بعض مریضان شوگر کا گھر میں اور باہر رویہ


خدا شوگر کے مرض سے ہر ایک کو محفوظ رکھے۔ کم بخت بڑا نازک مزاج سا مرض ہے۔ جس کو موئی شوگر ہو جائے۔ اس کا مزاج بگڑتے پتا نہیں چلتا۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ ہمارے اپنے خاندان میں شوگر کے کافی مریض ہیں۔ ان میں سے کچھ مریض ایسے ہیں جو اپنے گھر جی بھر کر آئس کریم اور کوک کھائیں پئیں گے لیکن جیسے ہی کہیں کسی کے گھر جانا ہو تو شوگر یاد آ جاتی ہے۔ جب ہمیں شرف میزبانی بخشا جاتا ہے تو ہم بھی جو آسانی سے میسر ہو پیش خدمت کر دیتے ہیں۔

اب خاندان میں ایک دوسرے سے کوئی بات ڈھکی چھپی تو ہوتی نہیں۔ کون سی آنٹی رات کو کوک پی کر نہ سوئیں تو انہیں نیند نہیں آتی۔ اور کون سے انکل ہیں جو دودھ دہی کی دکان سے کھیر ڈکارتے ہیں سب اچھے سے جانتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو اپنی شوگر کے متعلق بہت حساس ہو جاتے ہیں۔ بے چاری شوگر بھی گھڑی بھر اپنی قدردانی پر پھولے نہیں سماتی۔ لیکن ہم ایسے میزبانوں کا اس منافقانہ رویے پر بہت خون کھولتا ہے۔ مفت میں نخرے اٹھانا بڑا بھاری کام ہے۔

اب ہماری خالہ اور پھپھو بھی شوگر کی مریضہ ہیں۔ یہ دونوں خواتین بھی اپنے گھر چائے میں بھر بھر کے چینی کے چمچ ڈالیں گی لیکن ہمارے گھر آتے ہی شوگر فری چائے یاد آ جاتی ہے۔ اگر ہم بھولے سے کبھی چائے میں چینی ڈال دیں تو لیکچر ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اگر آئس کریم یا کھیر سامنے رکھ دیں تو توبہ توبہ کر کے ٹرے پیچھے کر دیں گی۔ ہاں مٹھائی کی خبر ہو کہ ہمارے گھر ہے تو وہ نہ نہ کرتے تھوڑی بہت ضرور چکھ لیں گی۔ کیونکہ آخری بار مٹھائی کب کھائی یاد نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار میٹھا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔

سچ کہیں تو ہمیں مریضان شوگر سے کوئی خدا واسطے کا بیر نہیں۔ اگر آج آنٹی شفیق ہماری گھر نہ آتیں تو ہم کبھی شوگر کا نام نہ لیتے۔

آنٹی شفیق جو ہماری والدہ گرامی کی منہ بولی ماں بنی ہیں۔ اور ایسی منہ بولی ماں جنہیں کبھی ہماری نانی بن کر کوئی تحفہ دینے کا خیال نہ آیا۔ خیر آنٹی شفیق اپنا بھاری بھر کم وجود سنبھالتی بہت مشکل سے لاونج کے دروازے تک پہنچیں۔ ہم نے بڑی مشکل سے آنٹی کو کھینچ کھانچ کے لاونج کا دروازہ عبور کروایا۔ وہ ہانپتی کانپتی وہیں صوفے پر ڈھیر ہو گئیں۔ ساتھ میں آنٹی کی ہائے وائے جاری و ساری تھی۔

”ہائے شوگر کھا گئی۔ نہیں تو میں پیدل سارا بازار پھرتی تھی۔ اب تو دو قدم نہیں چلا جاتا۔“ پھر بھی آنٹی پورا بازار گھوم کر آئیں تھیں۔

اتنے میں والدہ گرامی بھی آ گئیں۔ آنٹی سے چائے کا پوچھا۔ تو کہنے لگیں۔ نہیں مجھے چائے پسند نہیں اور کبھی پی لوں تو گھبراہٹ ہوتی ہے۔

”پھر ملک شیک بنا لیں؟“
”نہ نہ ہارٹ کا پرابلم بھی ہو گیا ہے۔ ملک شیک کے تو نزدیک بھی نہیں جانا۔
اچھا پھر جو آپ کھاتی پیتی ہیں وہ بتا دیں۔ ہم وہ بنا لیتے ہیں۔

آنٹی بڑی سوچ بچار کے بولیں۔
”بیٹا تسی رانی جوس منگوا لو“

ہم حیرت کے مارے کبھی آنٹی کی شکل دیکھیں اور کبھی والدہ کی۔ خیر گھر کے بچے بڑی مشکل راجہ رانی جوس کی دریافت کو نکلے۔ خدا خدا کر کے دو جوس ملے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ایک پیک سے گلاس بھر جائے۔ ہمارے لیے رانی جوس کے صرف دو تین گھونٹ بچے۔ آج سے پہلے ہم نے ایسا شوگر فری جوس نہیں پیا تھا۔ ہمیں فکر ہونے لگی کہیں ہمیں بھی شوگر نہ جائے۔ جو اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم بھی شوگر کے مارے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ہم چائے چینی کے بغیر نوش فرماتے ہیں۔ جو شوگر والوں کی پکی نشانی ہے۔ خیر آنٹی شفیق نے جوس ختم کیا تو کھانے کا پوچھا گیا۔ اس کے بعد کچھ مت پوچھیں۔ آنٹی نے اپنے پرہیزی کھانوں کی وہ تراکیب بتانا شروع کیں۔ کہ ہم نے دوبارہ کچھ کھانے پینے کا پوچھنے کی ہمت نہ کی۔

ہماری ہمت مریضان شوگر کے سامنے یوں ہی جواب دے جاتی ہے۔ ہم نے شوگر کے مریضوں کو سمجھنے کی بہت کوشش کی لیکن یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اگر کسی کی سمجھ میں ہوں تو ضرور بتائیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments