتی پر کوئی تنازع کھڑا نہیں کریں گے۔

دو سینئر جرنیلوں کی اعلیٰ عہدوں پر تقرری سے کوئی سپر سیڈ ہوا اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا لیکن اس کے باوجود عمران خان اپنے اس بیان سے بھی ایک قدم ہٹ گئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا آرمی چیف کی تقرری سے کوئی لینا دینا نہیں جس کو مرضی آرمی چیف مقرر کر دیں ان کا یہ مسئلہ نہیں لیکن جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی کی تقرری کے لئے 6 جرنیلوں کے ناموں پر مشتمل سمری وزارت دفاع سے وزیر اعظم کو بھجوائی گئی جس میں جنرل عاصم منیر کا نام سر فہرست ہے تو عمران خان کا بیان آ گیا کہ میں اور صدر عارف علوی عسکری قیادت پر مشاورت کریں گے اور آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کھیلیں گے۔

سو عمران خان نے کھیلنے کے لئے ”کاٹھ“ کے صدر کو زمان پارک طلب تو کیا لیکن صدر مملکت نے عمران خان پر واضح کر دیا کہ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی کو روکا نہیں جا سکتا لہذا صدر نے دو اہم عسکری عہدوں پر تقرری کی سمری پر آج ( 24 نومبر) ہی دستخط کر کے وزیر اعظم آفس بھجوا دی جس کے بعد جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تعینات ہو گئے

گزشتہ روز حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور چودھری شجاعت حسین نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ شہباز شریف صاحب آپ وزیراعظم ہیں اور آئین نے یہ اختیار اور آرمی چیف کی تعیناتی کا استحقاق آپ کو سونپا ہے۔

سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت نے کہا کہ اللہ نے آپ کو عزت اور منصب سے نوازا ہے، اہم تقرری کرنا آپ کا آئینی حق ہے، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اجلاس میں یہ تاثر دیا گیا کہ پی ڈی ایم کا وزیر اعظم پر بھرپور اعتماد ہے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس آرمی ایکٹ کے تحت اختیار ہے، صدر مملکت کے پاس ایڈوائس پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں ہے، ایڈوائس سیکرٹ نہیں بلکہ اوپن کمیونیکیشن ہے، صدرمملکت فوری طور پر عمل بھی کر سکتے ہیں یا تاخیر بھی کر سکتے ہیں لیکن فیصلہ تبدیل نہیں کر سکتے عمران خان کبھی آئین سے کھیلتے ہیں تو کبھی سائفر سے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کے تقرر پر وزیراعظم کی سمری اب عمران خان کا امتحان ہے۔ صدر مملکت علوی کی بھی آزمائش ہے کہ وہ سیاسی ایڈوائس پر عمل کریں گے یا آئینی و قانونی ایڈوائس پر۔ بحیثیت افواج کے سپریم کمانڈر ادارے کو سیاسی تنازعات سے محفوظ رکھنا ان کا فرض ہے۔ معاون خصوصی وزیراعظم عرفان قادر کا کہنا ہے کہ تعیناتی کا فنکشن صدر کا ہے ہی نہیں۔ آرمی چیف اور چیف آف جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کے حوالے سے دونوں تعیناتیاں انتہائی خوش آئند طریقے اور اتفاق رائے سے ہوئی ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کے تحت معاملات طے پائے گئے ہیں، پوری امید ہے کہ صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کوئی ایسا تنازعہ نہیں کھڑا کریں گے۔ اس کو سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، آئین اور قانون کے تحت نقطہ نظر کو دیکھنا ان کا حق بنتا ہے، یہ ایڈوائس کسی اور کی نہیں بلکہ وزیراعظم کی ہے، صدر مملکت ادارے کے سپریم کمانڈر ہیں، صدر مملکت کو پاک فضائیہ، نیوی اور فوج کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے، یہ ایک مقدس فریضہ ہے، آئین کے تحت اس فریضے کو نمٹائیں، یہ ایڈوائس وزیراعظم کی ہے صدر کی کنفرمیشن کی کوئی اوقات نہیں ہے بہر حال صدر مملکت کی جانب سے سمری کی منظوری کے بعد آرمی چیف کی تقرری پر بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل ہیں، عاصم منیر کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ستمبر 2018 میں تعینات کیا گیا تھا لیکن دو ماہ بعد چارج سنبھالا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ایک اچھی شہرت کے مالک افسر ہیں دین کی طرف جھکاؤ ہے، عاصم منیر منگلا میں آفیسرز ٹریننگ سکول پروگرام کے ذریعے سروس میں شامل ہوئے اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، وہ اس وقت سے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کے قریبی ساتھی رہے ہیں انہیں 2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر کیا گیا اور اگلے سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔

تاہم اعلی انٹیلی جنس افسر کے طور پر ان کا اس عہدے پر قیام مختصر مدت کے لیے رہا، آٹھ ماہ کے اندر ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے ان کو عمران خان کے کہنے پر اس منصب سے ہٹایا گیا تھا جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر منتقلی سے قبل انہیں گوجرانوالہ کور کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ اس عہدے پر دو سال تک فائز رہے تھے۔ فی الحال عاصم منیر بطور کوارٹر ماسٹر جنرل (کیو ایم جی) پاکستان کی فوج میں ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔

2019 میں انھیں کور کمانڈر کور گوجرانوالہ بھی تعینات کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2021 میں انھوں نے اس عہدے کی کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کے سپرد کی تھی جبکہ بطور لیفٹیننٹ کرنل عاصم منیر نے سعودی عرب میں بھی فرائض انجام دیے ہیں۔ جہاں انہوں نے مدینہ منورہ میں قرآن پاک کو حفظ کیا جب جنرل قمر جاوید باجوہ 10 کور کی کمانڈ کر رہے تھے تو عاصم منیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بطور بریگیڈیئر فورس کمانڈر ناردرن ایریاز بھی کام کیا ہے۔

شنید ہے عمران خان لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف تعینات کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد سے تعلق رکھنے والے جنرل عاصم منیر متوسط گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ سیدھے سادھے سٹریٹ فارورڈ فوجی افسر ہیں۔ ان کی بطور آرمی چیف کی تقرری پر عمران خان کے سوا کسی کو کوئی اعتراض نہیں ان حلقوں کی جانب سے عاصم منیر کی نامزدگی سے قبل ان کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے کہ عاصم منیر 27 نومبر کو ریٹائر ہو رہے تھے جب کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو اپنا عہدہ چھوڑیں گے اگر اس بارے میں کوئی قانونی نکتہ تھا بھی تو آرمی ایکٹ میں ضروری ترمیم کر دی گئی ہے ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جنرل مرزا اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے بہت پہلے جنرل آصف جنجوعہ کو آرمی چیف بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا تھا رہی بات جنرل ساحر شمشاد کی توان کا تعلق سندھ رجمنٹ کی آٹھوں بٹالین سے ہے اور وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 76 لانگ کورس کا حصہ رہے ہیں ساحر شمشاد کا تعلق ضلع چکوال کے موضع ملہال مغلاں سے ہے۔

انہوں نے اپنی وراثت فوج اور یونٹ قراردیا ہے وہ 2021 ء سے فوج میں تھری سٹار جنرل کے طور پر راولپنڈی کور کمانڈ کر رہے ہیں۔ ساحر شمشاد کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر جون 2019 میں ترقی دی گئی تھی جبکہ انھوں نے بطور ایڈجوٹنٹ جنرل اور چیف آف جنرل سٹاف کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔ انھوں نے بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس بھی فرائض انجام دیے ہیں جبکہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران انھوں نے انفنٹری ڈویژن بھی کمانڈ کیا ہے۔

ساحر شمشاد بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس شہرت پائی ہے مختلف فوجی آپریشن کی قیادت کی جن میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن بھی شامل ہے۔ پاکستان، چین، امریکہ اور افغانستان کے درمیان بات چیت میں بھی ساحر شمشاد کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ انہیں اکتوبر 2021 میں بطور کور کمانڈر راولپنڈی تعینات کیا گیا۔ ساحر شمشاد کا شمار غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک فوجی افسران میں ہوتا ہے

بالآخر آرمی چیف جنرل باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ سے 5 روز قبل بول پڑے ایک طرف جہاں انہوں نے فوج کا سیاست میں حصہ لینا غیر آئینی قرار دیا وہاں انہوں نے نام لئے بغیر عمران خان کی سیاست کو بھی ایکسپوز کر دیا ہے اور کھل کر کہا کہ ”جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ہیجان برپا کیا گیا ان کا یہ خطاب فوج کی طرف سے پالیسی بیان ہے میں جنرل باجوہ کے اس موقف سے بھی اتفاق کرتا ہوں سابق مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی واقعی اگر اس وقت کی سیاسی قیادت ڈائیلاگ کے ذریعے پر امن انتقال اقتدار کا مرحلہ طے کر لیتے تو خانہ جنگی کی نوبت نہ آتی جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس پالیسی بیان کے لئے یوم دفاع و شہدا کی تقریب کا انتخاب کیا انہوں نے فوج کے خلاف فوج کے خلاف جارحانہ رویے کو درگزر کر کے آگے بڑھنے کی بات کی۔

یہ تقریب ہر سال 6 ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں 1965 کی جنگ کے شہید ہونے والے ہیروز کی قربانیوں کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے، تاہم اس سال ملک بھر کے سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسے ملتوی کر دیا گیا۔ تقریب سے قبل سپہ سالار نے یادگار شہدا پر حاضری دی اور یادگار شہدا پر پھول بھی چڑھائے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ آج یوم شہدا پاکستان بطور آرمی چیف آخری بار خطاب کر رہا ہوں انہوں نے کہا کہ میں آج ایک ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر عموماً ”لوگ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ بات 1971 میں ہماری فوج کی سابق مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے۔ میں یہاں پر کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے سابق مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی۔ لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف گورنمنٹ ڈپارٹمنٹس کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ اڑھائی لاکھ انڈین آرمی اور دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شا نے بھی کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments