اقبال جذبہ پوری نے شعور بیدار کر کے عزت پا لی


جذبے پور کے اقبال کے ہاں دو مردہ بچوں کے بعد تیسرا ہوا تو پیدائشی لاغر اور بیمار تھا۔ بچے کی سانسوں میں برکت ایک مہنگے علاج سے ممکن تھی اور اقبال پر مہنگی چیزیں حرام تھیں۔ حلال و حرام کا فیصلہ ان دنوں ساتویں گاؤں کے رقبہ دار افضل ترین کے ہاتھ میں تھا۔ مگر افضل ترین کے ہاتھ میں کئی کتوں کی ڈوریاں بھی تھیں۔

افضل ترین کا اپنا رقبہ تو کوئی خاص نہ تھا مگر پیسہ دانی کے کسی پیچیدہ نظام کے تحت اور کئی طرح کے کاغذات اور کلرکوں کی مدد سے اس نے ثابت کیا ہوا تھا کہ سات میں سے پانچ گاؤں پچھلی پشتوں سے اس کے مقروض ہیں اور باقیوں کی حفاظت کا بوجھ اس کے کتوں نے اپنے کندھوں پہ اٹھا رکھا ہے لہٰذا اب یہ خطہ ارض اس کا ہے اور اس سے پھوٹنے والے ہر خوشے کا مالک بھی وہی ہے۔ سات گاؤں غلہ اگاتے اور افضل ترین کے نوکر آ کر لاد لے جاتے۔

اس غلے کو انہی گاؤں میں بیچ کر ہر سال وہ دو چار اور کتے خرید لیتا، کوئی باز وغیرہ رکھ لیتا اور کبھی کبھار اپنے گاؤں کے لوگوں کو کسی مراثی سے لطیفے وغیرہ سنوا دیتا، کسی مولوی سے صبر پہ درس یا کسی قصہ گو سے ملکہ اور بادشاہ کی خدا ترسی وغیرہ کے قصے سنوا دیتا۔ کتوں کی کسی ریچھ سے لڑائی کرا دیتا۔ یا ان سے کسی کے خرگوشوں کو ذلیل کروا دیتا۔ باز کو بازو پہ بٹھا کر مہمانوں کی فرمائش پہ تصویریں نکلواتا۔ اور یوں سب اس سے ایک خوف زدہ سا رشک کرتے رہتے۔

کبھی ترس کھا بیٹھتا تو کتوں وغیرہ کا بچا ہوا در آئے غریبوں کو دان کر دیتا۔ جس سے اس کی خان دانی سخاوت کے چرچے پختہ تر سے ترین ہو جاتے۔

اقبال نے دو تین لوگوں کی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ جن کے دن رقبہ دار افضل ترین کے در پہ سوالی بن کر جانے سے پھر گئے تھے۔ یہ کہانیاں سات گاؤں میں امید کا آسیب بن کر ہر وقت گردش میں رہتیں۔ لوگ ان میں رد و بدل بھی کر دیتے تھے مگر ان کی روح کو کوئی متاثر نہ کر پاتا۔ تاہم کسی سرخے کی تقریروں کے زیر اثر اقبال ایک عجیب خلل کا شکار ہو گیا تھا۔ جو کام سوال سے ہو سکتا تھا اسے سلیقے سے کرنا چاہتا تھا۔ یہ سر پھرا افضل ترین کے پکے کاغذوں اور ان پر لگی پٹواریوں، تحصیل داروں کی مہروں کو ہیرا پھیری سمجھتا اور جذبے پور کی زمین کا مالک جذبے پوریوں کو کہتا۔

سسکتے بچے کی سانسوں میں برکت کا اسے یہی سلیقہ سمجھ آیا کہ ساتویں گاؤں کے رقبہ دار سے حق مانگے۔ سو ایک دن اس نے ایک کندوری میں دو روٹیاں اور ایک پیاز باندھا اور ساتویں گاؤں جا دھمکا۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ افضل ترین کے ڈیرے پہ جا کر اپنے کچی پنسل کے حساب دکھاتا، اس کی ملاقات ماسٹر سعید سے ہو گئی۔ ماسٹر سعید ان چند لوگوں میں سے تھا جو رقبہ دار افضل ترین کے خرچے پر ایک غیر ملکی جامعہ سے ماسٹری کی سند لے کر آئے تھے۔

مگر رقبہ دار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ آج بھی کسی قسم کی لگی لپٹی سے کام نہ لیتا اور اس کے فیصلوں پر کھل کر تنقید کرتا۔ لوگ حیران تھے کہ رقبہ دار اس محسن کشی کو خاطر میں نہ لاتا بل کہ اس نے ماسٹر سعید کو اپنے گاؤں کے سکول میں ہیڈماسٹر کرانے کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کی کہ جس کا ماسٹر سعید تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ آج کل وہ پورے علاقے میں اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے معروف تھا اور اقبال تو اسے اپنے دور پار کے رشتے دار کے طور پہ بھی جانتا تھا۔

”ملک اقبال، غصے میں لگتے ہو؟“

اقبال کو پہلی بار کسی نے ملک کہا تھا۔ اس نے اپنے نام کے ساتھ ملک کو یوں قبول کیا جیسے اندھا مرید اپنے پیر کے تعویذ کو کرتا ہے۔

”رقبہ دار کے پاس جا رہا ہوں۔“
”ملک ہو کے؟“
”بالکل۔“
”مانگو گے؟“
”اپنا حق۔“
”حق تو تمہارا یہ بھی ہے کہ لوگ تمہیں اقبال نٹھ کہنے کے بجائے اقبال ملک کہیں۔“
اقبال کا خون کھولنے لگا۔

”میں تو تمہیں پشتوں سے جانتا ہوں۔ مجھے تو معلوم ہے کہ تم ایک عزت دار آدمی ہو۔ مگر رقبہ دار کے چاپلوسوں کا کیا کرو گے جو تمہیں ہر روز اتنی مرتبہ نٹھ کہتے ہیں کہ نٹھ اب تمہاری ذات سے زیادہ سات گاؤں کا تکیہ کلام بن گیا ہے۔“

”میرے حصے کا رقبہ میرا ہو گا تو سب جان جائیں گے۔“
”لڑو گے؟“
”جمع بندیاں کھول کے رکھوں گا۔“
”عزت جمع بندیاں کھولنے سے ملتی تو آج پٹواری جمعے پڑھا رہے ہوتے۔“
اقبال ماسٹر سعید کا منہ تکتا رہ گیا۔

”دیکھو اقبال، تم میرے اپنے ہو۔ تین پشت پیچھے ہمارے خون کی ترکیب یکساں تھی۔ میری تو پیدائش بھی جذبے پور کے دائی خانے میں ہوئی ہے۔ تمہارے ابا، ندو نٹھ۔ دیکھا؟ ان لوگوں کا بے عزت کرنے کا نسخہ کتنا کامیاب ہے؟ ہمارے لوگوں کو اتنی بار نٹھ بولا کہ ہم بھی ان کی زبان بولنے لگے۔ یعنی ہمیں ہی ہمارے خلاف بکوا دیا۔ میری ایک بات پلے باندھ لو۔ پہلے عزت مانگو۔ پھر رقبہ۔ زمین کا ٹکڑا تو مردے کو بھی مل جاتا ہے۔ عزت زندوں کا زیور ہوتی ہے۔ عزت کروانی پڑتی ہے۔“

”مجھے میری زمین چاہیے۔ میری محنت کا صلہ۔ بچوں کا رزق۔ بیٹے کا علاج۔“
”پھر بھیک مانگ لو۔ رقبہ دار تو چاہتا ہے کہ تم خود کو اس کے ہاتھوں اور ذلیل کراؤ۔“
”اپنا حق مانگنا جرم ہے؟“

”جو حق مانگ کے لیا جائے وہ بھیک ہے۔ اگر سوال کرنا ہے تو عزت کا کرو۔ وہ نہ ہونے دو جو رقبہ دار چاہتا ہے۔ سر اٹھا کر جاؤ اور اکڑا کر آؤ۔ تم ملک ہو کوئی گلی کے کیڑے نہیں کہ خود کو ہلکا کرو۔ ہمارے بڑے فاقے چھپانے کے لیے مونچھوں پہ مٹی کا تیل مل لیتے تھے مگر گردن نہ جھکنے دیتے اور تم ہو کہ چار بیگھے زمین کے لیے پگڑی کے پیچ ڈھیلے کرنے جا رہے ہو۔“

”ٹھنڈے دل سے سوچو کہ اگر تم پورے علاقے میں ملک مشہور ہو جاؤ اور ہر آتا جاتا تمہیں اقبال نٹھ کہنے کے بجائے“ سلام ملک اقبال ”کہہ کے گزرے تو تمہارا سینہ ٹھنڈا نہیں ہو گا؟ ہر سلام پہ تمہارے بیٹے کا خون ایک چھٹانک بڑھتا جائے گا۔ کبھی کسی عزت دار کا چہرہ زرد دیکھا ہے تم نے؟“

ماسٹر سعید کی بات ملک اقبال کے دل کو لگی۔ اس نے چشم تصور میں خود کو اپنے گھر کی دیوار سے جڑے تھڑے پر بیٹھے دیکھا جہاں ہر آنے جانے والا اسے ”سلام ملک اقبال“ کہہ کر گزر رہا تھا۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ آج کے بعد کسی کے سامنے کندوری نہیں کھولے گا۔ چاہے بھوک سے مر جائے لوگوں کے سامنے پیاز نہیں توڑے گا۔ اور رقبہ دار سے اپنا حق تو کیا عزت بھی نہیں مانگے گا۔ اس نے ماسٹر سعید سے یہ عہد بھی کیا کہ اس حوالے سے اگر ماسٹر سعید نے کوئی باقاعدہ جدوجہد کی تو وہ ضرور اس کے کندھے سے کندھا ملائے گا۔

کچھ عرصہ بعد ماسٹر سعید نے سات گاؤں سے کچھ لوگوں کو رقبہ دار کے گاؤں میں جمع کیا اور ایک مختصر سا خطاب کیا:

”بھائیو، رقبہ دار افضل ترین صاحب کے گاؤں سے اگنے والے قصہ کہانیوں، لطیفوں، مثالوں اور عرفوں ناموں سے تو میں ہمیشہ سے واقف تھا مگر گزشتہ دنوں اقبال نٹھ سے، میرا مطلب ہے اقبال ملک سے، ملاقات کے بعد میں نے ایک خاص تحقیق کی ہے۔ آج میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ اس گاؤں کی کہانیاں اور مثالیں اگتی نہیں، اگلی جاتی ہیں۔ ہم جیسوں کے ٹھٹھے اڑائے جاتے ہیں۔ ہماری پگڑیوں کو اچھالا جاتا ہے۔ سات گاؤں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ ہم رقبہ دار افضل ترین کو بتائیں کہ جو ہو رہا ہے، ہمیں دکھ رہا ہے۔

ہم رقبہ دار افضل ترین کو بتائیں کہ جو ہو رہا ہے اور ہمیں دکھ رہا ہے وہ زہر ہے۔ ہم رقبہ دار افضل ترین کو بتائیں کہ جو ہو رہا ہے اور ہمیں دکھ رہا ہے کہ زہر ہے اس کا ہمارے پاس جواب بھی ہے اور تریاق بھی۔ مگر ہم زہر کو زہر سے مارنے کے قائل نہیں۔ ہم سات گاؤں میں اس زہر کی بجائی کے خلاف ہیں جس سے کچھ لوگ تو قدآور ہو جائیں اور باقی سب کے سب بونے۔ ہم برابری کے قائل ہیں۔ اور اسی برابری کا تقاضا تھا کہ آج میں یہاں اس چوک میں آپ سب سے مخاطب ہوں۔ میں نے آج ملک اقبال کو بھی دعوت دی ہے۔ آپ کو اور ملک اقبال کو اس چوک میں اس لیے زحمت دی ہے کہ کسی رقبہ دار کے در پر جانا عزت داروں کے شایان شان نہیں۔“

اس بات پہ کچھ لوگوں کا تو قہقہہ نکل گیا مگر زیادہ تر نے تالیاں بجا دیں۔ تالیاں ابھی تھمی نہ تھیں کہ ملک اقبال اٹھا اور نعرے لگوانے لگا:

خوشحالی کی یہ نوید
ماسٹر سعید، ماسٹر سعید
عزت کی ہے یہ امید
ماسٹر سعید، ماسٹر سعید
برابری کی ہے یہ عید
ماسٹر سعید، ماسٹر سعید

”ملک اقبال، ہمارے مطالبے لکھو۔ ہم اپنی عزت دارانہ شناخت کے لیے کچھ بھی کر گزریں گے۔ لکھو کہ ہماری جدوجہد کا آج باقاعدہ آغاز ہوا چاہتا ہے۔ لکھو۔“ ماسٹر سعید نے نعروں کو ٹوکتے ہوئے ملک اقبال کو کہا۔

”مطالبہ نمبر ایک: آج کے بعد ہم سب کو ہماری جائز شناخت دی جائے۔ جو ملک ہے اسے ملک پکارا جائے، جو خان ہے اسے خان اور جو چودھری ہے اسے چودھری۔

مطالبہ نمبر دو: رقبہ دار افضل ترین اپنے میراثیوں کو لگام دے کہ شرفا پر لطیفے کسنے سے باز آ جائیں۔
مطالبہ نمبر تین: گویوں سے کہا جائے کہ شرفا پر لکھی جانے والی نفرت انگیز شاعری گانا چھوڑ دیں۔

مطالبہ نمبر چار: سات گاؤں کے مولویوں سے کہا جائے کہ تمام طرح کے فلاحی کاموں میں شرفا سے مشاورت کریں، تمام عزت داروں کو نیکی کے کام سونپے جائیں اور کسی کو بھی کم تر یا غریب غربا جان کر چندہ دینے سے محروم نہ کیا جائے۔

مطالبہ نمبر پانچ: ہر پانچ سال بعد ایک قابل ترین نوجوان کو ماسٹری کی تربیت لینے کسی غیرملکی جامعہ بھیجا جائے تاکہ وہ واپس آ کر لوگوں میں اپنی شناخت کا شعور اجاگر کر سکیں۔

مطالبہ نمبر چھ: ان تمام قصے کہانیوں اور لطیفوں کو بین کیا جائے جن سے کسی کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔

مطالبہ نمبر سات: سات گاؤں میں کسی کو بھی نٹھ، نکٹھ، نلا، یا ڈتھا نہ کہا جائے بل کہ تمام چھوٹے بڑوں کو ان کے اصلی نام کے ساتھ صاحب کہہ کر پکارا جائے۔

مطالبہ نمبر آٹھ: کام کے وقت کے علاوہ تمام کسانوں، مزدوروں کو زمین پر بٹھانے کے بجائے رقبہ داروں کے برابر اونچی چارپائیوں اور موہڑوں پر بٹھایا جائے۔

مطالبہ نمبر نو: یا تو کتوں کو لوگوں پر حملہ آور ہونے سے بعض رکھا جائے یا پھر انہیں اپنے دفاع کے لیے جوابی کارروائی کا حق دیا جائے۔

مطالبہ نمبر دس: رقبہ دار افضل ترین سے گزارش ہے کہ ہمیں مقامی رقبہ داروں کے ظلم سے بچنے کے لیے ہماری مدد کرے۔ ”

ماسٹر سعید اور ملک اقبال کی جدوجہد ان کی توقع سے بھی پہلے کامیاب ہو گئی۔ اس سال سات گاؤں سے گندم کی فصل اٹھاتے ہی رقبہ دار افضل ترین نے ایک میلے کا اعلان کیا جس کا انتظام ہمیشہ کی طرح اس کے بیٹے برتر ترین کے ہاتھ تھا۔ اسی میلے کی افتتاحی تقریب میں برتر ترین نے ماسٹر سعید کے مطالبات کے جواب میں ایک طویل خطاب کیا۔ جس کے آخری جملے تقریباً یہ تھے :

”میں شکرگزار ہوں ماسٹر سعید کا کہ جنہوں نے ہماری توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کروائی ہے۔ آج کے بعد سات گاؤں کے تمام لوگوں کو ان کی جائز شناخت ملے گی۔ سب کے ناموں کے ساتھ ملک، خان، یا چودھری لکھا جائے گا۔ سب کو صاحب کہہ کر پکارا جائے گا۔ میراثیوں کو ایک طرف تو میر زادے اور صاحب کہا جائے گا اور دوسری طرف انہیں کسی کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ گلوکار تفریق پر مبنی مواد نہیں گائیں گے۔ مولوی سب کو صدقہ، خیرات میں حصہ ڈالنے کا موقع دیں گے اور صدقہ خیرات کرنے والوں کا نام لاؤڈ سپیکروں پر بتائیں گے۔

تمام تقریبات میں سب کے لیے چارپائیوں کا انتظام کیا جائے گا۔ کوئی کسی کو نٹھ، نلا یا ڈتھا وغیرہ نہیں کہے گا۔ اور ہاں کسی نے مقامی سطح پر کسی گاؤں کا مالک بننے کی کوشش کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ افضل ترین خان دان آپ سب کے تحفظ کا ضامن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس سب کچھ کے لیے ہمیں آئین سازی کرنا ہو گی۔ ہم ماسٹر سعید کو آئین ساز کمیشن کا سربراہ مقرر کرتے ہیں۔ جب تک نئے قوانین کا نفاذ نہیں ہو جاتا، ماسٹر سعید لوگوں کی تربیت اور نگرانی کا کام جاری رکھیں گے۔ اس سمت میں ایک اہم اقدام کے طور پر میں اپنا نام بدلنے کی رضا کارانہ پیش کش کرتا ہوں۔ آج کے بعد مجھے برتر ترین کے بجائے برابر ترین لکھا اور پکارا جائے۔ آپ کا برابر ترین۔“

اس آخری بات پر لوگوں نے اتنی تالیاں بجائیں کہ سات گاؤں تالیوں سے گونج اٹھے۔ ملک اقبال کی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے نعرے رنگ لے آئے تھے۔ ایک مقدس مشن میں ماسٹر سعید کا ساتھ دے کر آج اس نے کئی نسلوں سے تہمت کی طرح لگے نام نٹھ سے جان چھڑا لی تھی۔ آج کے بعد کوئی اسے ملک کہے بغیر نہیں بلا سکے گا۔ آج کے بعد وہ برابر ترین کے برابر گردانا جائے گا۔ آج کے بعد وہ سر اٹھا کر چلے گا۔ آج کے بعد وہ ایک عزت دار کی زندگی جیے گا۔ آج کے بعد اس کا دل ٹھنڈا ہو گا۔ آج کے بعد اس کے بچے کا جگر پھر سے خون بنانے لگے گا۔

تقریب کے بعد سب نے ماسٹر سعید کو مبارک باد دی تو ایک دو نے ساتھ کھڑے ملک اقبال کی بھی پیٹھ تھپک دی۔ سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ کچھ عرصہ نعرے لگوا کر اس نے اتنی عزت کما لی تھی کہ جو اگلی کئی نسلوں کے لیے کافی تھی۔

ملک اقبال کے لیے اس سے بڑھ کر عزت کی بات کیا ہو سکتی تھی کہ چند ماہ بعد جب اس کا بیٹا بھوک اور بیماری کے ہاتھوں زندگی ہارا تو برابر ترین خود اس کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے تشریف لائے آئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments