انگریزی، سائنس اور ہماری تعلیم


بہت عرصہ غالباً ایک دہائی قبل ایک سادہ مگر پروقار سی محفل میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ محفل میں جہاندیدہ ’نابغہ روزگار اور اپنے فن کی معراج کے لوگ موجود تھے۔ باتوں باتوں میں بات سکول کے مضامین کی طرف نکل گئی۔ سکول کی پڑھائی کے معیار‘ اساتذہ کی ناتجربہ کاری ’بڑھتی ہوئی فیسیں‘ بستے کے بوجھ سے ہوتی ہوئی بات انگریزی پہ آن ٹکی کہ یہ مضمون رکھا ہی ہماری قوم کا بیڑہ غرق کرنے کے لئے ہے۔ کیونکہ بدیسی زبان ہے جلدی قابو بھی نہیں آتی۔ کسی من چلے نے اس کی حمایت کے لئے انور مسعود صاحب کے کہے گئے شعر کا آسرا ڈھونڈا کہ:

دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے

بڑے صاحب کی رگ ظرافت پھڑکی۔ فرمانے لگے انگریزی پہ ہی کیوں غصہ ہے ’کیا یہ طبیعات (فزکس) ‘ کیمیاء (کیمسٹری) اور یہ دقیق بیالوجی (حیاتیات) آپ کو سمجھ آ گئی ہے؟ پہلے چونکہ اپنی بات کی تاب بڑھانے کو شعر پیش ہو چکا تھا تو یہاں بھی شعر کا تڑکا لگانا مجبوری بن گیا تھا۔ لیکن چونکہ صاحب بڑے تھے تو بات بھی بڑی ہی کرنی تھی اور شعر کا جواب پورے بند سے دینا لازمی ہو گیا تھا۔ شومئی حافظہ کہ وہ پورا بند تو یاد نہیں لیکن بیالوجی کی شان میں کہا گیا وہ آخری شعر ضرور یاد رہ گیا کہ:

رات دنے ساڈی وڈھ وڈھ کھاوے جان بیالوجی
ساڈا اہنے کجھ نہیں چھڈنا ’سانوں ایتوں لکا لو جی
(ترجمہ: رات دن بیالوجی ہماری جان کھاتی ہے ’اس نے ہمارا کچھ نہیں چھوڑنا‘ ہمیں اس سے چھپا لیں )

ایسے ہی جب میٹرک میں ان مضامین سے پالا پڑا تو سمجھ لگی کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے۔ کمرہ جماعت کی پڑھائی الگ اور لیبارٹری کے عملی کام الگ۔ وہیں سائنس کی تجربہ گاہ میں منشور سے پہلا تعارف ہوا۔ کیسا عجیب آلہ ہے سورج کی سفید روشنی کا راز افشا کر دیتا ہے۔ سفید رنگ کی روشنی کو دیگر کئی رنگوں میں بکھیر دیتا ہے۔ کیا روشنی کی یہ تقسیم اس آلے کی بدولت ممکن ہوئی؟ اس منشور میں ایسا کیا میکانکی عمل ہے کہ روشنی جیسی لطیف شے کو بھی تقسیم کر دیتا ہے۔ کیا یہ محض منشور کا کمال ہے یا روشنی کی کسی اپنی خاصیت کا بھی عمل دخل ہے۔

اس منشوری طریقے کار سے واضح ہوا کہ شیشے کی مخصوص بناوٹ کا یہ ٹکڑا تو محض روشنی کے سفید رنگ میں موجود مخفی رنگوں کو ظاہر کرتا ہے۔ منشور سے چھن کے نظر آنے والے یہ سب مخفی رنگ تو پہلے ہی اس سفید روشنی میں موجود تھے ’اس منشور نے تو صرف نمایاں کر کے الگ الگ کر کے دکھا دیے۔ یعنی منشور نے کوئی کیمیائی عمل نہیں کیا‘ روشنی کو کوئی نئی ہیبت یا کوئی نیا رنگ نہیں دیا بلکہ پہلے سے موجود خفی رنگوں کو صرف نمایاں کیا ہے۔ بھیتر کے رازوں کو آشکار کیا ہے۔ سارا کمال تو سفید روشنی کے اپنے ہی اندر تھا۔

سب راز ’بھید‘ عجوبے ’کمال‘ صلاحیتیں ’کثافتیں‘ لطافتیں ’جنتر منتر اندر ہی پائے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی ضرورت‘ کوئی حادثہ ’کوئی اندرونی و بیرونی منشور سا محرک اسے نکال کے باہر لے آتا ہے۔ لیکن باہر وہی نکلے گا جو اندر ہے‘ ظاہر وہی ہو گا جو اندر خفی ہے۔ صرف منشور کا سامنا کرنے کی دیر ہے ’وہ بھیتر کے رنگ نکال باہر لے آئے گا۔ آئینے اور منشور میں یہی فرق ہے کہ آئینے میں فقط پرچھائی نظر آتی ہے جبکہ منشور اندر کے رنگ باہر لے آتا ہے۔

اپنے بھیتر خفی رازوں اور صلاحیتیوں کو جاننے کے لئے منشور کا سامنا ضروری ہے۔ آئینہ صرف ظاہری حالت ’ظاہری بناوٹ اور ظاہری خوبصورتی تک محدود رکھے گا‘ منشور ہی ہے جو اندر کی صلاحیتیوں سے آشکار کرا دے گا۔ خوابیدہ صلاحیتیوں کو نکھار کے ہی ہم نہ صرف اپنے اور اپنے معاشرے کے لئے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں بلکہ ان پنپتی صلاحیتیوں سے اپنی توانائی کو تعمیری سوچ بھی دے سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ سب مخفی راز ’بھید‘ عجوبے ’کمال‘ صلاحیتیں ’کثافتیں‘ لطافتیں ’جنتر منتر مل کے اندر ایسا شور بپا کرتے ہیں کہ اندر کے اس شور سے بچنے کے لئے باہر شور بڑھانا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments