نئے آرمی چیف کے نام


جناب عاصم منیر صاحب آپ کو دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک بڑی فوج کی قیادت اور کمان مبارک ہو۔ لیکن چھوٹی منہ بڑی بات کے مصداق، ساتھ ہی چند گزارشات اس لئے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی ایک تجویز کو بھی مناسب سمجھ کر اس پر عمل درآمد کے احکامات صادر کیے تو ملک و قوم کے ساتھ ساتھ فوج کا بھی بھلا ہو گا۔

جس طرح قمر جاوید باجوہ صاحب نے اپنے الوداعی خطاب میں سابقہ غلطیوں اور مداخلت کے اعتراف کے بعد قوم کو یقین دلایا کہ فوج نے بحیثیت ادارہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ باجوہ صاحب کے اس گفتار کو کردار سے ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ فوج اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی جو خلیج حائل ہو چکی ہے وہ صرف زبانی بیانات یا انتظامی سختی سے ختم کرنا ممکن نہیں۔ سیاست سے مکمل کنارہ کشی کے ساتھ ساتھ درجہ ذیل تجاویز بھی گوش گزار کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہوں۔

قبائلی علاقے اب پختونخوا کا باقاعدہ حصہ ہے اور وہاں امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے وہاں سڑکوں اور بازاروں سمیت جہاں جہاں اب فوج کی مسلسل موجودگی اور نگرانی ناگزیر نہ ہو، وہاں سے فوجی جوانوں کو فوری طور پر ہٹا کر ناکے لگانے اور چیکنگ کرنے کی ذمہ داریاں سول فورسز کے حوالے کیے جائے۔ تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے اور نہ صرف فوجی جوانوں کو پندرہ سالہ طویل ترین جنگی صورتحال سے نجات ملے بلکہ عام لوگوں کو بھی علاقے میں امن کی بحالی اور آزادانہ نقل و حمل کا یقین آ جائے۔

چونکہ فوج کی تربیت جنگ کی صورت میں دشمن پر سخت نظر رکھنے کی خطوط پر ہوئی ہوتی ہے، اس لئے ان کے لئے زمانہ امن میں عام لوگوں کے احساسات اور جذبات کا ادراک ممکن نہیں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا سخت ترین رویہ اکثر اوقات انتہائی معزز اور محب وطن لوگوں کی عزت نفس مجروح کرنے اور اس کی وجہ سے ان کو فوج سے متنفر کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہی تجویز بڑے شہروں کے کینٹ ایریاز میں ناکوں پر تعینات فوجی اہلکاروں کے لئے بھی ہے۔

ثانیا یہ کہ حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکیٹس بانٹنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ نہایت معذرت کے ساتھ لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی وردی میں ملبوس فرد کو اپنے سوا باقی سب لوگ چور ڈاکو اور غدار نظر آتے ہیں۔ مگر آپ جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص سے زیادہ یہ بات کس کو معلوم ہوگی کہ اب حب وطن اور تحفظ وطن کی تعریفیں بدل چکی ہے۔ وطن کی حفاظت صرف بندوق سے نہ ممکن ہے نہ تنہا یہ بندوق برداروں کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان بیس کروڑ سے زیادہ عوام کا ملک ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری، کوئی اس کی جغرافیائی حدود کی حفاظت بندوق اٹھا کر کرے گا تو کوئی قلم اٹھا کر اس کے نظریاتی اساس کو مضبوط بنائے گا۔ سیاست دان اگر اس ملک کو بہتر آئین و قانون دے کر اس کی بنیادیں مضبوط بنا رہے ہیں۔ تو سول انتظامیہ کے اہلکار قانون کی حکمرانی یقینی بنا کر ملک کی اندرونی حفاظت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاعر ادیب اور فنکار اگر اہل وطن کا سافٹ امیج دنیا بھر میں پیش کرنے کے لئے کوشاں ہیں تو یہاں کے تاجر و کارخانہ دار معیشت کی ترقی میں کردار ادا کر کے ملک کی بنیادیں مضبوط کر رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون مزید نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ طاقت کا مرکز و منبع اب بندوق سے زیادہ قلم اور ٹیکنالوجی بن گیا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلکاروں کی ذہنی کشادگی اور رویوں میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ مثبت تبدیلی کے لئے ان کی تربیت کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ تاکہ فوج اور عوام کے درمیان نفسیاتی خلیج کو کم کیا جا سکے۔

ثالثاً یہ کہ فوج کو بعض خصوصی مراعات اور مختلف کاروباروں میں ملوث ہونے کی بناء پر بھی ہدف تنقید بنایا جا تا ہے۔ جس کی گونج بعض اوقات ایوانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ تفصیلات لکھنے کی ضرورت نہیں، مگر عرض یہ ہے کہ اس قسم کے تمام کاروباروں سے فوج کی مکمل دوری وقت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ این ایل سی، ڈیفنس ہاؤسنگ سکیمز، ایم ای ایس اور ایف ڈبلیو او پر اب عوام میں اسی طرح تنقید ہونے لگی ہے ان اداروں پر کرپشن کے ایسے ہی الزامات لگتے ہے جس طرح دوسرے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں پر ہو رہی ہے ظاہر ہے کہ یہ صورتحال فوج کی ساکھ کے لئے کسی بھی صورت فائدہ مند نہیں ہے۔ لہذا اس کا بروقت تدارک ناگزیر ہے۔

بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی اگر آپ واقعی اس ملک اور عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے تمام ذیلی اور انٹیلی جنس اداروں کو کسی بھی منتخب حکومت کو مکمل سپورٹ کرنے کے احکامات دیجئے۔ اور اپنی توانائیاں ادارے کی ساکھ کی بحالی کے ساتھ ساتھ آئین کے دائرے میں رہ کر کرپشن کے خاتمے کے لئے صرف کیجئے۔ اور اس مقصد کے لئے قائم اداروں کو انصاف پر مبنی فیصلے کرنے پر خود مختاری اور تحفظ کا یقین دلائے۔ درجہ بالا تجاویز حب وطن کے جذبے سے سرشار ایک ادنی پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ توجہ دی تو شکریہ نہیں دی تو کوئی گلہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments