پاکستان کے مسائل اور سیاستدانوں کی عدم توجہی


پاکستان میں جہاں سیاسی بحران تھمنے کو نہیں آ رہا سیاست چند شخصیات کے گرد دائرے کی صورت میں گھوم رہی ہے۔ وہاں عوام کے مسائل ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو ان معاملات کو لے کر متحرک کیا جا رہا ہے جس سے ان کے اصل مسائل کا حل ہونا ممکن نظر نہیں آتا اور یہ کہنا بلا موقع نہیں ہو گا کے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ جب پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے الگ کیا تو یہ کہا گیا کہ ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے جا رہی ہے اور تحریک انصاف کی نا تجربہ کار حکومت اس کے نتیجے میں آنے والے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے۔

مگر پی ڈی ایم کی تجربہ کار ٹیم کے آنے سے ان مسائل نے حل کیا ہونا تھا مزید اس قدر مہنگائی کا طوفان برپا ہوا کہ لوگوں کو پی ٹی آئی کا دور حکومت اچھا لگنے لگا۔ مگر بعد میں بعض لیڈروں نے اعتراف کیا کہ ان کی اصل تشویش یہ تھی کہ کہیں عمران خان اپنی پسند کا آرمی چیف لے آئے تو ان کو مزید آئندہ کئی سالوں تک حکومت سے باہر بیٹھنا پڑے گا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار سے نکلتے ہی امریکی سازش کا بیانیہ بنایا اور لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست شروع کر دی بجائے اس کے کہ الیکشن کا انتظار کیا جاتا جس کی وجہ سے یہ معاشی بحران مزید گہرا ہوتا گیا۔

اور معاشرے میں مزید تقسیم کو ہوا ملی۔ بعد میں خود عمران خان نے اپنے اس بیانیہ سے رجوع کر لیا۔ وفاق نے پنجاب میں حکومت کو گرانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد اعلی افسر ان کی تعیناتیوں میں رکاوٹ ڈالی جس سے گورننس کا مزید بحران پیدا ہو گیا اس بحران سے ایک چھوٹی جماعت ق لیگ کو دوبارہ اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع مل گیا جنہوں نے اپنی پسند کے آفیسران کو تعینات کر کے گورننس کو مزید دھچکہ پہنچایا۔ لانگ مارچ کے دوران ملک افراتفری کا شکار ہوتے ہوتے اس وقت بچا جب عمران خان قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے مگر شکر ہے ان کی جان بچ گئی۔ مگر اس کے بدر الزامات کا ایک اور طوفان اٹھا اور پی ٹی آئی کی اداروں سے تلخیاں مزید بڑھتی چلی گئیں۔

اب جبکہ آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ تقریباً خوش اسلوبی سے طے پا چکا ہے اور فوج نے ایک بار پھر غیر جانبدار رہنے کا اعادہ کیا ہے یہ بڑا موقع ہے کہ سیاستدان آپس میں ڈائیلاگ کر کے ملک کو اس مشکل بحران سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ملک کو درپیش تمام مسائل اور عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر نئے رولز آف گیم طے کیے جائیں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ملک کو باہمی اتفاق سے نئے انتخابات کی طرف لے جایا جائے۔ ملک میں برپا مہنگائی کے طوفان کو کم کیا جائے اگرچہ عالمی حالات بھی اس وقت ناموافق ہیں مگر اس کے باوجود غریب عوام کو ریلیف چاہیے۔

اس حوالہ سے زراعت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کھاد بجلی ڈیزل وغیرہ پر سبسڈی دے کر زرعی اجناس کی قیمتیں کم کی جا سکتی ہیں جس سے شہروں میں بسنے والے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف مل سکتا ہے جو اس وقت مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بہت گنجائش ہے کہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دے کر ان کے لئے ذریعہ روزگار پیدا کیا جائے۔ بڑے تاجر اور کھاتے پیتے طبقے پر ٹیکس بڑھا کر عوام کی تعلیم اور صحت کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا کرنے چاہئیں۔

ہمیں آبادی کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ہماری آبادی اس بے ہنگم طریقے سے بڑھتی رہے گی تو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی تمام ترکیبیں بے کار جائیں گی۔ ہمارا سابقہ مشرقی حصہ جو اب بنگلہ دیش ہے اس نے تمام معاشی اشاریوں میں ہمیں مات دے دی ہے بنگلہ دیش نے جس ماڈل کے ذریعے ترقی کی ہے اس کو اپنا نا پڑے گا۔ بنگلہ دیش نے نہ صرف اپنی آبادی کی شرح کم کی انہوں نے نوجوانوں خاص کر خواتین کے ہنر اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی خواتین جو آبادی کا پچاس فی صد ہوتی ہیں ان کو معیشت میں کردار دیے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

بنگلہ دیش میں خواتین کو چھوٹے قرضے دے کر کاروبار کی طرف راغب کیا گیا۔ ہم جب تک اپنی خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے ہماری آبادی غربت کا شکار رہے گی۔ اس طرح ہمیں اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے ہمسایہ ممالک خاص کر جنوبی ایشیا کے ملکوں سے معاشی تعلقات بہتر بنانے پڑیں گے۔ جس سے ہماری درآمدات پر خرچہ کم آئے گا۔ سی پیک جیسے بڑے گیم چینجر منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے جو ہمارے دوست ملک چین کا ہمارے لئے ایک تحفہ سے کم نہیں ہے۔ ان تمام اقدامات کو کرنے کے لئے لانگ ٹرم سوچ کی ضرورت ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے سیاستدان ان مسائل پر اپنی توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اقتدار کی سیاست پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں اور عوام بھی ان کی باتوں میں آ کر اپنے حقیقی مسائل سے غافل نظر آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments