نئے چیف، عمرانی بیانیہ: ہزار پیچ پڑ گئے ہیں راستہ نہیں رہا


ملکی اداروں میں تبادلے، تقرریاں، تعیناتیاں معمول کی کارروائیاں ہوتی ہیں، تاہم، ملکی سلامتی کے حامل اداروں میں یہ مشق انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ پاک فوج، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے۔ اس کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے، اسی لئے فوجی اداروں کی معمولی کارروائی بھی غیر معمولی خبر بن جاتی ہے۔

قیام پاکستان سے اب تک پاکستان آرمی کی کمان سنبھالنے والے افسران کی تعداد موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے سمیت سترہ ہے۔

جنرل سرفرینک واٹر میسروی سے جنرل گل حسن تک پاک فوج کے سربراہ ”کمانڈر ان چیف“ کہلاتے، جنرل ٹکا خان کے زمانے سے سربراہ کو ”چیف آف آرمی اسٹاف“ کہا جاتا ہے۔ سرفرینک میسروی اور جنرل گریسی پہلے دو کمانڈر انچیف تھے۔

6 ستمبر 1950 ءکو گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے میجر جنرل ایوب خان کو پاکستانی افواج کا پہلا مسلمان کمانڈر انچیف نامزد کیا۔ 15 ستمبر 1950 ء کو جنرل ایوب خان کو ڈپٹی کمانڈر ان چیف بنایا گیا، 17 جنوری 1951 ء کو جنرل ایوب خان پاکستانی فوج کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف آزادی کے تین سال بعد مقرر ہوئے۔

7 اکتوبر 1958 ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کیا اور جنرل ایوب خان کو افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر اور ناظم اعلیٰ مارشل لا مقرر کیا۔ پاکستان کے چوتھے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کی تقرری 27 اکتوبر 1958 ء کو ہوئی۔

29 مارچ 1966 ء کو میجرجنرل آغا محمد یحییٰ خان کو ترقی دے کر افواج کا ڈپٹی کمانڈر انچیف اور جنرل موسیٰ کا جاں نشین مقرر کیا گیا۔ 18 ستمبر 1966 ء کو جنرل موسیٰ گورنر جنرل، مغربی پاکستان مقرر ہوئے تو اسی دن جنرل یحییٰ خان کو پانچواں کمانڈر انچیف بنایا گیا۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد آرمی چیف جنرل آغا یحییٰ خان سمیت سات افسران فوری ریٹائر کر دیے گئے۔ 20 دسمبر 1971 ء کو لیفٹیننٹ جنرل گل حسن قائم مقام کمانڈر انچیف اور 22 جنوری 1972 ءکو چھٹے آرمی چیف بنے۔

ساتویں آرمی چیف جنرل ٹکا خان 3 مارچ 1972 ء کو مقرر ہوئے۔
آٹھویں آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مارچ 1976 ء کو عہدہ سنبھالا۔

نویں آرمی چیف، جنرل مرزا اسلم بیگ کی تقرری، 17 اگست 1988 ء کو فضائی حادثے میں جنرل محمد ضیا الحق کی موت کے بعد ہوئی۔ لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ نے دسویں چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ 16 اگست 1991 ء کو سنبھالا۔

ان کے اچانک انتقال کے سبب 11 جنوری 1993 کو جنرل عبدالوحید کاکڑ گیارہویں آرمی چیف مقرر کیے گئے۔
12 ویں آرمی چیف، جنرل جہانگیر کرامت نے 12 جنوری 1996 ءکو پاک فوج کی قیادت سنبھالی اور 7 اکتوبر 1998 ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش کیے گئے۔

کورکمانڈر منگلا، جنرل پرویز مشرف کو ترقی دے کر تیرہواں آرمی چیف مقرر کیا گیا۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پرویز مشرف کے استعفا کے بعد فوج کے 14 ویں سپہ سالار کا منصب سنبھالا۔ 15 ویں آرمی چیف، جنرل راحیل شریف نے 29 نومبر 2013 ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

16 ویں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر 2016 ء کو اپنے منصب کا چارج سنبھالا۔
19 اگست 2019 ء کو جنرل باجوہ کو تین سال کی توسیع دی گئی، ان کی مدت ملازمت 29 نومبر 2022 کو مکمل ہوگی۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر سترہویں آرمی چیف ہیں وہ اس وقت سب سے سینئر ہیں، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔

2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر ہوئے اور اکتوبر 2018 میں انھیں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ آٹھ ماہ بعد ہی ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر کر دیا گیا۔ آرمی چیف بننے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل تھے اس سے قبل وہ دو سال گوجرانوالہ کے کور کمانڈر رہے۔ آرٹیکل 243 ( 3 ) کے تحت صدر، سروسز چیف کی تعیناتی وزیر اعظم کی سفارش پر کرتا ہے۔

ماضی کی روایات کے برعکس نئے چیف آف آرمی سٹاف کے انتخاب کو عمران خان نے متنازعہ ترین بنا کر ہر تھڑے کا موضوع بحث بنا دیا۔ حالانکہ وہ معترف رہے کہ اپنے دور اقتدار میں وہ آرمی کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔

حکومت جاتے ہی سیاسی مقبولیت کے لئے امریکی سازش کا بیانیہ گھڑا جھوٹ اور بد زبانی کا سہارا لیتے ہوئے قوم کو گمراہ کیا۔ جعلی سائفر جلسوں میں لہرایا، فوج کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔ عمران خان اس خبط میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنے بیانیے کے ذریعے سب کچھ بہا لے جائیں گے اور ان کی مقبولیت نئے آرمی چیف کو ڈکٹیشن لینے پر مجبور کر دے گی۔ اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا چورن بیچ کر بظاہر وقتی مقبولیت حاصل تو کرلی مگر زمینی حقائق سے مجبور ہو کر خود اپنے بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔

فنانشل ٹائمز سے انٹرویو میں امریکہ کے خلاف بیانیے کو ماضی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کر کے اپنے مداحوں کو مایوس کیا اور پھر یہ کہہ کر اپنی لٹیا ڈبو دی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے خلاف سازش نہیں کی لیکن انہوں نے موجودہ ٹولے کو اقتدار میں آنے سے کیوں نہیں روکا؟ اس سے قوم کو یہ سمجھ آ گئی کہ عمران خان کی فوج سے لڑائی صرف اپنے اقتدار کے لیے ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کو میر جعفر، غدار اور نیوٹرل کو گالی بنانے کا عمل جاری رکھا اور ساتھ ہی خفیہ ملاقاتیں کر کے سودا بازی کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مارتے رہے، لوگ اب یہ سوال کرتے ہیں، کہ ایک طرف وہ دو صوبوں میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور دوسری جانب لانگ مارچ بھی کر رہے ہیں۔

اگر عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں کیوں نہیں توڑتے؟ اس دوغلے پن کی وجہ سے وہ قبل از وقت انتخابات کی تاریخ لے سکے، نہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوا سکے، چیف الیکشن کمشنر سے استعفا حاصل کر سکے اور نہ ہی مرضی کی ایف آئی آر درج کر اسکے۔ اب توشہ خانہ اسکینڈل کے بھنور میں پھنسے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ گویا

جو موڑ تم نے مڑ لیے یہ کیا سلجھ سکیں گے اب
ہزار پیچ پڑ گئے ہیں ’ راستہ نہیں رہا
تمہارے ہاتھ کیا لگی یہ سات رنگ داستاں
کہیں سے سرخ اڑ گیا ’کہیں ہرا نہیں رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments