’لیونگ انڈس‘ منصوبہ: کیا دریائے سندھ اگلی صدی دیکھ پائے گا؟


’پہلے ہماری زمین تھی پر اب مچھی مارتے ہیں۔۔۔‘ بھاگی نے ہمیں اداسی سے بتایا۔ صبح کے دس بج رہے تھے اور وہ گھر کے مختلف کام کرتے ہوئے ہم سے باتیں بھی کررہی تھیں۔

انھوں نے مزید کہا ’اور مچھی بھی کبھی ملتی ہے کبھی نہیں، جب نہیں ملتی تو میرا گھر والا مزدوری کرنے شہر چلا جاتا ہے۔‘

بھاگی سندھ کے ساحلی ضلع بدین سے چالیس کلومیٹر دورایک گاﺅں شیخ کیریو بھنڈاری کی مکین ہیں۔

یہ گاﺅں دریائے سندھ کے آخری کنارے پرآباد ہے۔ یہ کبھی ہنستا بستا اور خوشحال گاﺅں تھا لیکن اب یہاں صرف چند گھر رہ گئے ہیں۔ دریا کا پانی اب یہاں نہیں پہنچتا

اب حدّ نظر بس سمندر کے نمکین پانی سے آلودہ کیچڑ جیسی زمین نظر آتی ہے، کچھ فاصلے پر سمندر موجود ہے جو جوار بھاٹا کے دوران گاﺅں کے اور قریب آ جاتا ہے۔

اسی گاﺅں کے رہائشی ساجن شیح مچھلی پکڑنے والا جال کھول کر مچھلی پکڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کم از کم چار صدیوں سے ان کی شیخ برادری یہیں آباد ہے۔

ان کے دادا بھی اپنے دادا کے بارے میں بتاتے تھے جو اسی گاﺅں کے مکین تھے گویا ان کی چھ نسلیں اسی جگہ گزری ہیں۔

انھوں نے اپنے بچپن کے دن یاد کیے جب یہاں دریائے سندھ کا پانی نہروں کے ذریعے باقاعدگی سے پہنچتا تھا تو اس میٹھے پانی کی بدولت ان کی زمینیں انتہائی زرخیز تھیں۔

ان نہروں کے کناروں پر تیمر کے جنگلات بھی موجود تھے لیکن جیسے جیسے دریا کا پانی کم ہوتا چلا گیا، سمندر آگے آتا رہا تو سب کچھ بدلتا چلا گیا۔اب کھارے پانی میں فصلیں نہیں اگتیں لہذا وہ مچھلی پکڑتے ہیں۔

ساجن شیح کا کہنا ہے کہ ’حالات نے ہمیں زمیںدار سے مچھیرا بنا دیا۔‘

بدین کے رہائشی، مصنف اور بلاگر ابوبکر شیخ کا بچپن بھی اسی علاقے میں گزرا۔ انھوں نے ساجن کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں یہ زمینیں اپنی زرخیزی اور دھان کی فصل کے لیے مشہور رہی ہیں، یہاں کی زمینوں میں ’لال چاول‘ کی فصل ہوتی تھی اور اتنی زیادہ ہوتی کہ فصل کی کٹائی کے لیے لوگ کم پڑ جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ یہاں میٹھے پانی کی ماہی گیری کا رواج تھا جو کریکس اور جھیلوں پر ہوتی تھی۔

’لوگ خوشحال تھے لہذا میلے ٹھیلوں کی بھی یہاں رونقیں دیکھنے والی ہوتیں مگراب یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ ہماری غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دریائے سندھ کے پانی، اس کے وسائل اور لوگ، اب سبھی کچھ خطرے کی زد میں ہیں۔‘

دریائے سندھ کے اچھے دن

دیو مالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی تقریبا 3,180 کلومیٹر ہے جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 کلومیٹر دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔

یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ’دم چک‘ سے لداخ میں داخل ہو جاتا ہے۔

لداخ میں اسے ’سنگھے کھب‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سنگھے کا مطلب ہے ’شیر‘ اور کھب کا مطلب ہے ’منہ‘۔

پاکستان بھر میں اس دریا کے مختلف نام ہیں۔ یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوشحالی انڈیلتا گزرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکر گزاری سے مختلف نام دیتے ہیںG

مثلا پشتو میں اسے’ابا سین‘ یعنی دریاﺅں کا باپ، سندھ میں اسے ’مہران‘ اور ’سندھو ندی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

لفظ ’سندھو‘ سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ’سیند‘ پر ہے اور جس کے معنی ’بہنے‘ کے ہیں لیکن آج کوٹری بیراج پر کھڑے ہو کر اس سدا بہنے والے دریائے سندھ کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

یہاں سال کے آٹھ مہینے ریت اڑ رہی ہوتی ہے اور دریا کے پاٹ میں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔

دنیا کے بڑے دریاﺅں میں نیل اوردریائے سندھ وہ دریا ہیں جو اپنے پانی کے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اورزرخیز مٹی لاتے ہیں لیکن دریائے سندھ کے پانی میں ریت اورمٹی کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

برطانوی گزٹ کے مطابق 1873 تک دریا کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی نے تقریباً 97 مربع میل ڈیلٹا کی نئی زمین بنائی تھی۔

وادی مہران کی تہذیب

یہ بھی حقیقت ہے کہ تہذیبیں دریا ہی کے کنارے پھلتی پھولتی اور ارتقا کے مراحل طے کرتی ہیں۔ دریائے سندھ کے کناروں پر بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب ’وادی مہران کی تہذیب‘ یا انڈس سولائزیشن نے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ (یہاں وادی سندھ سے مراد صرف صوبہ سندھ نہیں کیونکہ ہزاروں برس پر محیط اس تہذیب کے نشانات سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور انڈیا میں بھی پائے گئے ہیں)۔

اس عظیم الشان تہذیب کے چند شواہد اگرچہ بیسویں صدی کے اوائل میں سامنے آتے رہے لیکن 1922 میں ایک باقاعدہ منظم شہر کی صورت موئن جو دڑو کی دریافت نے ماہرین میں ہلچل مچا دی تھی۔

گوکہ یہاں سے ملنے والی اشیا پر موجود عبارت ابھی مکمل طور پر پڑھی نہیں جا سکی مگر دیگر شواہد کی بنیاد پر ماہرین اس تہذیب کو پانچ ہزار جبکہ حالیہ ریسرچ کے مطابق سات ہزار سال قدیم تہذیب مانتے ہیں اور اسے مصری اور عراقی تہذیب سے قدیم اور حجم میں ان دونوں سے کہیں بڑی قرار دیتے ہیں۔

وادی مہران کی اس قدیم تہذیب کے باشندے اپنے رہن سہن اور شہری تعمیر میں کس قدر ترقی یافتہ تھے اس کا اندازہ ہڑپہ، موئن جو دڑو، سوات اور دیگر بے شمار آثار قدیمہ کو دیکھ کر با آسانی ہوجاتا ہے۔

موئن جو دڑو کے صاف ستھرے کشادہ گلی کوچے، پانی کے تالاب، اناج رکھنے والے بڑے بڑے گودام ، یہاں سے ملنے والا سازو سامان خصوصاً زیورات لوگوں کی خوشحالی کی کہانی سناتے ہیں لیکن یہ گزرے کل کے قصے تھے جب دریائے سندھ واقعی ’شیر دریا‘ تھا اور اس کا پانی آخری کنارے تک خوشحالی بکھیرتا سمندرمیں گرتا تھا۔

آج دریائی وسائل ہماری بے پروائی، غیر دانش مندانہ اقدامات، ماحولیاتی شکستگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں انتہائی خطرات سے دوچار ہیں لہذا آج جب اس عظیم تہذیب کی دریافت کو سو سال ہو چلے ہیں تو یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ جس سندھو دریا نے ہزار ہا سال سے انسانی تہذیب کی اپنے پانی سے آبیاری اور خدمت کی، وہ کیا اگلی صدی دیکھ پائے گا؟

اگر نہیں تو پاکستان کیا کرے گا کیونکہ پاکستان کی معیشت اور 90 فیصد آبادی کا انحصار براہ راست یا بالواسطہ دریائے سندھ کے پانی پر ہی ہے۔

یہ وہ سوال تھا جس کی گونج ایوان اقتدار تک بھی پہنچی اور حکومت پاکستان اور ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اور دریائے سندھ کو زندہ یا رواں دواں رکھنے کے لیے ایک منصوبہ ’لیونگ انڈس‘ (LIVING INDUS) وجود میں آیا۔

رواں دواں مہران (Living Indus) منصوبہ کیا ہے؟

وزارت موسمیاتی تبدیلی، حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تعاون سے دریائے سندھ کے پانی اور وسائل کی حفاظت کے لیے ایک منصوبہ لیونگ انڈس (Living Indus) تیار کیا گیا جواب کابینہ سے منظور ہو چکا ہے۔

اس 15 سالہ منصوبے میں 25 ایسے کلیدی اقدامات کی سفارش کی گئی ہے جن پر عملدرآمد سے دریائے سندھ کا پانی، اس کے وسائل اور اس پر انحصار کرتی آبادی محفوظ ہو سکے گی۔

یہ منصوبہ کیسے وجود میں آیا، اس حوالے سے اس منصوبے کے نیشنل کوآرڈینیٹر سعد حیات ٹمن بتاتے ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جن خطرات سے دوچار ہے وہ اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔

’اس سال کے سیلاب نے آنے والے منظرنامے کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے تیار رہنے کی جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ لہذا پاکستان کو اگر محفوظ کرنا ہے تو دریا ئے سندھ اور اس کے وسائل کو محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ دریائے سندھ اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔‘

سعد نے مزید بتایا کہ ہم دریائے سندھ کی اہمیت کو صرف زراعت سے جوڑتے ہیں، یہ اس سے زیادہ کا معاملہ ہے کیونکہ معیشت کا تین چوتھائی حصہ دریائے سندھ کے پانی پر ہی انحصار کرتا ہے۔

’دریا کوصنعتی اور زرعی فضلے اور پلاسٹک کی آلودگی سے پاک رکھنا بھی اس منصوبے کا اہم حصہ ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں صرف دریا کے پانی ہی نہیں بلکہ پورے دریائی ماحولیاتی نظام کی بحالی پر کام کرنا ہے۔ دریا کا صحت مند ماحولیاتی نظام ہی پائیدار ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔‘

لیونگ انڈس منصوبہ پاکستان کے سابق وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم (پاکستان تحریک انصاف) کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’دریائے سندھ جو پاکستان کی ’لائف لائن‘ ہے، اس کی حفاظت کے لیے لیونگ انڈس جیسے منصوبے بہت اہم اور ناگزیر ہیں۔‘

’یہ منصوبہ پورے ملک کی ماحولیات کا احاطہ کرتا ہے اور اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنا چاہتے ہیں تو پورے دریا کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنا بہت ضروری ہے۔‘

آبی وسائل کے ماہرڈاکٹر حسن عباس نے اس منصوبے کو مستقبل کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کا اعتراض ہے کہ دریائے سندھ کی تنزلی کی اصل وجوہات دریا پر تعمیر کیے گئے میگا سٹرکچر ہیں، جس سے پانی کو ذخیرہ اور اس کا بہاؤ موڑا جاتا ہے لیکن لیونگ انڈس منصوبے میں اس کا کوئی واضح ذکر نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ڈیموں پر بحث نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منصوبے میں جو کچھ بھی تجویز کیا گیا ہے، اس پر عمل درآمد خاصا مشکل ہو گا۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کے ایک بیان کے مطابق ’لیونگ انڈس‘ ایک سرمایہ کاری پروجیکٹ ہے، جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مزاحمتی تعمیر نو پر توجہ دی گئی ہے کیونکہ پاکستان حالیہ سیلاب کے بعد تعمیر نو کا آغاز کررہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے کئی حصے ہیں اور سرمایہ کار اپنی مرضی کے حصے کا انتخاب کر کے کام کر سکتے ہیں۔

شیری رحمان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر اس پروگرام کے 25 منصوبوں پر 11-17 ارب امریکی ڈالر لاگت آئے گی، جن میں سے 15 منصوبے سیلاب کے انتظام سے متعلق ہیں۔

دریائے سندھ، ایک زندہ حقیقت!

اس منصوبے میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح دریائے سندھ کوایک زندہ وجود یا Living entity قرار دے کر اس کے حقوق مقرر کیے جائیں۔

نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، برازیل، پیرو، کینیڈا، ایکواڈر، بولیویا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور انڈیا بھی اپنے دریاﺅں کی حفاظت کے لیے ایسے ہی اقدامات کرچکے ہیں۔

اس منصوبے کی صوبائی کوآرڈینیٹر فضلدا نبیل کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ چین کے ینگز (Yangtze River) ریور پروٹیکشن لا اورانڈیا کی گنگا ریور اتھارٹی کی طرح ’انڈس پروٹیکشن ایکٹ‘ تشکیل دیا جا سکے تاکہ دریائے سندھ کے تمام معاملات اسی کے تحت طے کیے جا سکیں۔

’مثلاً دریا کے پانی کی تقسیم، اس کی مجموعی انتظام کاری، زمین کا استعمال، وسائل کا استعمال اور دریا پر کسی قسم کی تعمیرات اور دریا کا مجموعی ماحولیاتی نظام بشمول اس کی آبی حیات محفوظ اور بحال ہو سکے۔‘

دریائے سندھ پاکستان کی شہہ رگ ہے کیونکہ پاکستان کی تقریباً 90 فیصد آبادی اور اس کی تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمیوں کا انحصار اسی دریا کے پانی پر ہے۔

ملک کی 80 فیصد سے زیادہ قابل کاشت زمین دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اور ملک کے 10 میں سے 9 بڑے شہر دریا کے 50 کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔

موئنجو دڑو کی تہذیب کے خاتمے کی وجوہات میں ماہرین کا خیال ہے کہ شاید انڈس اور ہاکڑو دریا نے اپنا پاٹ بدل لیا تھا لہذا پانی کی کمی نے ان شہروں کی معیشت تباہ کر دی اور زندگی یہاں سے روٹھ گئی۔

ہمیں اگرچہ دریائے سندھ اپنے وسائل کے ساتھ آج میسر ہے لیکن اگر ہم نے اپنا چلن نہیں بدلا تو کہیں آنے والے وقتوں میں ہمیں یہ نہ کہنا پڑے کہ
ایک تھا دریائے سندھ۔۔۔!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments