ناکام لانگ مارچ: کپتان استعفے لینے گیا اپنے استعفوں کا اعلان کر دیا


منیر نیازی نے کیا خوب کہا ؂کج شہر دے لوگ وی ظالم سن۔ کج سانوں مرن دا شوق وی سی۔ سوال ہے عمران خان کو کس نے اسلام آباد پر چڑھائی کی راہ دکھائی تھی؟ لاہور سے اسلام آباد پہنچتے مہینہ لگ گیا پھر سفر کے دوران کچھ ایسے زخم کھائے کہ زمان پارک کے مکین بن گئے بالآخر پی ٹی آئی کا نام نہاد لانگ مارچ ٹائیں ٹائیں فش۔ ہو گیا کپتان شہباز شریف سے استعفاٰ لینے آیا تھا لیکن اپنے استعفوں کا اعلان کر گیا۔ عمران خان نے پچھلے 6، 7 ماہ سے جو ہیجان کی کیفیت پیدا کر رکھی تھی اس انجام افسوس ناک اور بڑی حد تک سیاسی موت سے تعبیر کیا جا سکتا۔

عمران خان کی کمان میں لانگ مارچ آخری تیر تھا جو صحیح نشانے پر نہ لگا وہ وزیر اعظم اور وفاقی حکومت نفس ناطقہ کو ڈرا رہے تھے کہ ہم اسلام آباد رہے ہیں تم کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی لیکن وزیر آباد میں زخمی ہونے کے بعد پلان اے تبدیل کر دیا گیا اور پھر اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب رخ کرنے کا اعلان کر دیا سیاسی و عسکری حلقوں کو فکر لا حق ہوئی عمران خان جی ایچ کیو کے سامنے دھرنا نہ دے دیں لیکن عمران خان نے نہ صرف اپنا روٹ تبدیل کر دیا بلکہ طاقت ور قوتوں نے جہاں کہا وہاں جلسہ کر کے اپنے گھر کی راہ لی کپتان نے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کیا تھا لیکن اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی سالار قافلہ وزیر آباد میں کیا زخمی ہوئے لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا ہی نکل گئی پی ٹی آئی کے عہدیدار اسلام آباد کی عدالتوں کے چکر لگاتے رہے تو انہیں عدالتوں کی طرف سے کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا بلکہ عمران خان کے لانگ مارچ کو رانا ثنا اللہ کے رحم و کرم چھوڑ دیا جنہوں نے پی ٹی آئی کے سمندر کا راستہ روکنے کے لئے 10، 12 ہزار کے لگ بھگ سندھ اور دیگر ریاستی اداروں سے فورس منگوا رکھی تھی پہلی دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے نے وفاق کو پولیس فورس فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

عمران خان کے لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے کے لئے اسلام آباد انتظامیہ نے جو شرائط عائد کیں وہ پی ٹی آئی پوری کرنے سے رہی عمران خان نے اسلام جانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا اور فیض آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا عمران خان کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے باوجود فیض آباد کے گرد و نواح کو حساس مقام قرار دے کر انہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی دوبارہ سٹیج اکھاڑ کر پی ٹی کو سکستھ روڈ کے فلائی اوور پر جلسہ کرنے پر مجبور کر دیا گیا ویسے بھی مری روڈ پر جلسہ میں لوگوں کا سمندر موجزن نظر نہیں آیا۔

سکستھ روڈ سے چاندنی چوک راستہ یہی کوئی ساڑھے تین چار سو میٹر ہو گا جس میں سڑک کی ایک طرف خالی رکھی گئی تاکہ عمران خان کے لانے لے جانے میں آسانی ہو اور ایمرجنسی کی صورت میں بھی خالی سڑک استعمال کی جا سکتی تھی شنید ہے جلسہ میں 18 ہزار کرسیاں لگائی تھیں اس طرح جلسہ کے شرکاء 25، 30 ہزار کے لگ بھگ تھے اس طرح پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جلسہ نہ کر کے اپنی عزت ہی بچائی ہے۔ سوال یہ ہے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کو کس حکیم نے سیاسی میدان میں ایکسپوز ہونے کی راہ دکھائی عمران خان کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ انہوں ضمنی انتخابات میں کامیابی جھنڈے گاڑ دیے ہیں لیکن انہیں کون سمجھائے کہ انہیں جس نے بھی مو سم سرما میں جلسہ جلسہ کھیلنے کی مت دی ہے وہ ان کا دشن ہی ٹھہرا کیونکہ وہ پچھلے 6، 7 ماہ کے دوران پی ٹی آئی 100 سے زائد جلسے کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے مسلسل جلسے کر کے اپنے کارکنوں کو تھکا دیا ہے۔

فی الحال عمران خان نے استعفوں کا اعلان کر کے جہاں حکومت کو سرپرائز دیا ہے وہاں اپنے ارکان صوبائی اسمبلی کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک بات پہنچتی ہے تو پھر محمود خان کی تو جرات نہیں انکار کریں البتہ چوہدری پرویز الہی عمران خان کو ٹھنڈا کر کے کھانے کا کہہ سکتے ہیں اگر چوہدری پرویز الہی نے عمران کی قیادت میں پنجاب میں سیاست کرنی ہے تو بالآخر انہیں عمران خان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کروا دیں گے یا صرف اپنے استعفوں تک ہی محدود رہیں گے؟ آزاد جموں کشمیر اور گلگت و بلتستان کی حکومتوں کا کیا بنے گا؟ یہ سوال بھی لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔ اگر وہ حکومتیں قائم بھی رہیں تو سسٹم سے عمران خان کے نکل جانے کے بعد یہ حکومتیں اپنے بوجھ تلے ہی دب جائیں گی عمران خان مرضی کی عسکری قیادت نہ آنے پر مایوسی کے عالم میں موجودہ سسٹم سے نکل جانے کا اعلان کیا ہے۔

سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کیا عمران خان راولپنڈی پاور شو کی ناکامی کے بعد آنے والے دنوں میں وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر اپنا دباؤ برقرار رکھ سکیں گے؟ کیا عمران خان کا صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے یا تحلیل کرنے سے عام انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی؟ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے 4 سے 6 مہینے درکار ہوں گے، 6 مہینے بعد ہم اس پوزیشن میں ہوں گے پنجاب میں الیکشن جیت سکتے ہیں، قومی اسمبلی کا الیکشن 6 ماہ آگے لے جا سکتے ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ کرپٹ سسٹم سے باہر جا رہے ہیں، اگر سسٹم سے مسئلہ ہے تو پھر انقلاب لائیں، عمران خان نے غصے میں آ کر اسمبلیاں توڑنے کی بات کی ہے، پرویز الہی کی اپنی حیثیت کیا ہے وہ آدھے منٹ میں اسمبلی توڑنے کی بات کر رہے ہیں، پرویزالہی کے پاس جو اختیار ہے اس کو کیسے روکنا ہے یہ ہمیں پتہ ہے، وہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلی نہیں توڑ سکیں گے، ہمیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان کی میٹنگز میں کیا باتیں ہوتی ہیں، اگر ہم نے آج تک ان کو نہیں روکا ہے تو کچھ ہمیں پتہ تو ہے۔ پی ٹی آئی سے 15 سے 20 لوگ ہمیں دستیاب ہوں گے

وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ عمران خان صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے اعلان پر بھی یو ٹرن لیں گے مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کے کہنے سے پہلے ہی پنجاب میں عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کرچکے تھے عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اسمبلیوں سے باہر آرہے ہیں تو بسم اللہ کریں، ہم نے تو اس سے پہلے ہی پنجاب میں عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سکیورٹی کے نام پر 25 کروڑ 63 لاکھ روپے خرچ ہو گئے ہیں، وزارت داخلہ نے 39 کروڑ 92 لاکھ روپے سے زائد کا بجٹ منظور کرایا تھا، یہ رقم کنٹینرز لگانے، فورسز کے قیام و طعام اور شیل کی خریداری کے لیے تھی۔ اسلام آباد کی مختلف شاہراہوں پر سینکڑوں کنٹینرز تقریباً ایک ماہ رکھے گئے، اسلام آباد میں مجموعی طور 13 ہزار 800 سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔

فواد چودھری نے کہا ہے کہ بدھ یا جمعرات تک اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ ہو جائے گاہ مونس الہی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جب بھی عمران خان کہیں گے اسمبلی تحلیل کر دیں گے مسلم لیگی ایم پی ایز اور اتحادیوں کی اکثریت نے وزیراعلی پنجاب کے خلاف عدم اعتماد لانے کا مشورہ دے دیا جبکہ بعض ارکان نے گورنر کی جانب سے وزیراعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی رائے دی، عدم اعتماد کی صورت میں وزیراعلی کو صوبائی اسمبلی سے 186 ووٹ لینا ہوں گے، تحریک عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ لینے تک وزیراعلی پنجاب فوری اسمبلی نہیں توڑ سکتے، اس وقت میں پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 190 ارکان ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے 180 اور ق لیگ کے 10 ارکان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments