وہ ماں جس نے اپنے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے بوڑھے شخص کو جان سے مار ڈالا


سارہ سینڈز اپنے بچوں کے ساتھ
آٹھ سال قبل سارہ سینڈز نے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے ایک سزا یافتہ شخص کو چاقو سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

سنہ 2014 کے موسم خزاں کی ایک شب ایک خاتون چاقو سے مسلح اور سر پر ایک ہڈ پہنے مشرقی لندن کے ایک چھوٹے فلیٹ سے نکلی تھی
اور وہ قریبی فلیٹوں کی عمارتوں سے چلتی ہوئی ایک بوڑھے شخص کے گھر پہنچی تھی۔

جہاں اس نے مائیکل پلیسٹڈ نامی شخص کو چاقو کے آٹھ وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ جسے بعد میں ایک ’سوچا سمجھا‘ حملہ قرار دیا گیا تھا۔

پلسیٹڈ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔ وہ 77 برس کا بوڑھا شخص تھا۔

اس وقت وہ شخص، جسے پہلے بھی بچوں کا جنسی استحصال کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا، مزید الزامات کا سامنا کر رہا تھا۔

اس پر سلور ٹاؤن میں چھوٹے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا الزام لگایا گیا تھا، جہاں وہ رہتا تھا۔

قانونی طور پر ایسے معاملات میں مقدمے کی سماعت کے دوران بچوں کے نام عوامی سطح پر نہیں لائے جا سکتے
لیکن ان میں سے تین نے بی بی سی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تینوں سارہ سینڈز کے بچے ہیں۔

سارہ سینڈز

ان کی کہانی

ان بھائیوں میں سے سب سے بڑے بریڈلی ہیں، جو حملے کے وقت 12 سال کے تھے اور جو گذشتہ سال اس زیادتی کا انکشاف کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے حق سے دستبردار ہو گئے تھے

اور بی بی سی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ان کے چھوٹے بھائی ،الفی اور ریس جو جڑواں ہیں، نے بھی ایسا ہی کیا۔

ان کی عمر اس وقت 11 برس تھی جب ان کی والدہ نے اس شخص کا قتل کیا تھا جس پر ان بچوں کا جنسی استحصال کرنے کے الزامات تھے۔

اب ان تینوں بھائیوں کی عمریں 19 اور 20 برس ہیں اور انھیں یاد ہے کہ جب انھیں بچپن میں پتا چلا تھا کہ ان کی والدہ نے کیا کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ جیل میں پروان چڑھنا مشکل تھا
اور جہاں سارہ اپنے فعل پر پچھتاوا محسوس کرتی ہیں وہیں ان کے بچے اپنی والدہ کے عمل کے متعلق سخت ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بریڈلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ غلط تھا اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا۔‘

الفی نے مزید کہا کہ ’اس نے ہمیں مزید محفوظ محسوس کروایا تھا۔ اس سے ہمارے برے خواب تو ختم نہیں ہوئے تھے لیکن اس عمل نے ہمیں تحفظ کا احساس دلایا تھا کیونکہ اب آپ کو گلی میں چلتے ہوئے یہ سوچنا نہیں پڑتا تھا کہ آپ کو گلی کی نکڑ پر اس شخص کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

بریڈلی کہتے ہیں کہ ’وہ بالکل ہمارے گلی کے پار رہتا تھا۔ میں اپنے گھر کی کھڑکی کھول کر اس کے گھر کو دیکھ سکتا تھا۔‘

ریس جن کی عمر جنسی استحصال کے وقت 11 برس تھی، کہتے ہیں کہ ’یہ جان کر اچھا لگتا ہے کہ وہ مر چکا ہے‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے روکا نہیں جا سکا، آپ جانتے ہیں کہ ہم اکثر سوئے میں اٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے کہ امی کہاں ہیں۔‘

مائیکل پلیسٹڈ

مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پلیسٹڈ نے اپنا نام رابن مولٹ سے تبدیل کر لیا تھا اور وہ سزا یافتہ پیڈو فائل تھا

سلور ٹاؤن میں آنا

سارہ سینڈز اور ان کا خاندان اس قتل سے مہینوں قبل ہی سلور سٹون کے علاقے میں اپنے نئے گھر منتقل ہوئے تھے۔ وہ پلیسٹڈ کی دوست بن گئی جو اکیلا رہتا تھا۔

علاقے کے ایک معزز شخص کی حیثیت سے وہ اکثر گلی میں ایک بنچ پر بیٹھ جاتا اور مقامی افراد اور ان کے بچوں سے بات چیت کرتا۔

وہ اب کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں وہ ایک اچھا شخص تھا۔ میری والدہ ان کے لیے کھانا پکاتی تھی، ان کا خیال کرتی تھیں اور جب بھی ان کے پاس وقت ہوتا وہ ان کے ساتھ وقت گزارتی تھیں۔‘

پلیسٹڈ ایک دکان میں کاغذوں کو ترتیب دیتا تھا اور سنیچر کے روز کچھ بچے ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔

سینڈز کہتی ہیں کہ ’ایک دن اس نے پوچھا کہ کہ بریڈ اس کی مدد کر سکتا ہے اور وہ بہت پرجوش تھا۔‘

ان کا ماننا ہے کہ پلیسٹڈ اس وقت میں ان کے بڑے بیٹے کو بھی تنگ کر رہا تھا جب وہ آہستہ آہستہ جڑواں بچوں کا اعتماد حاصل کر رہا تھا۔ اس نے تینوں بچوں کو اپنے گھر بلایا تھا۔

ایک رات جڑواں بچوں نے ان پر انکشاف کیا کہ جب وہ اپارٹمنٹ میں تھے، تو لیسٹڈ نے ان پر جنسی حملہ کیا تھا۔ ایک ہفتے بعد بریڈلی نے بھی اسی بات کا انکشاف کیا۔

سارہ سینڈز اپنے بچوں کے ساتھ

الزامات

پلسیٹڈ کو گرفتار کر کے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا الزام لگایا گیا تھا۔

مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا انتظار کرتے ہوئے، جج نے انھیں ضمانت پر رہا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بہتری کی طرف واپس آ سکتے ہیں۔

سینڈز کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد وہ پریشان تھی اور انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کو اپنی ماں کے چھوٹے سے گھر میں منتقل کر دیا تھا۔

قتل کی رات اپارٹمنٹ کی عمارت میں لگے سکیورٹی کیمروں نے انھیں پلیسٹڈ کے گھر جاتے ہوئے فلم بند کر لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اس سے یہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ الزامات کا اعتراف کرے اور اپنے بچوں کو عدالت جانے کی آزمائش سے بچائے۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں وہاں کیا کر رہی ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ اسے کسی بھی طرح سے افسوس نہیں تھا۔

اس نے کہا ’تمہارے بچے جھوٹ بول رہے ہیں۔‘ مجھے لگا کہ میری دنیا رک گئی ہے۔ میرے بائیں ہاتھ میں چاقو تھا اور مجھے یاد ہے کہ اس نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تھی۔‘

سارہ سینڈز اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ان کا پلیسٹڈ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اس کے کچھ گھنٹوں بعد وہ خون آلود کپڑوں اور چاقو کے ساتھ پولیس سٹیشن پیش ہوئی تھی۔

ان کے مقدمے کی سماعت کے دوران جج نے کہا تھا کہ اسے یقین نہیں کہ انھوں نے ’عقلی طور پر سوچا تھا کہ چاقو اپنے ساتھ لے جانے سے کیا ہو سکتا ہے‘ لیکن جج کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اس کے استعمال کا امکان ان کے ذہن میں تھا۔‘

سارہ سینڈز کو اپنے پر قابو کھو دینے کی بنیاد پر قتل کے بجائے قتل عام کا مجرم پایا گیا تھا۔

شہر

سزا میں اضافہ

انھیں ساڑھے تین سال کی سزا میں جیل میں ڈالا گیا لیکن بعدازاں ان کی سزا میں اضافہ کر کے اسے ساڑھے سات سال کر دیا گیا کیونکہ ان کے خلاف پہلا فیصلہ بہت نرم پایا گیا تھا۔

کورٹ آف اپیل کے ججوں نے کہا کہ انھوں نے پلیسٹڈ کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا، حتیٰ کہ ایمرجنسی سروسز کو بھی کال نہیں کی۔

انھوں نے تقریباً چار برس جیل کاٹی۔ وہ اب کہتی ہیں کہ ’میں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔‘

جیل کی سلاخوں کے پیچھے اکیلی ماں کے طور پر ان کے تینوں بچے اپنی دادی کے ساتھ رہنے چلے گئے تھے۔

بریڈلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم سب ایک ہی کمرے میں رہتے تھے، وہاں کوئی پرائیویسی نہیں تھی۔‘

جیل سے ایک ماں

وہ کہتے ہیں کہ ’میری دادی میری ماں کو جیل میں فون کرتیں اور فون پر ان سے پوچھتی کہ کیا میں فٹ بال کھیلنے جا سکتا ہوں یا اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا سکتا ہوں۔ تو وہ اکثر ’منع‘ کر دیتی تھیں۔‘

الفی کہتے ہیں کہ تینوں بھائیوں نے ’بہت سی چیزوں کو کھو دیا۔ ‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے ایک مرتبہ اپنی والدہ سے ملنے جیل جاتے تھے۔

اب وہ کہتے ہیں کہ ’کبھی کبھی آپ اپنی ماں کو صرف ایک مسئلہ بتانا چاہتے ہیں۔‘

ان کے دوست جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا لیکن بریڈلی کہتے ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ دوسرے لوگ پوچھتے تھے کہ ’تمھاری ماں کہاں ہے، ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔‘

سینڈز کہتی ہیں کہ ’اس پر بچے مجھ پر غصہ ہوتے تھے۔ میرے جیل جانے سے پہلے، ہم ایک بہت ہی قریبی خاندان تھے اور پھر اچانک میں وہاں نہیں رہی۔ یہ ان کے لیے خوفناک تھا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مائیکل پلیسٹڈ کی زندگی کا خاتمہ کرنے پر پچھتاتی ہیں تو انھوں نے کہا ’ہاں بالکل۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس دنیا میں زندگی لے کر آئی تھی اور مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ میں کسی کی زندگی بھی لے سکتی ہوں۔‘

سارہ سینڈزکا بیٹا

ریس کہتے ہیں کہ ہم اکثر سوئے میں اٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے کہ امی کہاں ہیں

شناخت کی تبدیلی

مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پلیسٹڈ نے اپنا نام رابن مولٹ سے تبدیل کر لیا تھا اور وہ سزا یافتہ پیڈو فائل ( بچوں کا جنسی استحصال کرنے والا شخص) تھا۔

اسے اس سے قبل تین دہائیوں کے دوران جنسی جرائم کی 24 سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اس نے ان جرائم میں جیل کی سزائیں بھگتیں لیکن اس علاقے میں کسی کو، بشمول ٹاؤن ہال جہاں اسے رہائش دی گئی تھی، اس کے ماضی کے بارے میں علم نہیں تھا۔

سارہ سینڈز اب ایک ایسے گروپ میں شامل ہو گئی ہیں جو اپنے نام تبدیل کرنے والے جنسی مجرموں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔

لیبر ایم پی سارہ چیمپیئن، جنھوں نے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر یہ مسئلہ اٹھایا، کہتی ہیں کہ کچھ جنسی مجرم اپنی نئی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے بعض ملازمتوں پر ضروری جانچ پڑتال سے بچ رہے ہیں۔

سارہ چیمپیئن کا کہنا ہے کہ ’ایک مرتبہ جب وہ اپنا نام تبدیل کر لیتے ہیں تو انھیں نئی شناخت کے تحت ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ کا اجرا بھی ہو جاتا ہے۔‘

’اس سے وہ اپنے ماضی کا مجرمانہ ریکارڈ غائب کر سکتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ لوگ پھر سکولوں اور دوسری جگہوں پر جاتے ہیں جہاں بچے اور کمزور لوگ ہوتے ہیں اور انتہائی خوفناک طریقوں سے اپنے با اعتماد عہدوں کا استحصال کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments