بیاد فیض احمد فیض، ہم دیکھیں گے ( 2 )


سال 2022 کے آغاز سے ہی ملک کی غیر یقینی سیاسی صورت حال میں عدلیہ کے فقیدالمثال طرز انصاف نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدالت عظمی کے غیر جانبدار رویوں اور حکمت عملی اور جمہوریت بہترین انتقام ہے کی اصطلاح کے داعی سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے مثبت اقدامات کے ذریعے ثابت کیا کہ ان کی قیادت میں سابقہ متحدہ حزب اختلاف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر کسی بھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔

کھپے کھپے پاکستان کھپے کے داعی آصف علی زرداری نے ثابت کیا کہ سیاسی بصیرت میں ان کا ثانی نہیں۔ اور یہ کہ آصف علی زرداری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا کہ اقتدار کی ان کو حاجت نہیں بلکہ وہ ایک بصیرت افروز بادشاہ گر ہیں۔ تاریخی دن 10 اپریل کہ جو یوم دستور پاکستان بھی ہے اور حسن اتفاق سے اسی تاریخ کو دختر مشرق۔ شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو نے آمر اعظم۔ جابر اعظم ابوالمنافقین ضیا ٔ الحق جیسے بدترین باطل کے خلاف اور تحریک بحالی جمہوریت کا آغاز کیا۔

اسی تاریخی اور تاریخ ساز دن ضیا ٔ الحق کے روحانی مرید اور پیروکار سلیکٹڈ عمران نیازی اور ان کی آمرانہ طرز حکومت کو تاریخی اور فقیدالمثال شکست فاش دی۔ 10 اپریل یوم دستور پاکستان کے طور پر بھی اور یوم نجات ابوالمنافقین کے طور پر بھی۔ یوم فتح دستور کے طور پر بھی اور یوم بحالی ٔجمہوریت کے طور پر بھی ایک تاریخ ساز دن ثابت ہوا۔

ممتاز کیلی گرافر۔ شاعر۔ دانشور اور سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری محمد حنیف رامے کے ہمراہ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر اپنے بتائے ہوئے وقت پر پہنچیں۔ ان کے پہنچتے ہی ہماری ذمہ داریاں شروع ہو چکی تھیں۔ ہم فوری طور پر ملک معراج خالد صاحب اور ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کو لینے کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب دونوں اصحاب کو پک کر لیا تو ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے پوچھا کہ انکل ہم پہلے آپ کو ڈراپ کر دیں اور دوبارہ آ کر بابا جی شیخ رشید صاحب کو پک کر لیں یا ابھی جاتے ہوئے ہی انہیں ساتھ ہی لے چلیں۔

ملک معراج خالد صاحب اور مبشر حسن صاحب نے فرمایا کہ دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی جاتے ہوئے راستے میں ہی اچھرہ رکتے ہوئے انہیں پک کر لیں۔ قصہ مختصر ہم تینوں اصحاب کو لے کر شادمان میں واقع بلے ہاوٴس پہنچے۔ شہزاد احمد صاحب کو ہم نے پہلے ہی فون پر مطلع کر دیا تھا کہ مہمانان گرامی پہنچ چکے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے والد گرامی کو مخاطب فرمایا۔ بلے صاحب آپ کے صاحبزادے سے ہم نے پوچھا کہ کہ آپ دس منٹ دیں تو ہم مکمل نہ سہی کچھ تھوڑا بہت کھا کر آپ کے ساتھ چلیں تو صاحبزادے نے کہا نہیں اس بات کی تو اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ بابا جانی اور دیگر احباب منتظر ہوں گے ۔

اور کھانے کے لیے آپ کا ہی انتظار ہو رہا ہو گا۔ ابو جان نے یہ سن کر کہا بالکل ٹھیک کیا۔ آج کی دعوت خاص کا مقصد ہی مل بیٹھنا تھا۔ آج برسوں بعد ہم سب کو ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع میسر آیا ہے اور اس کے لیے ہم محترمہ صدیقہ بیگم کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے حنیف رامے صاحب کو قابو کر لیا۔ بس پانچ سات منٹ میں اشفاق احمد صاحب اور بانو قدسیہ صاحبہ پہنچنے والے ہیں۔ یہ فرما کر والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے صاحب نے ہمیں آواز دے کر کہا کہ صدیقہ بیگم نے یہاں اکٹھے ہو کر کس وقت روانہ ہونے کی تاکید کی تھی۔

مہم نے عرض کیا کہ ساڑھے دس تک کی مہلت ہے ہمارے پاس اور ساڑھے دس بجنے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے اور آپ تمام معزز مہمانان گرامی سے گزارش ہے کہ کھانا چن دیا گیا ہے اور بانو آپا اور اشفاق احمد خاں صاحب تشریف لا چکے ہیں۔ تشریف مزید گفتگو ٹیبل پر دوران کھانا جاری رہے گی۔ کھانے کے دوران اور بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ قہوہ اور چائے کافی کا دور چلا۔ تمام احباب نے اپنی اپنی حسین یادوں کو بیان کیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اور چوہدری محمد حنیف رامے صاحب نے اپنی بہت سی یادوں میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے اپنے روابط اور مراسم کے حوالے دیتے ہوئے فرمایا کہ فخرالدین بلے صاحب نے بھی جمہوریت پسند ہونے کی بھاری قیمت ادا کی اور بھٹو صاحب سے قریبی اور دوستانہ مراسم کے باعث بلے صاحب ضیا ٔ الحق کے منتقمانہ اقدامات کا نشانہ بھی بنے۔

اشفاق احمد خاں صاحب نے جنرل ضیا ٔ الحق کے بہت سے جابرانہ اقدامات کو موضوع بنایا اور سید فخرالدین بلے صاحب کی جبری سبکدوشی پر بھی بات کی۔ ڈاکٹر مبشر حسن۔ ملک معراج خالد۔ اشفاق احمد اور حنیف رامے کے ساتھ ساتھ صدیقہ بیگم نے سید فخرالدین بلے کی مزاحمتی شاعری کے تذکرے میں ڈسپلن۔ اور پتنگ جیسی متعدد نظموں اور غزلیات کے حوالے بھی دیے۔ ٹھیک ساڑھے دس بجے تمام مہمانان گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو لے کر اواری ہوٹل کے لیے روانہ ہو گئے اور ہم صدیقہ بیگم کے ہمراہ روانہ ہوئے۔

اواری ہوٹل کا ہال سینکڑوں معززین شہر سے بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج سے قریب ترین کرسیوں کی پہلی قطار ان معزز مہمانوں کے لیے پہلے سے ہی ریزروڈ تھی۔ لیکن ہم۔ شہزاد احمد اور صدیقہ بیگم نے کرسیوں کے بجائے اسٹیج کے ساتھ بچھی چاندنیوں پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ غزل کی ممتاز گلوکارہ محترمہ اقبال بانو نے اپنے اعزاز میں منعقدہ موسیقی کی اس محفل میں بھرپور انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ۔ اور فیض احمد فیض کی شاہکار نظم ہم دیکھیں گے سے ہی محفل کا آغاز کیا اور صبح ساڑھے چار بجے اسی شاہکار نظم پر محفل کا اختتام فرمایا۔

فیض احمد فیض کی شاہکار نظم کے حوالے سے اور بھی بہت سے واقعات ہیں۔

سال 1985 میں جنرل ضیا الحق کے فرمان کے تحت عورتوں کے ساڑھی پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج درج کراتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑھی پہن کر 50,000 سے زیادہ سامعین کے سامنے فیض احمد فیض کی یہ نظم۔ ہم دیکھیں گے۔ گائی۔ نظم کے بیچ میں سامعین کی طرف سے انقلاب زندہ باد۔ جمہوریت زندہ باد اور مردہ باد مردہ باد آمریت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔

بعد ازاں 1986 میں جلاوطنی ختم کر کے واپس لوٹنے کے بعد بھی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی ایک شاندار تقریب میں جب اقبال بانو نے یہ نظم۔ ہم دیکھیں گے پیش کی تو بے نظیر بھٹو صاحبہ نے کلیپ کر کر کے اقبال بانو کا خوب ساتھ دیا تھا۔ ہم اس تقریب میں اپنے جگر جانی سجن بیلی سیدی محسن نقوی صاحب کے ہمراہ گئے تھے۔

فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے نے تو ہمسایہ ملک ہندوستان میں ہنگامہ مچا دیا۔ بلکہ وہاں کے انتہا پسندوں نے تو اس نظم میں بھی مذہبی منافرت تلاش کرلی۔ حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کے حملے کے بعد دو روز بعد ہی دسمبر کی سترہویں تاریخ کو آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے ایک پر امن احتجاجی ریلی نکالی تھی، جہاں معروف انقلابی اور جمہوریت پسند شاعر بلکہ مزاحمتی شاعری کے بے تاج بادشاہ فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھی گئی تھی۔

بعد ازاں اس حوالے سے ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر منیندر آگروال نے شکایت درج کرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ طلبہ فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھ رہے ہیں۔ اس نظم کو ”ہندو مخالف“ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی شکایت میں نظم میں سب بت اٹھوائے جائیں گے اور بس نام رہے گا اللہ کا والے بند پر اعتراض کیا گیا ہے۔ بس پھر کیا تھا ہنگامے قابو میں آنے کے بجائے پھیلتے ہی چلے گئے اور شر پسند عناصر کی جانب سے محض اس نظم کی بنیاد پر ان ہنگاموں کو مذہبی منافرت کا رنگ دینے کی کوشش بہت حد تک تو نہیں البتہ کسی حد تک ہی کامیاب ہو سکی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران یہ وضاحت بھی سامنے آئی کہ فیض احمد فیض صاحب نے یہ نظم پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کہ جسے عدالتی قتل بھی کہا جاتا ہے، کے بعد اور بد ترین عہد آمریت کے دوسرے برس کے دوران لکھی تھی۔ (جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments