اعتراف جرم کافی ہے


جنرل باجوہ کے آخری خطاب کے بعد ہم جیسے سول سپر میسی کے خواہش مندوں اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے دعویداروں کو دستاویزی ثبوت مل گیا ہے۔ یہ بات پہلے بھی بچہ بچہ جانتا تھا کہ پاکستان میں اقتدار ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہی ہے کبھی کبھی وہ سیاست دانوں کو شریک اقتدار کر لیتی ہے۔ مگر نہ اسٹیبلشمنٹ اس بات کو مانتی تھی اور نہ شریک اقتدار سیاسی قوتیں۔ بقول شاعر

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

اگرچہ جنرل باجوہ سے پہلے بھی جنرل حمید گل مرحوم سمیت ایک آدھ جرنیل نے افغان وار سمیت سیاست میں مداخلت کو تسلیم کیا تھا مگر ایک تو یہ کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد تھا دوسری بات یہ کہ وہ اس پر ندامت کی بجائے فخر کرتے تھے۔ جنرل باجوہ وہ پہلے فور سٹار جرنل ہے جس نے سروس میں رہتے ہوئے پالیسی بیان کے طور پر نہ صرف سیاست میں مداخلت کا اعتراف کیا بلکہ اس کو غلط کہا اور آئندہ کے لئے بطور ادارہ (فوج) اس قسم کی حرکتوں سے توبہ تائب ہونے کا یقین دلایا۔

اگرچہ ستر سالہ تاریخ کو مد نظر رکھ کر اس یقین دہانی پر یقین کرنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ گفتار کو کردار سے ثابت کرنا پڑتا ہے اور قول کو فعل میں بدلنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے لیکن فوج جیسے منظم ادارے کے لئے اپنے قول کو فعل بنانے اور گفتار کی بجائے کردار کا غازی بننا کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں۔ کیونکہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے اور کوئی پاگل ہی ببانگ دہل آئین کی مخالفت کر سکتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے کچھ آئیڈیلسٹ اور انتہا پسند قسم کے دانشور اور سیاست دان تقاضا کر رہے ہیں کہ اس ستر سالہ نقصان کا حساب کون دے گا؟ جو لوگ حقیقت کی بجائے خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں وہ کچھ بھی مطالبہ کر سکتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ لوگ دودھ کے مجنون ہے آپ لوگوں نے یہاں پر کوئی انقلاب برپا نہیں کیا ہے جو آپ ستر سال کے حسابات مانگنے اور مردہ آمروں کو سزا دلوانے کے شوقین بن گئے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ وہ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ Room was not built in a day، اس لئے جو لوگ آمروں کو سزا دلوانے اور ستر سالہ احتساب کے خواب دیکھتے ہیں پہلے انہیں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ تاکہ آمروں کی خواہش اور پشت پناہی سے ان اداروں کے خلاف کیے گئے سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔

میں نے اس سے ملتا جلتا ایک کالم مارچ دو ہزار سولہ میں اس وقت لکھا تھا جب پرویز مشرف نے جلاوطنی اختیار کی اور ہمارے سول سپر میسی کے خودساختہ ٹھیکیدار انکرز اور سیاست دان دن رات ان کو واپس لانے اور سزا دلوانے کی رٹ لگا رہے تھے۔ روزنامہ اوصاف میں شائع ہونے والے میرے کالم کا موضوع تھا (اور بھی غم ہے زمانے میں مشرف کے سوا) ۔ مگر نقار خانے میں طوطے کی آواز کون سنتا ہے کسی نے نہیں سنی اور نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ پرویز مشرف کو واپس لانے اور سزا دلوانے کے شوق میں نواز شریف حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھا اور سیٹھ وقار زندگی سے۔

اگر ہم بحیثیت قوم جمہوری انداز میں تمام اداروں سمیت آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں تاریخ میں خود کو پھنسانا نہیں بلکہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انتقام کے طریقوں پر غور کرنے والوں کے زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ اگر فوج اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ سیاست میں مداخلت کر کے اس نے غلط کیا ہے اور وہ بحیثیت ادارہ آئندہ ایسا نہیں کرے گی۔ تو ہمیں خوش دلی کے ساتھ اس معذرت اور اعتراف جرم کو قبول کر کے درگزر سے کام لینا چاہیے۔

اگر وہ اپنے ہائبرڈ نظام اور پراجیکٹ عمران خان کی ناکامی کا اعتراف کرتی ہے تو ہمیں اپنی تمام تر قوت اس پراجیکٹ کی ناکامی سے ہونے والے نقصانات کے ازالے پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اگر وہ لوگ اپنے کیے کا کفارہ ادا کرنے کے لئے اس پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے میں مدد دے سکتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔

اور آخر میں ایک بات اور، کہ فوج کے لئے نیوٹرل کے لفظ کو تو عمران خان نے گالی بنا دیا۔ اسے مختلف القابات سے نوازا، مگر حقیقت یہ ہے کہ فوج سول حکومت کا ذیلی ادارہ ہے حکومت جب چاہیے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کو اندرونی یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے اس لئے گزارش ہے کہ فوج کے تمام جوان و افسران اپنے حلف کی پاسداری میں سیاست، اقتدار، شہرت اور کاروبار سے کنارہ کش ہو کر ملک و قوم کی خدمت کیجئے۔ کیونکہ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments