’ظالم اور شیطان صفت‘: سوتیلی ماں کے روایتی کردار میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ؟


سوتیلی ماں
دنیا کی معروف ثقافتوں میں سوتیلی ماں کو عموماً گھٹیا، غیر ذمہ دار، یہاں تک کہ ظالم شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے تاہم اس بات کے بہت ہی کم شواہد ہیں کہ سوتیلی ماں میں ایسی شیطانی خصوصیات ہوتی ہیں جو ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ سوتیلی ماں ایک شیطانی کردار کے طور پر کیوں مشہور ہے؟

خیالی دنیا سوتیلی ماؤں سے بھری پڑی ہے جس میں اسے ایک شیطان صفت کردار کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، یہ قاتل صفت ہوتی ہے اور بدصورت کے طور پر بھی بیان کی جاتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں ادب، لوک داستانوں اور افسانوں کی پروفیسر ماریا تاتار نے اپنی کتاب ’دا ہارڈ فیکٹس آف دا گریمز فیری ٹیلز‘ میں لکھا ہے کہ ’سنو وائٹ‘ کی کہانی میں سوتیلی ماں کے کردار کے بارے میں سوچیں تو فوراً حسد سے بھری سوتیلی ماں کا تصور ابھرتا ہے۔

ہینسل اور گریٹیل کی چڑیل، جو اپنے سوتیلے بچوں کو جنگل میں بھگا دیتی ہے، دونوں کا تعلق شیطانی صفات والی عورتوں کے اس طبقے سے ہے جس میں ’انسانی غذا، بعض اوقات گوشت اور خون ہوتی ہے یا اِن عورتوں کو اپنے ہی رشتہ داروں کے جگر اور دل کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‘

کم از کم ان ہولناک کرداروں کو بے حس اور پیار و محبت سے عاری کرداروں کے طور پیش کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر ڈزنی لینڈ کی 1950 میں سنڈریلا کی کہانی سے ماخوذ فلم میں سوتیلی ماں کے کردار لیڈی ٹریمین کو شیطانی عورت کے طور پر دکھایا گیا ہے جو اپنی سوتیلی بیٹی سے بہت ظالمانہ انداز میں گھر کے کام کراتی ہے، اور اپنے حقیقی بچوں کو اپنی سوتیلی بہن سے دور رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔

1961 کی فلم دی ’پیرنٹ ٹریپ‘ میں دو جڑواں بچوں کو دکھایا گیا ہے۔ جب ان کے والدین کی طلاق ہو جاتی ہے تو وہ نادانستہ طور پر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے والد کی خوفناک نئی منگیتر کے خلاف بغاوت کر کے اُس منگیتر کو ناکام بنا کر اپنے خاندان کو دوبارہ ملانے کے لیے فوج میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر ایک خوفناک فلم ’وِکڈ سٹیپ مدر‘ جو مزاحیہ عناصر سے بھری ہوئی تھی، جس نے پہلی بار 1989 میں دکھایا تھا کہ بیٹ ڈیوس نے جو کردار ادا کیا تھا وہ نہ صرف ایک روایتی سوتیلی ماں کا ہے بلکہ وہ واقعتاً  ایک علامتی چڑیل بھی ہے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آج سوتیلی ماؤں کے بارے میں کسی دوسرے خاندانی شخصیت کے مقابلے میں مثبت انداز میں بہت ہی کم سوچا جاتا ہے۔ صدیوں کے عرصے میں شیطانی سوتیلی ماؤں کے بارے میں لکھی گئی 900 سے زیادہ بین الاقوامی کہانیوں کی بدولت اور فلم سازوں کی طرف سے آن سکرین ماخوذ فلموں کے ایک لامتناہی سلسلے کی بدولت سوتیلی ماؤں کو اکثر کم پیاری، کم مہربان، خوش نہ رہنے والی اور خود پسند عورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور جو بہت ظالمانہ، غیر منصفانہ اور یہاں تک کہ نفرت انگیز کردار سمجھا جاتا ہے۔

سوتیلی ماؤں کے خلاف تعصب ہماری زبان اور سوچ کا بنیادی حصہ بن چکا ہے: ’سوتیلی کا انگریزی لفظ  ’step‘ پرانی انگریزی کے لفظ ’steop‘  سے نکلا، یہ لفظ نقصان اور محرومی کے احساس کا اظہار بن کر رہ گیا۔ یہاں تک کہ بول چال میں بھی کسی چیز کو کسی اور چیز کے استعاراتی ’سوتیلے بچے‘ کے طور پر بیان کرنا اس لفظ سے ایک کمتری کے احساس کو پیش کرتا ہے۔

اگرچہ ہر قسم  کے سوتیلے خاندانوں کو یقینی طور پر چیلنجوں اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان دقیانوسی تصورات کے کچھ عناصر کو تقویت دے سکتے ہیں لیکن بری سوتیلی ماں کی تصویر کشی کی حمایت کرنے کا کوئی حقیقی ثبوت نہیں۔

درحقیقت تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سوتیلی مائیں خاندانوں کے لیے منفرد طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں، وہ خاندان کو اکھٹا رکھنے میں بہت اہم کردار کے طور پر کام کرتی ہیں جو علیحدگی کے بعد خاندان کے اراکین کو ایک ساتھ رکھتی ہیں اور اصلی ماں سے محروم ہوجانے والے غم زدہ بچوں کو اضافی مدد فراہم کرتی ہیں۔

پھر یہ سخت خیالات کیوں برقرار رہتے ہیں اور جیسے جیسے سوتیلے خاندان دنیا بھر میں تیزی سے عام ہو رہے ہیں، کیا یہ استعارہ ایک دن غیر متعلق ہو جائے گا؟

ظالم سوتیلی ماں کا تصور

شیطانی صفات والی ظالم سوتیلی ماں کا دقیانوسی تصور ہزاروں سال سے دنیا بھر میں پریوں کی کہانیوں اور لوک داستانوں میں موجود ہے۔ کچھ کہانیاں رومن دور سے چلی آرہی ہیں۔ اس کے حوالے بائبل میں بھی مل سکتے ہیں:

’سارہ، جو ابراہام کے بیٹے کو جنم دیتی ہے، دوسری عورتوں سے پیدا ہونے اپنے دوسرے بچوں کو مرنے کے لیے باہر پھینک دیتی ہے تاکہ خاندان کا کوئی اور وارث نہ ہو۔‘

ماریا تاتار بتاتی ہیں کہ جدید فلم اور ادب پر سوتیلی ماں کے منفی کردار کو زیادہ تر معروف کرداروں نے 1812 میں مؤثر بنایا جب جرمن بھائی جیکب اور ولہیلم گریم نے پہلی بار اپنا مجموعہ ’بچے اور گھریلو کہانیاں‘ شائع کیا۔

مصنفین نے موجودہ زبانی کہانیوں کے ٹکڑوں کا استعمال کیا اور دوسروں کو نئی داستانوں کی صورت میں لکھا، جس کا مجموعہ ہینسل اینڈ گریٹیل، سنڈریلا اور سنو وائٹ جیسی پریوں کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

اگرچہ یہ کردار افسانوی تھا لیکن سوتیلی ماؤں پر توجہ 19ویں صدی کے معاشرے کے بارے میں کچھ سچائیوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف میسوری میں ہیومن ڈویلپمنٹ کے ایمیریٹس پروفیسر، لارنس ظاہرہ، جنھوں نے کئی دہائیوں سے سوتیلے خاندانوں کا مطالعہ کیا، کہتے ہیں کہ ’جب یہ پریوں کی کہانیاں تخلیق کی گئیں، عمریں غیر معمولی طور پر کم تھیں‘۔

خواتین اکثر ولادت کے دوران مر جاتی ہیں، بچوں کو صرف باپ کی دیکھ بھال میں چھوڑ دیتی ہیں۔ پریوں کی کہانیوں کے صفحات میں نظر آنے والی بُری سوتیلی ماؤں نے احتیاطی خاندانی مشورے پیش کیے: باپوں کو اپنے بچوں کی حفاظت اور مدد کرنی چاہیے اور سوتیلی ماؤں کو سوتیلے بچوں کے ذریعے صحیح کام کرنا چاہیے – ورنہ بُری چیزیں رونما ہوں گی۔

ماریا تاتار کا کہنا ہے کہ ایسی کہانیوں نے قارئین کو ممنوعہ جذبات پر کارروائی کرنے کے لیے محفوظ، علاج کے طریقے بھی پیش کیے ہیں، جیسے زچگی کے غصے اور ناراضگی وغیرہ۔

1800 کی دہائی میں، مردوں نے ممکنہ طور پر کم عمر خواتین سے دوبارہ شادی کی، جو اپنی سوتیلی بیٹیوں کے قریب ہو سکتی تھیں۔

تاتار کہتی ہیں کہ ان حالات میں تمام قسم کے ’عجیب، شدید‘ احساسات پیدا ہو سکتے ہیں – جیسے باپ کی توجہ پر دشمنی، ’خوبصورتی کے مقابلے‘ جیسا کہ ہم سنو وائٹ میں دیکھتے ہیں اور ’بہت جدوجہد، تنازعہ اور غصے کا پیدا ہونا۔‘

صدیوں میں جب سے گریم برادران نے اپنی پریوں کی کہانیاں شائع کیں، شیطانی سوتیلی ماں کو کہانیوں سے حقیقی زندگی میں منتقل کیا گیا۔ یہاں تک کہ جب 20ویں صدی کے آخر میں طلاق، دوبارہ شادی اور سوتیلے خاندانوں کی تخلیق زیادہ عام ہو گئی تو مختلف ماہرینِ نفسیات نے حقیقت اور افسانے کو دھندلا دینے میں مدد کی۔

سوتیلے خاندان کی حرکیات میں مہارت رکھنے والی برطانیہ میں مقیم ماہر نفسیات لیزا ڈوڈسن، جو ممکنہ طور پر بعد کے کیمپ کو بد سلوکی کے زیادہ خطرے میں ڈالتی ہیں، کہتی ہیں کہ کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ سوتیلے بچوں سے پہلے انسانوں کو اپنے حقیقی بچوں کی حفاظت کے لیے حیاتیاتی طور پر پروگرام کیا گیا ہے۔

1970 کی دہائی میں محققین نے سوتیلی ماں کے ساتھ بدسلوکی کی مثالوں کے لیے ایک نام پیش کیا: سنڈریلا کہانی کا اثر۔ اس کے بعد سے مطالعات نے انکشاف کیا کہ سوتیلے والدین حقیقی والدین کے مقابلے میں فی کس زیادہ شرح پر بچوں کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تشدد کے تقریباً تمام واقعات میں سوتیلے باپ شامل ہوتے ہیں، سوتیلی مائیں نہیں۔

سوتیلی ماں

دیگر مطالعات نے شاید غیر ارادی طور پر بھی اس افسانوی شیطانی سوتیلی ماں یا ان جیسی خرافات کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

1980 کی دہائی کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سوتیلی مائیں سوتیلے بچوں کے مقابلے میں اپنے حقیقی بچوں کو زیادہ قریب محسوس کرتی ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوتیلی مائیں ظالم ہیں۔

گنونگ کہتے ہیں کہ یہ خیالات انھی وجوہات کی بنا پر فروغ پاتے رہے جو انھوں نے صدیوں پہلے دیکھے تھے، یعنی ایک مرکزی  اور مقدس حیاتیاتی والدین اور بچوں کے تعلقات کے ارد گرد ثقافتی طور پر غالب نظریات۔

1990 کی دہائی اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں، ڈزنی کی کلاسیکی فلموں کی جھلکیاں، جیسے کہ 1997 کی فلم سنو وائٹ: اے ٹیل آف ٹیرر اور 1998 کی فلم ’ایور آفٹر‘ جو سنڈریلا پر مبنی ہے، نے سوتیلے خاندان کو برا بھلا کہنا جاری رکھا۔

ایسا لگتا تھا کہ یہ خیال عوامی نفسیات میں مضبوطی سے پھنس گیا تھا: سوتیلی مائیں غافل، دیکھ بھال نہ کرنے والی اور بدترین قاتل عورتیس سمجھی گئیں۔

’ظالم سوتیلی مائیں ڈیٹا میں ظاہر نہیں ہوتیں‘

ماں کے بارے میں منفی استعاروں کی طاقت کے باوجود اس بات کے بہت کم ثبوت موجود ہیں کہ سوتیلی مائیں بے رحم عورتیں ہیں اور دیگر شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سوتلی مائیں ایسا نہیں کرتی ہیں۔

گانونگ، جنھوں نے اس موضوع پر تقریباً 3,000 تحقیقی رپورٹس پڑھی ہیں اور سوتیلے خاندان کے اراکین سے اس سے زیادہ بات کی ہے جتنا وہ گن سکتا ہے، کہتے ہیں کہ ’سوتیلی ماؤں کی اکثریت اپنے سوتیلے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے۔‘

ٹوڈ جینسن، امریکہ کی شمالی کیرولینا یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر سے اتفاق کرتے ہیں۔ انھوں نے سوتیلے والدین اور ان کے سوتیلے بچوں کے درمیان رشتہ داری کے نمونوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’شیطانی صفات والی سوتیلی مائیں اعداد و شمار میں ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔‘

295 سوتیلے بچوں کے 2021 کے سروے میں جینسن نے پایا کہ زیادہ تر بچوں کے اپنی سوتیلی ماؤں کے ساتھ مثبت تعلقات تھے۔

شرکا سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی سوتیلی ماں سے کتنا قریب محسوس کرتے ہیں، ان کے خیال میں ان کی سوتیلی ماں ان کے بارے میں کتنا خیال رکھتی ہے، کیا وہ گرمجوشی اور محبت کرنے والی تھی اور وہ مواصلات اور مجموعی طور پر تعلقات سے کتنے مطمئن ہیں۔

یہ خاص طور پر طلاق کے بعد سچ ہے، کینیڈین کونسلر کارا زہریچک کہتی ہیں، جنھوں نے سوتیلی ماؤں کے کردار کا مطالعہ کیا ہے۔ طلاق کے بعد بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزار کر، کارا زہریچک نے پایا کہ سوتیلی مائیں انھیں دوبارہ خاندان کا حصہ محسوس کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔

تحقیق نے متعدد بالغ رشتوں کے ساتھ بڑھنے کو بھی مختلف مثبت نتائج سے جوڑا ہے۔ امریکہ میں نویں جماعت کے تقریباً 1,000 طالب علموں کے ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ حقیقی والدین سے الگ اچھے رول ماڈل ہونے سے جذباتی لچک پیدا ہوتی ہے، تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے اور منفی خاندانی حرکیات کے اثرات کو بے اثر کیا جاتا ہے۔ سوتیلی مائیں بچوں کے لیے اضافی مدد کا وہی احساس پیش کر سکتی ہیں۔

ڈوڈسن کا کہنا ہے کہ ’اضافی لوگوں کا ہونا جو آپ سے پیار کرتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ہمیشہ مثبت ہوتا ہے۔‘

اس کا مطلب یہ نہیں کہ سوتیلے خاندانوں کو انوکھے چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جن میں سے کچھ ان کا منفی مضحکہ خیز تاثر بناتے ہیں۔

جینسن کہتے ہیں کہ ’اگرچہ بے حد مبالغہ آرائی ہے لیکن یہ دقیانوسی تصورات بہرحال اس تناؤ کے بارے میں کچھ نہ کچھ آگاہی دیتے ہیں جن سے سوتیلے خاندانوں کو نمٹنا پڑتا ہے۔ اہم بات، ہم اپنا وقت اور توانائی کہاں صرف کرتے ہیں؟ ابتدائی پریوں کی بہت سی کہانیوں میں سے ایک سوتیلی ماں اور اس کے سوتیلے بچوں کے درمیان وسائل اور توجہ کے لیے ایک طرح کی جنگ تھی۔‘

جینسن کا کہنا ہے کہ یہ ’بہت ہی حقیقی چیلنجز‘ ہیں جن کے نتیجے میں حسد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔

گریمز کے دور میں زیادہ تر سوتیلے خاندان ایک حقیقی یا جنم دینے والی ماں کی موت کے بعد بنتے تھے۔ جینسن کا کہنا ہے کہ ان دنوں، یہ زیادہ امکان ہے کہ طلاق کے بعد ایک نیا سوتیلا باپ یا سوتیلی ماں خاندان میں داخل ہوتی ہے۔

جینسن کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے حیاتیاتی والدین کو ’تبدیل ہونے کا احساس ہو‘، لہذا وہ اپنی ماں کی طرف سے حقیقی یا سمجھی گئی ہدایات کے تحت اپنی سوتیلی ماں سے رابطہ قائم کرنے کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ اگر حیاتیاتی والدین کے درمیان تنازعہ ہو تو یہ سبب گہرا ہو سکتا ہے۔

سوتیلی ماں

یہ صرف بچے ہی نہیں، جنھیں اپنی نئی خاندانی صورتحال سے مطابقت پیدا کرنے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔ سوتیلی ماؤں کے لیے بھی زندگی مشکل ہو سکتی ہے، جو مسلسل بدکار یا بُرے ہونے کے خوف میں جی رہی ہیں۔

نیوزی لینڈ میں رہنے والی 134 سوتیلی ماؤں کے 2018 کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ 22 فیصد نے اپنے رویے کو فعال طور پر تبدیل کیا تاکہ ان کے بارے میں منفی باتیں نہ سوچی جائیں۔

اس کے متعدد نتائج ہو سکتے ہیں۔ ڈوڈسن کہتے ہیں کہ ’سوتیلی مائیں ایک سپر سوتیلی ماں بننے کے لیے بہت کوشش کرتی ہیں، ج ناقابل برداشت ہے اور ہو سکتا ہے ان بچوں کے لیے ناگوار ہو جو کسی نئی بالغ شخصیت کی طرف سے ضرورت سے زیادہ والدین ہونے سے ناراض ہوں۔

بالآخر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سوتیلی مائیں ھولناک نہیں ہوتیں ہیں، جیسا کہ کتابیں اور فلمیں ہمیں یقین دلاتی ہیں۔ اگرچہ خاندان میں ان کا سمجھا جانے والا کردار بہت سے عوامل پر منحصر ہوتا ہے – جیسے کہ وہ جس قربت والی ثقافت میں داخل ہو رہے ہیں، موجودہ حیاتیاتی ماں کا رویہ اور سوتیلے بچے دیکھ بھال اور نگرانی کے معاملے میں کیا چاہتے ہیں یا اس کی ضرورت ہو سکتی ہے – موجودہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ تر خاندانوں پر اس سوتیلے رشتے کے مثبت اثرات کے شواہد زیادہ ہیں۔

گانونگ کہتے ہیں کہ ’سوتیلی خاندانی زندگی مشکل ہے، لیکن بہت سے افراد سوتیلی ماں کے کردار میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بہت بُری بات ہے کہ انہیں اپنے بارے میں ان مستقل خرافات کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے۔‘

روایتی تصور میں تبدیلی کے آثار؟

آج بھی ایسا لگتا ہے کہ سوتیلی ماؤں کو اب بھی صدیوں سے قائم دقیانوسی تصورات میں جڑے کچھ مشکوک تصورات کا سامنا ہے۔

گانونگ اکثر اپنے کالج کے طالب علموں کے ساتھ ورڈ ایسوسی ایشن کی مشق کرتے ہیں۔ سوتیلی ماں کا لفظ ’شیطانی عورت، یا مطلبی یا بے پرواہ‘ جیسی صفتوں سے ملایا جاتا ہے۔

کئی سوتیلی مائیں جن سے گانونگ نے اپنی دہائیوں کی تحقیق کے دوران بات کی ہے وہ بھی ان کہانیوں کی وجہ سے اس الزام کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ دقیانوسی تصور اب بھی موجود ہے اور ممکنہ طور پر نقصان دہ ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوتیلے خاندان زیادہ عام ہوتے جا رہے ہیں اور یہ بھی وقت تبدیل ہونا کا اشارہ ہے۔

سوتیلی ماں

امریکہ میں طلاق کی بلند شرح کا مطلب ہے کہ تقریباً 40 فیصد لوگوں کا 2011 تک کم از کم ایک سوتیلے سے رشتہ تھا۔ اسی سال برطانیہ میں، 10 فیصد انحصار شدہ بچے سوتیلے خاندان میں رہتے تھے - حالانکہ ڈوڈسن کو شبہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی کم اندازہ ہے۔

کینیڈا کی مردم شماری کا ڈیٹا سنہ 2016 سے ملتی جلتی تصویر پیش کرتا ہے (حالانکہ اندازوں میں 14 سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو شمار نہیں کیا جاتا)۔ جیسے جیسے سوتیلے خاندان تیزی سے پھیل رہے ہیں، سوتیلی ماؤں کے ارد گرد منفی دقیانوسی تصورات میں تبدیلی پیدا ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔

جینسن کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں اس میں کوئی سوال نہیں کہ سوتیلے خاندانوں کے بارے میں حقیقی ٹھوس بدنامی کم ہو رہی ہے، معاشرے کے ایک بڑے حصے میں کیونکہ یہ منفی تصورات بہرحال ابھی بھی بہت عام ہیں۔

جدید میڈیا اب سوتیلی ماؤں کی مزید متنوع کہانیاں بھی سناتا ہے، 1998 کی اہم فلم ’سٹیپ موم‘ (Stepmom) بھی ایک ایسی ہی فلم تھی۔ ٹیلی ویژن سیریز ماڈرن فیملی میں گلوریا کے اپنے دو ہم عمر سوتیلے بچوں کے ساتھ آرام دہ اور خوشگوار تعلقات کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے اور ایک حاملہ جیونو کو 2007 کی نامور فلم میں اپنی سوتیلی ماں سے پیار بھرا تعاون ملتا ہے۔

یہاں تک کہ ڈزنی بھی ایک دن تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ تیزی سے متنوع، مثبت خواتین کے تعلقات کو نمایاں کر رہا ہے۔ ’فروزن‘ فلم میں بہن بھائیوں کے بندھن یا ’موانا‘ فلم میں میں پیار کرنے والی دادی کے بارے میں سوچیے اور 2020 میں، ایک change.org پٹیشن نے ڈزنی سے لابنگ کی کہ وہ آخر کار ایک مہربان سوتیلی ماں کو نمایاں کرے۔

ماریا تاتار امید کرتی ہیں کہ ہم سوتیلی ماں کے سکرپٹ کو اس طرح سے دوبارہ لکھنا جاری رکھ سکتے ہیں جو آج کے معاشرے کی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے۔

ماریہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ اگر یہ سب کچھ تاریخی کہانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتی کہ ہمیں ممکنہ طور پر نقصان دہ استعاروں کو تقویت دینا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کہانی میں ارتقا ہو رہا ہے۔ ہمیں اس کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ لوک داستانیں ہمیں دوبارہ سے تخلیق کرنی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments