بوسنیا کی چشم دید کیانی۔ 21۔


جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ابھی تک ہمارے ساتھ چار خواتین ترجمان کے طور پر کام کرتی تھیں، سیکا، لیپا، لیجا اور سلاجہ۔ اگست کے آخر میں ترجمانوں کے اس ٹولے میں چار خواتین کا مزید اضافہ ہوا۔ یہ چار نئی ترجمان لوینیا، میرا، ویسنا اور ساشا تھیں۔ لوینیا کو چھوڑ کر باقی تینوں خواتین سرب تھیں اور اس طرح اب سرب ترجمانوں کی کل تعداد 7 ہو گئی تھی جبکہ لوینیا اکلوتی کروایٹ ترجمان تھی۔

وہ ایک نوجوان اور قد آور لڑکی تھی۔ شکل و صورت کی بھی اچھی تھی۔ اس کا تعلق سٹولک سے تھا اور مقامی پولیس اسٹیشن کے عقب میں بریگاوا دریا کے دہانے پر واقع ایک پانچ منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر واقع کشادہ فلیٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھی۔ لوینیا کے والدین اپنی اپنی جگہ نہایت پر کشش شخصیتوں کے مالک تھے۔ اس کی والدہ تو انتہا درجے کی عمر چور تھی۔ اسے دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ تین جوان بچوں کی ماں ہے۔ لوینیا کو میں اکثر کہا کرتا تھا کہ جس خاتون کو تم اپنی ماں بتاتی ہو میں زیادہ سے زیادہ اسے تمہاری بڑی بہن تو مان سکتا ہوں لیکن اس قدر جوان خاتون کو تمہاری ماں تسلیم کرنا مشکل ہے۔ لوینیا کی ماں پر اس تعریف کا خوب اثر ہوتا اور وہ بڑے مہذب انداز سے اظہار تشکر کرتی۔

لوینیا کا تعلق سٹولک کے ایک خوشحال گھرانے سے تھا۔ وہ یوں تو ایک کھلنڈری سی لڑکی تھی لیکن اس کا چہرہ اداکاراؤں کی طرح پر تاثر تھا۔ وہ اجنبی زبان سیکھنے کی بڑی اچھی اہلیت رکھتی تھی۔ ہمارے اسٹیشن پر بعد میں دو اردنی مانیٹر مراد اور سلطان آئے تھے۔ جن سے اس نے ایک عربی فقرہ سیکھ لیا تھا جو اکثر اس کی زبان پر ہوتا تھا۔ ”انا احسن الترجمان“ اسی طرح اس نے ایک اردو فقرہ ”دروازہ بند کرو“ نہ معلوم کہاں سے سیکھ لیا تھا۔ اقبال یا میں جب بھی گاڑی یا دفتر کا دروازہ بند کرنا بھول جاتے تو وہ فوراً اپنی اردو دانی کا مظاہرہ کرتی اور ساتھ ہی ہمیں داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے سر مٹکاتی۔

بوڑھی ترجمان خواتین کو اس سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ جب کہ تمام نوجوان خواتین ترجمانوں سے اس کے تعلقات دوستانہ تھے۔ خاص طور پر ساشکا سے اس کی دوستی بہت گہری تھی۔ یہ ایک عجیب معمہ تھا کہ وہ معاشرہ جہاں نسلی تفریق ہر معاشرتی رویے کا تعین کرتی تھی وہاں ایک کروایٹ اور ایک سرب لڑکی اتنی گہری سہیلیاں تھیں۔ یہ دوستی اس امید کی کرن تھی کہ بوسنیا کے مخلوط مستقبل کا خواب کچھ ایسا غیر حقیقت پسندانہ بھی نہیں۔

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

”میں وہ ہوں جسے موت کا نہیں بلکہ زندگی کا خوف رہتا ہے کہ نہ معلوم وہ کب ایک بار پھر اپنا انداز بدل لے“ یہ وہ الفاظ تھے جو میرا اکثر دہراتی تھی۔ وہ کوئی چالیس سال کی دراز قد اور سڈول جسم والی ایک قبول صورت خاتون تھی۔ جنگ سے قبل وہ چپلینا میں رہتی تھی اور موسطار میں ایک ڈیوٹی فری شاپ میں انتظامی عہدے پر کام کرتی تھی۔ چپلینا اگرچہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا لیکن شہری زندگی کے تمام رنگ و روپ اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔

جنگ نے میرا کی بھرپور زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ اسے بھی کروایٹ اکثریتی قصبے چپلینا کو چھوڑنا پڑا اور ٹرے بینیا میں مہاجر کی حیثیت سے سکونت اختیار کرنا پڑی۔ اس کے خاندان کو جو اس کے بوڑھے والدین، خاوند اور دو بیٹیوں پر مشتمل تھا، سر چھپانے کی جگہ تو مل گئی لیکن ذریعہ معاش کی کوئی صورت نہ بن پائی۔ اس کا خاوند کوئی ایسا ذمہ دار شخص نہیں تھا جو اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کرتا۔ ٹرے بینیا میں سرب مہاجروں کی تعداد مقامی لوگوں کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی جن کی اکثریت کا ذریعہ معاش مونٹی نیگرو سے سمگل شدہ اشیاء یہاں لا کر بیچنا تھا۔

یوں کسٹمز اور سرحدی پولیس کے عملے کے ہاتھوں طرح طرح کی ذلتیں اٹھانا پڑتی تھیں۔ لیکن انھیں برداشت کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ میرا کو بھی یہی کام اپنانا پڑا۔ اس دوران اس پر ایک کسٹمز افسر عاشق ہو گیا۔ میرا کے بقول اس نے بہ امر مجبوری نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے گریز نہ کیا۔ کوئی ایک سال تک میرا کا ذریعہ معاش یہی دھندا، بشکریہ کاروبار عشق رہا۔ یہاں تک کہ اسے ترجمان کی نوکری مل گئی اور اس کے مالی حالات بہتر ہونے لگے۔

وہ جوانی میں باسکٹ بال کی کھلاڑی رہی تھی۔ اس کے بدن کی بناوٹ میں کھلاڑیوں کے جسمانی خد و خال اب بھی نمایاں تھے۔ وہ ڈھلتی عمر کے مانیٹروں کی پسندیدہ ترجمان تھی۔ ان پرستاروں میں بولک تو شامل تھا ہی کیوں کہ اس کے نزدیک خواتین کا پرستار ہونے میں رنگ، عمر یا شکل کی تمیز سراسر بدذوقی کی دلیل تھی، اس صف میں جو دوسرے مانیٹر شامل تھے ان میں ژاں ژیک، المعروف جی جی کا نام قابل ذکر تھا۔ بعد میں اس صف میں جس پرستار کا اضافہ ہوا ان میں یہ ناچیز بھی تھا۔

فلپ کے بقول وہ مکمل طور پر ایک نفسیاتی کیس تھی۔ اگر خدا لگتی کہی جائے تو فلپ کی رائے کچھ ایسی مبالغہ آمیز بھی نہ تھی۔ اس کی بڑی وجہ اس کی زندگی پر جنگ کا بہت برے انداز میں اثر انداز ہونا تھا جس سے وہ سمجھوتہ نہیں کر پائی تھی۔

ہر ماہ ترجمانوں کا ڈیوٹی روسٹر بنانا، بحیثیت ایڈمن افسر میری ذمہ داری تھی۔ یہ روسٹر ہر ماہ کی 20 تا 30 تاریخ کے درمیان بنایا جاتا تھا۔ ادھر نصف ماہ بمشکل گزرتا تھا کہ اس کے ذہن پر اگلا ڈیوٹی روسٹر سوار ہو جاتا تھا۔ اس کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ اس کی تمام ڈیوٹیاں اس کی خواہش کے مطابق لگائی جائیں۔ اس سلسلے میں وہ کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے پر ہرگز تیار نہیں ہوتی تھی۔ میں پوری کوشش کے باوجود کبھی بھی مکمل طور پر اس کی فرمائش پوری نہیں کر پاتا تھا۔ کیوں کہ مجھے باقی ترجمانوں کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا تھا۔ اس کا نتیجہ اس کی ناراضگی کی شکل میں سامنے آتا تھا۔ میں تنگ آ کر کبھی اسے یہ طعنہ دے دیا کرتا تھا کہ وہ آج بھی ایسا سمجھتی ہے کہ جیسے وہ ڈیوٹی فری شاپ کی عہدے دار ہو اور میں اس کا ماتحت، جب کہ حقیقت ایسی نہیں۔

یہ طعنہ اسے بہت ناگوار گزرتا تھا۔ اس کے بعد دو تین دنوں تک جب بھی میرا اور اس کا آمنا سامنا ہوتا تو وہ مجھ سے بایاں ہاتھ ملاتی تھی۔ اس کی یہ غیر شعوری حرکت اس بات کی گواہ ہوتی تھی کہ وہ مجھ سے ناراض ہے۔ میں اگر اسے منانے کی کوشش کرتا تو وہ کچھ اور ہی اکڑ جاتی، لہٰذا میں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی اور اس کی ناراضگی کا نوٹس لینا چھوڑ دیا۔ یہ حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وہ ایک آدھ دن تو مجھ سے بایاں ہاتھ ہی ملاتی۔ پھر اپنی خو چھوڑتے ہوئے وضع بدل لیتی اور آخر پوچھ بیٹھتی۔

ع۔ ہم سے سرگراں کیوں ہو

نئی خواتین ترجمانوں میں تیسری ترجمان خاتون کا نام ویسنا (Vesna) تھا۔ بلحاظ عمر، وہ تیس کی دہائی میں داخل ہو چکی تھی لیکن ابھی تک غیر شادی شدہ تھی۔ اس کا جسم کچھ ایسا بے ڈول تھا کہ سلمنگ سینٹرز کے اشتہارات میں پہلے کی کیفیت جس تصویر کے ذریعے واضح کی جاتی ہے وہ اس کے لیے ازحد موزوں تھی۔ اس کی عادات دیکھ کر مجھے اکثر اپنے گاؤں کے قلندر کاکا کی لڑکی یاد آ جاتی تھی۔ اس کا اصل نام تو نا معلوم کیا تھا لیکن سب اسے نکی کہہ کر پکارتے تھے۔

نکی ناک نقشے کی جتنی ماٹھی تھی طبیعت کی اتنی ہی تیز۔ وہ بقول پنجابی شاعر، جدھر سے گزرتی ”کھے“ کے ہی گزرتی تھی۔ لہٰذا ہر کوئی اس سے پرے رہنے کو ہی ترجیح دیتا تھا۔ دوسروں کی اس احتیاط کے باوجود وہ ان سے جھگڑا مول لینے کا کوئی نہ کوئی بہانہ پھر بھی تلاش کر لیتی تھی۔ طبعاً ویسنا قلندر کاکا کی نکی سے کچھ ایسی مختلف نہ تھی۔ یہ قدر مشترک مجھے قیوم کے اس قول کی یاد دلاتی تھی کہ جہلا رنگ و نسل کی قیود سے آزاد ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو، ان کا ایک اپنا طرز زندگی ہوتا ہے۔

ادھر رازداری کا اقرار لیتے ہوئے بولک کئی مرتبہ یہ خیال ظاہر کر چکا تھا کہ ویسنا کے کردار میں خلل کا اصل سبب اس کا غیر شادی شدہ ہونا ہے۔ پھر اس خیال کا اظہار بھی کرتا تھا کہ بہ قائمی حوش و حواس کسی ”بیمار محبت“ کو ویسنا کا چارہ گر بننا بھی مشکل ہی ہے۔

چوتھی نئی اور آخری ترجمان ساشکا تھی۔ وہ سڈول جسم، میانہ قد اور تیکھے نقوش والی ایک نوجوان لڑکی تھی اس کا شمار ان لڑکیوں میں ہوتا تھا جنہیں بقول شاعر خدا فرصت میں بناتا ہے یا پھر بنا کے مسکرا دیتا ہے۔ اس کی شکل کی بات ہو یا جسمانی خد و خال کی، اقبال مجھے کہا کرتا تھا کہ کڑی میں بندے کے ایمان کو متزلزل کرنے کے تمام اوصاف بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہ الگ بات کہ یہاں اگر بندے سے مراد راقم تھا تو اس کا ایمان تو ساشکا ہی کیا دوسری لڑکیوں کے حوالے سے بھی ہر لمحہ متزلزل رہنے کو بے چین رہتا تھا۔ ایک پارٹی میں وہ کچھ ایسی بن سنور کر آئی کہ میں نے اقبال سے کہا

احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانے ”کپاس کا پھول“ میں ایک سردار جی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے ایک دن بھری چوپال میں یہ کہا تھا کہ اگر مولوی وارث علی اسی طرح مسحورکن آواز میں اذان دیتا رہا تو واہ گرو کی قسم میں ایک دن مسلمان ہو جاؤں گا۔ مجھے سردار جی کا تو پتہ نہیں کہ وہ مسلمان ہوا کہ نہیں لیکن اگر ساشکا یونہی بن ٹھن کر سامنے آتی رہی تو میں کافر ضرور ہو جاؤں گا

اس ہر لمحہ مائل بہ کفر مسلمان کو حسن اپنی چھوٹی اور بعض اوقات موٹی خامیوں کے ساتھ اکثر دیوانہ بنا دیتا تھا کیوں کہ اس خطے میں ساشکا کے ہم سروں کی کوئی ایسی کمی نہ تھی۔ یوں جگہ جگہ شکل کی بات ہو تو بقول میؔر ہر شکل تصویر تھی اور خطوط پیکر کا معاملہ ہو تو بقول قاسمی اپنی کوتاہی فن یاد آنے کا مقام تھا۔ اس طرح کی صورت حال میں مجھے اقبال کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آتا تھا۔ شروع شروع میں جب ٹی وی اس کے گاؤں میں آیا تو ایک شام حجرے میں بیٹھے ہوئے ناظرین میں سے ایک شخص بحر و بر خان نے ڈرامے کے نسوانی کرداروں کو دیکھ کر کہا۔

یار اگر اس طرح کی عورتیں حقیقی طور پر کہیں پائی جاتی ہیں تو پھر ہم لوگ تو گائے بھینسوں کے ساتھ ہی گزارہ کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments