پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور ہمارا جماعت نہم کا تجربہ


خوش قسمتی سے کوئٹہ میں ابھی کچھ شاہراہیں ایسی ہیں جنہیں مشرف بہ اسلام کر کے یا مطالعہ پاکستان کی روشنی میں ان کے تاریخی نام تبدیل نہیں کیے گئے ہیں جن میں سے ایک آرچر روڈ بھی ہے۔ اس آرچر روڈ پر بلوچستان کی ایک نامور تاریخی درس گاہ تعمیر نو ہائی اسکول واقع ہے۔ جس سے مجھے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جب ہم نئے نئے نہم جماعت میں گئے تھے اور ساتھ میں بڑے ہونے کے زعم میں بھی مبتلا ہوئے تھے، ان دنوں اساتذہ ہمیں لیبارٹری لے جاتے جہاں ہم نت نئی چیزیں دیکھتے، تجربات کرتے اور سمجھتے کہ بس سائنس دان تو ہم بن ہی گئے ہیں۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ ہمارے استاد محترم جناب سلیم ڈار صاحب جو ہمیں کیمسٹری پڑھاتے تھے ہمیں لیبارٹری لے کر گئے اور فرمایا کہ آپ لوگوں کے سامنے ایک تجربہ کروں گا آپ غور سے اس کا مشاہدہ کرو کہ بعد میں آپ کو سامان فراہم کر کے موقع دیا جائے گا اور آپ تجربہ خود دھرانا۔ انہوں نے ایک بیکر میں شفاف پانی لیا اس میں کچھ مٹی، ریت اور دیگر آلود کنندہ چیزیں ملائیں اور پھر ایک دوسرے بیکر پر اسٹینڈ کی مدد سے کیف سیٹ کر کے اس کے اوپر فلٹر پیپر درست کر کے رکھا اور گدلا و آلودہ پانی فلٹر پیپر پر ڈال دیا یوں پوری کیف بھر دی چند لمحے بعد شفاف پانی نیچے پڑے بیکر میں ٹپکنے لگا جوں جوں کیف خالی ہوتی جاتی استاد محترم مزید گدلا پانی ڈالتے جاتے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے سارا کا سارا آلودہ پانی مغلظات سے پاک ہو کر شفاف حالت میں دوسرے بیکر میں آ جمع ہوا۔

اس سارے عمل کے آخر پر استاد نے پوچھا کہ گدلے و آلودہ کیے گئے پانی کی شفافیت کا عمل جو آپ نے مشاہدہ کیا اسے کیا کہتے ہیں، ہم کھسیانے ہو کر ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے، جب کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو استاد محترم نے فرمایا جب کسی شفاف چیز کو کچھ مغلظات آلودہ کریں اس کے دوبارہ شفاف کرنے کے عمل کو ”عمل تطہیر“ کہتے ہیں۔ اس دن پہلی دفعہ لفظ ”عمل تطہیر“ سنا، سیکھا اور اس کا تجربہ بھی کیا۔

آج عملی زندگی میں اس ”عمل تطہیر“ کا یوں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو اس عمل سے گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ ثقہ اطلاعات و دستیاب معلومات کے مطابق پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی پر گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں سے ایک مفاد پرست ٹولہ مافیا کی صورت قابض تھا۔ جس کا سب سے بڑا اور پہلا جرم یہ تھا کہ انہوں نے پارٹی کو اپنے بنیادی نظریاتی اساس، بنیادی سیاسی فکر و عمل، نظریاتی تناظر میں قائم کیے گئے اہداف کے حصول سے انتہائی عیارانہ طریقے سے ہٹا دیا۔ یہ مافیا طاقتور ہو کر پارٹی میں اس قدر سرایت کر گیا تھا کہ ہر بڑے عہدے پر اپنے لوگوں کو قبضہ دلاتا، مخلص و سچے کارکنان کا نہ صرف راستہ روکتا بلکہ ان کا ناطقہ بند کر کے انہیں پارٹی سے باہر دھکیل دیتے، ہمہ وقت عوام اور پارٹی کے بیچ میں حائل رہتے کہ مبادا کوئی پارٹی میں شامل ہو کر ان کی اخلاقی و معاشی کرپشن میں حائل نہ ہونے پائے، نہ ہی پارٹی صحیح معنوں میں پھلنے پھولنے پائے اور نہ ہی پارٹی اپنے اصل سیاسی اہداف کی جانب جانے پائے کہ پھر مافیا کی ڈیوٹی متاثر ہوگی۔

یہ مافیا منافقت کی انتہا کو یوں پہنچا ہوا تھا کہ عوام کے سامنے خود کو پارٹی بنا کر پیش کیا تھا (واقعی پارٹی کے اندر پارٹی بنائی گئی تھی) انقلاب سے کم کی بات گویا ان کے شان کے خلاف تھی، بظاہر نیشنل ازم (قومی فکر) ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر دراصل وہ ٹرائبل ازم (قبائلیت) کے گند میں گندھے ہوئے تھے، بالفاظ دیگر یہ مافیا پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے اصل مرام یعنی پشتون قوم کو جسد واحد بنانے کے کام کے عین برخلاف قوم کو مختلف قبائل کے نام پر پارہ پارہ کرنے پر کمر بستہ تھا۔

بظاہر پارٹی کے نظریات کے بلند بانگ دعوے جبکہ عملی طور پر نظریے ہی کی بیخ کنی ان کا روزگار تھی۔ ذاتی مالی فوائد کا حصول، ذاتی نام و نمود کی تشہیر، ہر کس و ناکس کو شخصیت کا نام دلانے کے مشن، نظریاتی کارکنان کو دیوار سے لگانا، عوام اور پارٹی کے بیچ حائل رہنا یہ سب پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی پر مسلط مافیا کے افراد کے فرائض تھے جو وہ نماز منافقت کی طرح ادا کرتے تھے۔ پارٹی کے بانی رہنماء خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی، پارٹی کے موجودہ چیئرمین محمود خان اچکزئی، ان کے خاندان کو سوشل میڈیا پر اور نجی محافل میں جس طرح بے گناہ رسوا کیا جو جو مغلظات بکیں الامان و الحفیظ۔

اطلاعات و معلومات سے ہٹ کر میں ذاتی حیثیت میں اس بات کا گواہ ہوں کے مافیا کی مدد سے صوبائی کمیٹی کا ممبر بننے والے ایک فرد نے میرے ساتھ ذاتی طور پر پارٹی چیئر مین اور ان کے خاندان سے متعلق جو لغو رسوا کن باتیں کیں وہ ناقابل سمع و بیان ہیں۔ غرض یہ کہ اس قابض ٹولے نے دہائیوں تک نہ صرف بے تحاشا مالی و اخلاقی کرپشن کی بلکہ پشتون قوم، اس قوم کی نمائندہ پارٹی، اس قوم کی سماجی اقدار، اس قوم کی یگانگت کی دل کھول کر بیخ کنی کی اور ہر وہ کام کیا جو منظم و باقاعدہ مسلط کیے گئے مافیاز کرتے ہیں۔

مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی پر قابض مافیا کی قوم دشمن سرگرمیاں بھی جب آخری حدوں کو آ پہنچی تو قوم اور حقیقی رہنماؤں کی صبر کا پیمانہ بھی چھلک اٹھا، پارٹی کا نظام حرکت میں آیا اور ”عمل تطہیر“ شروع ہو گیا۔ پارٹی کے نظام کے تحت یکے بعد دیگرے مافیا کے بت گرنے لگے، پارٹی کا تطہیری عمل اسکول کی لیبارٹری کی طرح آسان نہیں تھا کہ فلٹر پیپر لگایا اور شفاف پانی سے گند الگ کر کے پھینک دیا، یہ بڑی احتیاط اور تحمل کا متقاضی کام تھا مگر یہاں قدرت کی مہربانی اور مافیا کی بدحواسی پارٹی کے نظام کے یوں کام آئی کہ مافیا نے کچلاک میں اپنا گٹھ جوڑ طلب کیا جس سے مافیا خود بخود جڑوں سمیت منظر عام پر آ گئی اور اسے نکال باہر کرنا آسان تر ہو گیا۔

اس موقع کراچی تا خیبر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی وارث، پشتون قوم اور پارٹی کارکنان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اندر پارٹیاں بن جاتیں ہیں، مافیاز قبضہ کر لیتے ہیں اور بالآخر پارٹی کا نظام حرکت میں آتا ہے اور اس آکاس بیل کو جڑوں سمیت نکال باہر کرتا ہے، یہ ایک لازمی عمل ہے، یہ ہمیشہ اور ہر جگہ کی طرح مافیا کا منطقی انجام ہے۔ تطہیر کے اس عمل سے پارٹی نہ صرف شفاف ہوگی بلکہ آگے کا سفر بہت آسان اور خوب تر ہو جائے گا، پارٹی اپنے تاریخی نظریاتی اساس سے مربوط ہوگی، عوام کے آنے کے لئے راستہ کھلے گا اور پارٹی کے افق پر ایک نیا سورج طلوع ہو گا۔

کل ہی کی تو بات ہے کہ جمعیت علماء اسلام میں ایک گروہ اٹھا تھا جنہوں نے اپنے قائد پر الزامات کی بوچھاڑ سمیت بہت کچھ کہا تھا اور خود کو نظریاتی کہلوایا تھا۔ آج جمعیت نظریاتی محض ایک نسوار فروش کے دو کالمی اخباری بیان تک محدود ہے اور کہیں نام و نشان نہیں۔ اس کے علاوہ کئی پارٹیوں سے نظریاتی، حقیقی، آزاد، ولی، پیٹریاٹ، عوامی کے ناموں سے اسی نوع کے لوگ علیحدہ ہو کر تاریخ کے گرد کی نذر ہوئے ہیں۔

اسی طرح آج پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے پارٹی آئین و قانون کے تحت بیدخل کیے جانے والا مافیا ہے، اور آج انہوں نے جو شور بدتمیزی برپا کیا ہے وہ صابن کی جھاگ سے زیادہ ثابت نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی صاحب کردار نہیں جس کو عوام توجہ کے قابل سمجھیں۔ نہ ہی ان میں سے کوئی پشتون قومی مفاد، پشتون وطن کی محبت، پشتون قومی تحریک سے جڑا ہے جو پشتون قوم کے اعتماد و رہنمائی کے قابل ہو، نوشتہ دیوار ہے کہ ان کے سیاسی کردار کا اب اپنی موت آپ مرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments