نجم سیٹھی اور احمد نورانی آمنے سامنے


معروف مگر متنازع انویسٹیگیٹو جرنلسٹ احمد نورانی نے بیچ چوراہے نجم سیٹھی کی مشہور زمانہ ”چڑیا“ جس کی بنیاد پر وہ اندر کی خبر دینے کا اپنے ٹی وی پروگرام میں اکثر دعوی فرماتے رہتے ہیں کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ” دراصل سیٹھی وہ چڑیا آئی ایس آئی یا ملکی ایجنسیاں ہیں جن کی بنیاد پر وہ شام ڈھلے کوٹ ٹائی لگا کر پیش گوئیاں فرما رہے ہوتے ہیں۔ نا صرف انہوں نے ان کی چڑیا کا پردہ فاش کیا بلکہ انہیں ایجنسیوں کی طوائف تک ڈیکلیئر کر ڈالا۔ حالانکہ یہ اصطلاح ہماری نظر میں تحقیر اور سنگین قسم کی توہین آمیزی ہے کیونکہ طوائف تو جسم بیچ کر پیٹ کی آگ بجھاتی ہے جبکہ ہمارا شعوری آئیکون یا باخبر ہونے کا دعوی رکھنے والے ذاتی مفادات کے لیے یا معاشرے میں منفرد قسم کی توپ چیز بننے کے لئے جان بوجھ کر حقائق کو کیمو فلاج کر کے معاشرتی سمت کو بھٹکانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، ہماری نظر میں جن کا شعور اور ضمیر ہر وقت بکنے کو تیار رہتا ہو وہ اس طوائف سے بھی گھٹیا ہوتے ہیں جو اپنا جسم بیچ کر اپنی عزت کی روٹی کماتی ہے کیونکہ اس کی ملکیت میں صرف اس کا اپنا جسم ہی ہوتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی پارسائی کے پردے میں چھپنے کی کوشش نہیں کرتی جبکہ ہمارا باخبر درجنوں ہاتھوں کا کھلونا بننے کے باوجود بھی نیٹ اینڈ کلین رہتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ نجم سیٹھی اور احمد نورانی کے صحافتی قد کاٹھ میں زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ نجم سیٹھی صحافتی دنیا میں اپنے منہ میں سونے کا چمچ لے کر وارد ہوئے ہیں مطلب زندگی کی ابتدائی بہاروں سے ہی کھاتے پیتے اور وسیع و عریض قسم کے تعلقات رکھنے والے بندے ہیں ویسے بھی جیب اور پیٹ بھرا ہوا ہو تو تعلقات آپ کی جیب میں ہوتے ہیں۔ اسی لیے صحافیوں کی اکثریت سیٹھی جی کو ”ڈرائنگ روم انٹلیکچوئل“ خیال کرتی ہے جو چل پھر کے حقائق کھوجنے کی بجائے ٹیلی فون یا سوشل میڈیا کے ذریعے سے معلومات اکٹھی کر کے ایک پیکج ترتیب دے لیتے ہیں جیسے ہی کیمرہ آن ہوتا ہے لفظوں سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔

جبکہ احمد نورانی کا دعوی ہے کہ وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر نیچے سے اوپر آئے ہیں دن رات ایک کر کے انہوں نے تحقیقاتی صحافت میں اپنا نام بنایا ہے اور وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی صحافتی دنیا میں جو انہوں نے عزت کمائی ہے وہ اس پر مطمئن ہیں اور ان کا اپنے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی طاقتور کی ”رکھیل“ نہیں بنے۔ موصوف آج کل امریکہ میں آباد ہیں انہوں نے جنرل باجوہ اور ان کی فیملی کے اثاثوں کی تفصیل فیکٹ فوکس ویب سائٹ پر شیئر کی ہے۔ باجوہ لیکس نامی اسٹوری بریک ہونے کے بعد نجم سیٹھی شو میں خاتون اینکر نے سوال کیا کہ

”سیٹھی صاحب اتنے طاقتور بندے کے متعلق اتنی بڑی اسٹوری بریک کیسے ہو گئی“ ؟ جس کے جواب میں انہوں نے نام لیے بغیر صرف فیکٹ فوکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ

”اتنا بڑا کام انٹیلی جنس کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا اور موجودہ وقت میں انٹیلی جنس نیوٹرل ہو چکی ہے اس سے قبل جو انٹیلی جنس چیف تھا وہ نیوٹرل نہیں تھا اور تحریک انصاف کے کلوز بھی تھا عین ممکن ہے پہلے والے نے یہ سب کچھ لیک کر دیا ہو“

ڈھکے چھپے لفظوں میں ان کا یہ کہنا تھا کہ احمد نورانی استعمال ہوا ہے۔ سیٹھی کے اس قسم کے جواب پر احمد نورانی نے پورا ایک ویلاگ کھڑکا دیا اور خوب کھری کھری سنا ڈالیں اور واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ

سیٹھی صاحب آپ کا کیریئر ایجنسیوں کی وجہ سے بنا ہے میرا نہیں، اسی لئے آپ چڑیا کے محتاج رہتے ہیں جبکہ ہم ”لیگ ورک“ کر کے حقائق تک پہنچتے ہیں ”

باجوہ لیکس ہوں، پانامہ لیکس ہوں یا سوئس لیکس ہم جیسے کیڑے مکوڑوں کو ہاتھیوں کی لڑائی سے کیا حاصل؟ طاقت ور جانیں اور ان کے اسکینڈل جانیں ہمیں تو اپنی دو وقت کی روٹی سے غرض ہے وہ جیسے تیسے پوری ہو جائے غنیمت ہے، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہماری برائے نام قسم کی ”انٹیلی جنٹسیا“ ہمیشہ سے طاقتوروں کی ”رکھیل“ رہی ہے۔ طاقت وروں کو ہر دور میں انصار عباسی، اوریا مقبول جان، ہارون رشید صابر شاکر، حسن نثار، زید حامد اور عمران ریاض خان جیسے میسر آ جاتے ہیں جو ان کے بیانیہ کو آسمانی صحیفہ ثابت کرنے میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

زیادہ دور نہ جائیں حال ہی میں مرحوم و مغفور ہونے والے ”پروجیکٹ عمران“ کو ہی لے لیں کہ یہ کتنی ہیوی قسم کی انویسٹمنٹ تھی اور کس کس طرح سے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت قائم کی گئی اور کیسے کیسے ہمارے ملک کے صحافی، رہبران قوم اور علمائے عظام نے باقاعدہ اس پراجیکٹ کا حصہ بن کر اچھا خاصا فیض پایا اور اس ہائبریڈ رجیم کے فیوض و برکات سے لاکھوں لوگوں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب ہوئی۔ ہمارے محترم صحافیوں کو رنگ برنگی فائلیں دکھا کر ون پوائنٹ ایجنڈا پر قائل کر کے انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ آپ ایک طرح سے قومی فریضہ سرانجام دینے جا رہے ہیں۔

ہمارے ملک کے ان باخبر لوگوں نے ایک ایسے بندے کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا جو بندہ تقریباً چار سال گزر جانے کے باوجود بھی اپنی تقریر کا بنیادی مواد تک تبدیل نہ کر سکا۔ یقین مانیں کہ اس رجسٹرڈ قسم کے صادق و امین کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے جس نے دیانت دار ہونے کی ایکٹنگ کر کے ہمارے ملک کی ”انٹیلی جینٹسیا“ کی ذہنی سطح ہم پر آشکار کردی اور ایک بونے نے بہت سے بونوں کو بے نقاب کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments