ایجادات، اتفاقات اور مسلم دنیا


حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے کوئی 200 سال قبل جزیرہ سسلی جو آج اٹلی کا حصہ ہے اس وقت یونانی سلطنت کے زیر نگیں تھا، کے جزیرے کے ایک شہر سائرا کس کی مرکزی شاہرہ پر ایک شخص برہنہ دوڑتا چلا جا رہا تھا، اور زور زور سے کہ رہا تھا کہ ”میں نے پا لیا۔ مجھے مل گیا“ یہ اپنے وقت کا ماہر فلکیات اور سائنس دان ارشمیدس تھا۔ دراصل قصہ کچھ یوں تھا کہ بادشاہ ہیرو دوم نے ایک سنار کو اپنا تاج بنانے کے لیے دیا۔ جب وہ بن گیا تو بادشاہ کو اس بات پر یقین نہیں آیا کہ یہ خالص سونے کا ہے۔

اس نے ارشمیدس سے تاج کا تجزیہ کر کے سچائی معلوم کرنے کو کہا۔ لیکن ارشمیدس نہ تو تاج کو پگھلا سکتا تھا اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اس وقت تک کیمیائی تجزیہ کرنے والے آلات بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ ارشمیدس کو اس کے خالص پن کو معلوم کرنے کے لیے متبادل ذرائع کا استعمال کرنا تھا۔ اس نے مختلف تجربات کیے اور اس کے ان تجربات نے ہماری کثافت اور اچھال کی بنیادی تفہیم کو استعمال کیا۔ پھر ”یوریکا“ یعنی ”میں نے پا لیا۔

مجھے مل گیا“ کا لمحہ اس وقت آیا جب ارشمیدس نہا رہا تھا۔ جب وہ پانی میں اترا، تو پانی کی سطح بڑھ گئی اور اس نے یہ بات سمجھ لی کہ جتنے پانی کی مقدار کو اس نے ہٹایا ہے وہ لازمی طور پر جسم کی مقدار کے برابر ہو گا۔ اگر وہ زیادہ بڑا ہوتا، تو زیادہ پانی فرش پر گرتا۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ پانی اس کے وزن کو سہارا دینے کے لیے اسے دھکیل رہا ہے، بصورت دیگر وہ ٹب کے تلے میں ڈوب جاتا۔ یہ قوت اب اچھال کہلاتی ہے، اور اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ مائع کا دباؤ گہرائی کے ساتھ بڑھتا ہے۔

اچھال کی قوت جسم کے وزن کے مخالف کام کرتی ہے، اور اتنی ہی طاقت کو دھکا دیتی ہے۔ تاہم اگر فاعل (جسم) پانی کی اس مقدار سے زیادہ بھاری ہو جو اس نے ہٹایا ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ پانی سے زیادہ کثیف ہے ) اور وہ ڈوب جائے گا۔ اس منطق کا استعمال کرتے ہوئے ارشمیدس نے ثابت کیا کہ بادشاہ کا تاج خالص سونے کا نہیں ہے۔

اس واقعہ کے کوئی 18 سو سال بعد انگلستان میں ایک شخص سیب کے باغ میں درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ درخت پر سے ایک سیب ٹوٹ کر اس کے سر پر لگا۔ اس نے سیب کو زمین پر گرتے دیکھ کر کشش ثقل کا عظیم الشان مسئلہ دریافت اور حل کر لیا۔ نیوٹن اس شخص کا نام آئزک نیوٹن تھا۔ وہ اسکارٹ لینڈ کے ایک دیہی گھرانے میں 4 جنوری 1642 کو پیدا ہوا۔ آئزک نیوٹن نے ابتدائی تعلیم لنکاشائر کے کنگز اسکول سے حاصل کی۔ نیوٹن کے چچا نے نیوٹن کی فطری ذہانت کو دیکھا تو اس کی والدہ کو اسے کیمبرج میں داخل کروانے کا مشورہ دیا۔ غالباً کیمبرج یونیورسٹی میں ہی سیب کے درخت کے نیچے باغ میں نیوٹن بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک سیب درخت سے ٹوٹ کر اس کے سر سے ٹکرا کر زمین پر گرا تھا۔ سیب کو نیوٹن نے دیکھا اور فکر میں ڈوب گیا کہ سیب زمین پر کیوں گرا۔ بس اسی اتفاقی عمل سے نیوٹن نے کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔

کیمبرج میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد نیوٹن کو کیمبرج میں ہی معلم کی معمولی نوکری مل گئی، مگر اس نے تیزی سے ترقی کی اور 27 سال کی عمر میں ریاضی کا مکمل پروفیسر بن گیا۔ نیوٹن نے اس کے بعد دریافتوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا۔ اس عظیم سائنسدان کا کہنا ہے کہ ”کوئی بھی ایجاد ایک بڑی سوچ کے بغیر ممکن نہیں“ نیوٹن نے ہزاروں ایسی ایجادات کیں، جس کی وجہ سے تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ نیوٹن نے حرکت کے تین قوانین پیش کیے۔

اس نے ریاضی کے علم میں کچھ اضافے بھی کیے، اس کے بنائے ہوئے قوانین کو ”نیوٹن کے قوانین“ کہا جاتا ہے۔ اس نے ”لاء آف موشن“ کے نظریے کے نام سے کچھ قوانین ایسے ایجاد کیے جن کا استعمال آج بھی سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز بنانے میں کیا جاتا ہے۔ نیوٹن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”قدرتی فلسفہ کے حسابی اصول“ لکھ کر سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کتاب سائنسی تاریخ کی اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کتاب میں کشش ثقل کے قانون اور حرکت کے قوانین پر بھی بحث کی گئی ہے۔ یہ عظیم سائنسدان 31 مارچ 1727 میں وفات پا گیا۔ اور ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا۔ انگلستان کے بادشاہ بھی اسی جگہ دفن کیے جاتے ہیں۔

گزشتہ 2000 سال سے زیادہ عرصے میں اس طرح کی ہزاروں اتفاقی دریافتیں اور ایجادات بنی نوع انسانوں کی آسانی اور انسانیت کی ترقی کے لیے وقوع پذیر ہوئیں۔ میں حیرت اور غم کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں جب یہ غور کرتا ہوں کہ قرون وسطیٰ سے مسلم دنیا کے کسی ایک شخص کے حصے میں بھی ایسا اتفاقی لمحہ نہیں آیا۔ مسلمانوں کے ہر خطے میں جنگ و جدل سے سرشار بہت سے ہیرو ملیں گے۔ ہر صدی میں مبلغ، بہادر حکمران فتوحات کے خوگر قطار در قطار نظر آئیں گے لیکن سائنسدان اور موجدوں کا قحط الرجال رہا۔

کیا مسلمانوں کے ذہن بانجھ ہیں یا وہ بچپن سے لے کے بڑھاپے تک نفسیاتی طور پر خوف زدہ رہتے ہیں۔ آخر ہماری سوچ و بچار کے محور میں ایسی کیا کجی ہے کہ دنیا ہمیں ذہنی پسماندگان میں شمار کرتی ہے۔ مسلمان ممالک کی تعلیمی اسناد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور ہماری ذہنی استطاعت کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتی ہے۔ عجب بات ہے کہ مسلمان چاہیے مشرق وسطیٰ کے رہگزاروں میں رہ رہا ہویا انڈونیشیا کے ہرے بھرے زرخیز مرغزاروں میں پیدا ہوا ہو اس کا ذہن بنجر ہی نظر آتا ہے۔

ایک بات جو میں محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان معاشروں میں سوال کرنے والے یا سوال اٹھانے والے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ سوال کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ایسے شخص کا یا تو مذاق اڑایا جاتا ہے اور اگر سوال ناپسندیدہ ہو تا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ عجب منافقت ہے کہ ہمارا دین بت شکن کہلاتا اور ہے، لیکن ہم ہر دور میں شخصیات کے بت تراشتے رہتے ہیں اور اگر دوسرا شخص ہماری پسندیدہ شخصیت پر کسی قسم کا بھی کوئی سوال اٹھاتا ہے تو ہم مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔

ہمارے سماجی رویے بھی عجیب و غریب ہیں، ہم اپنے گھرکا کچرا صاف کر کے پڑوسی کے گھر کے سامنے ڈال دیتے ہیں، اپنی ذاتی خوشی کے موقع پر بلند آواز کا لاؤڈ اسپیکر لگا لیتے ہیں، ہم ذرا خیال نہیں کرتے کہ آس پڑوس میں کوئی بوڑھا شخص، کوئی بیمار بچہ اس چیختی چنگھاڑتی آواز سے پریشان ہو رہا ہو گا۔ ہم مغرب کے شہروں کی رنگین راتوں کا ذکر کرتے ہوئے بڑے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی یہ غور نہیں کرتے کہ وہاں بازار سورج طلوع ہونے کے فوراً بعد آباد ہو جاتے ہیں اور غروب آفتاب کے وقت بازار بند ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں بازار دوپہر کے دو بجے کھلتے ہیں اور رات کے دو بجے بند ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمارا ملک بجلی نہ ہونے کے شدید بحران میں مبتلا ہے۔ ساری دنیا میں دفتروں اور بازاروں کے موسم سرما اور موسم گرما کے اوقات طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے حساب سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور ہمیں بحیثیت مسلمان مزید سہولت حاصل ہے کہ ہماری روزانہ عبادات یعنی نماز کے اوقات بھی سورج کے طلوع و غروب ہونے کے حساب سے ہیں۔ تو اگر سارا سال سارے بازار اور دفاتر فجر کی نماز کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے بند کر دیے جائیں تو کیا مشکل ہے۔ بس کیا کیا جائے، صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ ہم دین کے ہیں نہ دنیا کے۔

ہم پاکستانی بالخصوص بالغ نظری اور ذہنی پختگی سے کوسوں دور ہیں یہی وجہ ہے کہ پچھلے 75 سال سے ہمارا دیس سنسنی خیزی، ہیجان انگیزی اور بے انتہا بد نظمی کا شکار ہے ابھی کل تک پورا ملک اس ہیجان میں مبتلا تھا کہ کون آدمی آرمی چیف بنے گا آپ اور ہم آج بھی یہ نہیں جانتے کہ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کی فوج کی کمان اعلی کس کے ہاتھ میں ہے یا ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا کمانڈر انچیف کون ہے لیکن پاکستان کے کمانڈر ان چیف کا نام ہمارے ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ ہمارے ملک کا تو یہ حال ہے کہ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments